دو بڑی سیاسی جماعتیں جو اب اپوزیشن میں ہیں اور باری باری حکمرانی کرتی رہی ہیں، نیب آرڈیننس میں ترمیم نہ کرنے کی اپنی سنگین غلطی پر کف افسوس مل رہی ہوں گی۔ شاید یہ غلطی دانستہ کی گئی کیونکہ پی پی پی اور پی ایم ایل (این) کی قیادت نیب کے آج کے انتہائی طاقتور قانون کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ قانون عمران خان کی حکومت کی طرف سے، جو خود کو کرپشن کا صفایا کرنے کی چیمپئن کہتی ہے، اُن کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔
نیب، سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی طرف سے نومبر 1999ء میں سیاستدانوں کو بلیک میل کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ انھوں نے کنگز پارٹی قائم کرنے کے لیے اسے موثر طریقے سے استعمال کیا اور پی ایم ایل (این) سے پی ایم ایل (کیو) اور پی پی پی سے پیٹریاٹ گروپ نکالا۔ کیونکہ اس کا مقصد بدنیتی پر مبنی تھا اور دراصل سیاسی جماعتوں سے کرپشن کا خاتمہ کرنا نہیں تھا، اس لیے نیب قانون میں خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی ذمے داری بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اس اصول کے بجائے کہ کوئی فرد اس وقت تک بے گناہ ہے تا وقتیکہ وہ قصوروار ثابت نہ ہو جائے، ملزم پر ڈال دی گئی۔
نیب، ملزم افراد کو ان کے معلوم ذرایع آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے پر پوچھ گچھ کے لیے بلانے کے بجائے ان کی گرفتاری کا یک طرفہ فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔ نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 کے مطابق ’’اگر عوامی عہدے پر فائز کوئی شخص یا کوئی دوسرا فرد یا اس کے زیر کفالت کوئی فرد یا بے نامی دار (کوئی اثاثے رکھتے ہیں یا اثاثوں کے ضمن میں ناقابل تنسیخ پاور آف اٹارنی کے مالک ہیں) یا ایسے مالی وسائل رکھتے ہیں جو ان کے ایسے معلوم ذرایع آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتے جن کا وہ (معقول طریقے سے) جواب نہیں دے سکتا یا (ایسا معیار زندگی قائم رکھے ہوئے ہے جو اس کے آمدن کے وسائل سے کہیں زیادہ ہے) تو وہ بد عنوانی کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے یا کرپٹ حرکات کا ارتکاب کر چکا ہے۔‘‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بد عنوان سیاستدانوں کا صفایا کرنے کے نام پر پاکستان میں سیاستدانوں کی کرپشن کے حوالے سے خصوصی قوانین بنائے گئے۔ ملک قائم ہونے کے دو سال بعد 1949ء میں لیاقت علی خان نے بد عنوانی پر قابو پانے کے لیے پبلک افسروں کے خلاف قانون متعارف کرایا۔ لیاقت علی خان، جن کی دیانتداری کا اعتراف کیا جاتا تھا، اپنے ہی ساتھیوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے اور یہ حقیقت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ انھوں نے 1949ء میں نافذ کیا۔ اس ایکٹ کے تحت اُن ٹریبونلز کی جانب سے جو اس مقصد کے لیے قائم کیے گئے تھے، سیاستدانوں کو اقربا پروری، رشوت اور بد عنوانی جیسے جرائم پر 10 سال کی مدت کے لیے نا اہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ وزیروں اور ارکان اسمبلی کے خلاف گورنر جنرل اور صوبائی گورنرز کی طرف سے الزامات عائد کیے جا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک عام شہری بھی اگر وہ 5,000 روپے سیکیورٹی جمع کرانے کی استعداد رکھتا ہو، شکایت داخل کر سکتا تھا۔
تمام فوجی آمروں نے دعویٰ کیا کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کریں گے جس نے ملک کی معاشی افزائش کو سست کر رکھا ہے۔ اینٹی کرپشن قوانین نہ صرف سیاستدانوں کے خلاف استعمال کیے گئے بلکہ انھیں ایسے سول سرونٹس کے خلاف بھی استعمال کیا گیا جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ فوجی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔
