تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان
سچ بول کر منہ چھو پا نا تو پاکستان کی عوام نے اپنے سیاسی لیڈروں کا دیکھ ہی لیا وزیر داخلہ چوہدری نثار کے منہ سے سچ نکل میڈیا کے سامنے نکل ہی گیا وہ جس سرو ساز میں بات کریں بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ نیب کی کا روائیوں کی طر ف اشارہ تھا موصوف نے حال ہی میں کہا کہ جس کی دم پر میرا پائوں آجائے وہی چیخنے لگ جاتا ہے اب ان کی بات درست ہوتی نظر آرہی ہے جا تی امرا ء شر یف بر ادران کی دُموں پر ان کا پیرآہی گیا ہے۔نیب زر داری و ہا ریوں اور سرکاریوں کے زیر تفتیش مقدمات کو فائنل کرچکی ہے۔ اور اب صرف مقدمات کو چلانے کی اجازت لینا اور اس کا نوٹیفکیشن لینا ہی باقی رہتا ہے۔خود ہی کنو اں کھو دا اس میں خود ہی اب گر نے کے قریب پہنچے ہیں اس طرح بالآخرنیب نے حکمرانوں ، اس کی فرینڈلی اپوزیشن ان کے ساتھی بیورو کریٹوں اور کاروباری صنعتکار دوستوں کرپٹ وڈیروں انگریز کے جا نشینوں، جاگیرداروں کی کرپشنوں پر تحقیقات مکمل کر ہی لی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شیر کی دم پر پائوں آتے ہی بلبلاہٹ اور غراہٹ شروع ہو گئی ہے۔حتیٰ کہ عمرانی جیالوں اورکے پی کے کے وزراء کی کرپشنیںبھی زبان زد عام ہیں۔اب بطور وزیر اعظم نیب پر تنقید کرنا ان کے شایان ِشان نہیں لگتا۔ایف آئی اے ،نیب اگر کرپٹ حکمرانوں یعنی مرکزی ،کے پی کے اور سندھ کی حکومت کے کار پردازوں پر ہاتھ ڈالنے لگی ہے اور ان کی پکڑ دھکڑ کی تیاریاں کر لی ہیں ۔تو چیخ و پکار کہ حکومت انھیں ایسا نہیں کرنے دے گی۔اور یہ کہ وہ شریف افسران یعنی حکومت کے یاروں کو دھمکانا بند کریں وگرنہ حکومت اپنا راستہ اختیار کرے گی۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہاراکی طرح کوئی نام نہاد آرڈیننس لانے کی باتیںہورہی ہیں تاکہ نیب کو نتھ ڈالی جاسکے مگر جو دوسروں کے لیے کنواں کھودتا ہے خود ہی اس میں گر کر رہتا ہے۔اب نیب کے اختیارات کو کم کرنا کسی صورت ممکن ہی نہ ہے کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے۔مقدمات فائنل ہو چکے ہیں سپریم کورٹ تک میں لسٹیں داخل کی جاچکی ہیں اب تو صرف اتنا دیکھنا ہے کہ پکڑ دھکڑ میں کون اول دوئم پوزیشنوں پر آتا ہے۔ پاکستانی عوام تو ان کے خزانوں کو لوٹ لوٹ کر بیرونی ممالک کے بنکوں کو بھرنے کے عمل کو انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی نیب خود انھی کی گردنوں میں رسہ ڈال کرگھسیٹنے کی تیاریوں میں ہے عوام تو چاہتے ہیں کہ بڑے بڑے مگر مچھوں،اژدھا نما جاگیرداروں انگریز کی ناجائز اولاد وڈیروں مزدوروں کا خون چوسنے والے سود خور صنعتکاروں کو کھلے عام چوکوں چوراہوں پر لٹکایا جائے ۔ان کے ناجائز حرام مال سے ڈھول بنے ہوئے پیٹوں کو پھاڑ کر غریب عوام کے ملک کا سرمایہ برآمد ہو۔اوراس سے ہم سال 2016میں واجب الادا اُدھار لی گئی رقوم کی قسط50ارب ڈالر ادا کرنے کے قابل ہو سکیں اگر اب آمدہ قسط ہم ادا نہ کرسکیں یا کسی سے مزید قرضے لے کراور ذاتی صنعتیں اونے پونے داموں بیچ کربھی ہمیں ہڑپ کرنے کی خواہشمند سامراجی قوتوں سے جان نہ چھوٹی تو ہم ڈیفالٹ ملک قرارپا جائیں گے۔