ایوب خان نے آئین منسوخ کرنے کے بعد مرکزی اور صوبائی کابیناؤں کو برطرف کیا، اسمبلیوں کو توڑا اور سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی۔کابینہ کے 150 ارکان اور 600 سے زیادہ سابق ارکان اسمبلی کے خلاف کرپشن کی فرد جرم لگائی گئی۔ ان میں حسین شہید سہر وردی اور فیروز خان نون بھی شامل تھے۔ سول سرونٹس کے خلاف کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں 1,662 سرکاری افسروں کو برطرف کر دیا گیا یا قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا گیا ۔
ایوب خان نے مارچ، 1959ء میں نافذ کیا جس کے تحت ان لوگوں کو مقدمہ کا سامنا کرنے یا سیاست سے ریٹائر ہونے کے لیے کہا گیا جن پر نا مناسب طرز عمل یا کرپشن کا شبہ تھا۔ جن لوگوں کو مجرم پایا گیا ان پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ دسمبر، 1966ء تک کوئی عوامی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ میاں ممتاز دولتانہ اور ایم اے کھوڑو جیسی اہم سیاسی شخصیات بھی کا نشانہ بنیں۔
1969ء میں جب جنرل یحییٰ خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو 303 سرکاری افسروں کو نکال دیا۔ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے ایک آرٹیکل کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف 1,300 کے قریب سرکاری افسروں کو برطرف کر کے بلکہ بہت سے ایسے تحفظات کو واپس لے کر جو ان افسروں کو یک طرفہ برطرفی کے خلاف حاصل تھے، سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے حاصل وسیع اختیارات سے فائدہ اٹھایا۔ یہ آرٹیکل ایک انگریزی اخبار میں شایع ہوا اور پاکستان کے بارے میں سیاسی مورخین کی ایک بڑی تعداد نے بھی بھٹو کی طرف سے سینئر سرکاری افسروں کو برطرف کرنے پر تنقید کی۔
1990ء کی دہائی میں بینظیر بھٹو کی حکومت کو غلام اسحاق خان نیاسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت سے 18 ماہ کے اندر برطرف کردیا۔ بینظیر کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف متعدد مقدمات بنائے گئے۔ اس کے 32 ماہ بعد اسی غلام اسحاق خان کو عبوری حکومت میں پی پی پی کے نمایندے کے طور پر آصف زرداری سے، ان پر عائد کیے جانے والے تمام الزامات کو چھوڑ کر وزیر کی حیثیت سے حلف لینا پڑا۔
مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ اُن دنوں میں کسی طرح زرداری کے خلاف من گھڑت خبریں شایع کرائی جاتی تھیں۔ صرف یہی نہیں، 1990ء کے انتخابات میں پی پی پی کو شکست دینے کے لیے دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا ۔ پی پی پی کے خلاف اس اتحاد کی کہانی اصغر خان کیس میں منظر عام پر آئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی حکومت کو صرف 32 ماہ برداشت کیا ، اگر چہ انھوں نے خود کو سپریم کورٹ سے بحال کروا لیا تھا مگر پھر انھیں استعفا دینا پڑا۔
میں یہ نہیں پوچھ رہا کہ آصف زرداری کے خلاف الزامات سچ ہیں یا نہیں بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہر مرتبہ حکومت کی تبدیلی سے مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لیے خاصی پولیٹیکل انجنیئرنگ کی گئی۔ کرپشن کو اکھاڑ پھینکنے کے نام پر کیے جانے والے تمام دعوے اور اقدامات پاکستان میں کرپشن مافیا کو ختم کرنے میں ناکام رہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کرپشن قوانین کو انتخابی نتائج اور اپنی پسند کی حکومت لانے کے لیے جوڑ توڑ کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس بار وہ ایک ایسی نئی حکومت لائے ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ اس پر کنٹرول رکھ سکتے ہیں۔