میرے منہ میں منوں خاک کہ ایسا ہو مگر حکمرانوں کے اللے تللے،عیاشیاںاور جو پراجیکٹ عوام سنے کبھی مانگے ہی نہیں ان پر کھربوں لٹا ڈالنا کہاں کی عقل مندی ہے کوئی ملک دشمن یا پاگل بھی ایسے عمل نہیں کرسکتا جو حکمران خود بخود کرنے پر تلے ہوئے ہیں لاہور شہر سارا اکھاڑ ڈالا ہے کس احمق نے ان کو یہ مشورہ دیا۔لگتا تو بالکل نہیں کہ کسی بھی بھوک سے بلکتے ،خود کشیوں پر تیار،غریب شخص نے ایسا بیوقوفانہ مطالبہ کیا ہو گادراصل مال بنائو اور بھاگ جائو “زرداری ایکشن “اب موجودہ شریفین بھی کرنا چاہتے ہیں۔
اب دور دور تک آئندہ انتخابات میں کامیابی کا امکان کسی شریف اور عمران کانظر نہیں آتااس لیے مال متال بنا کر بیرون ملک میں تیار کردہ پلازوں ،فلیٹوں کو ہی شریفین سدھار جانا چاہتے ہیں۔اور عمران وہی دھاندلی کا رونا رونے اور دھرنوںمیں مشغول رہے گا۔مگر کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے شہنشائے ایران کو تو کفن دفن کی بھی نہ تو مہلت ملی اور نہ کوئی ملک دفنانے کے لئے دو گز جگہ دینے کو تیار تھااور کئی بادشاہتیں تو ایسی بھی گذری ہیں کہ سونا جواہرات زیر زمین تہہ خانوں کے محلات میں جمع کیے اور جب براوقت آن پہنچا عوام اٹھ کھڑی ہوئی توفرار ہونے کی کوششوں پر اپنے ہی محافظوں نے بھون ڈالا۔
اب تو لگتا ہے کہ احتساب کے معنی ہی تبدیل ہو گئے ہیں اور صرف مخالفین پر ہی اس کا کوڑا برس سکتا ہے یا لوہے ترکھانے سے درجنوں فیکٹریوں کے مالک بن جانے والے بھی اس کی زد میں آسکیں گے قوم مکافات عمل کی منتظر ہے اور خدائی طاقت تو گدائوں کو شہنشاہ اور شہنشائوں کو گدا بنا سکتی ہے۔اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ اپنے بچائوکے لیے آئین کی دفعات اسمبلی قراردادیں آرڈیننس ان کھٹن مرحلوں کوطے کر پائیں گے خدا کی طرف سے قرار دیے گئے دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام سود کے پیروکارصنعتکارخواہ حکمران ہوں یا پی پی یا عمرانی چرنوں میں چھپے ہوئے ہوں لوڈ شیڈنگ تک ختم نہ کرسکے بچوں کو تعلیم پر آمادہ تو کیا کریںگے۔
بہاولنگر کے غریب طالبعلم نے میٹرک میں ٹا پ پنجاب حکو مت وظیفہ کا علا ن کر کے اسے وظیفہ نہیں دے رہی وزیر اعلیٰ سیکریٹری و وزارت تعلیم مگر اسے نہ وظیفہ مل سکا اور نہ وہ تعلیم جاری رکھ سکا۔احتساب قوانین میں تبدیل کے لیے اسمبلی سے ترمیم لانے کی کوششیں عروج پر ہیں تاکہ کرپٹ حکمران سیاستدانوں پر ہاتھ نہ ڈالا جاسکے ایسی ترمیم کے لیے اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں اضافہ کی طرح حکمران،فرینڈلی اپوزیشن اور نام نہاد نیا پاکستان بنانے کے علمبردارعمران بھی متفق ہیں کہ ان سبھی کے کسی بھی ساتھی کو نیب گردن زدنی قرار نہ دے سکے۔
جب کہ معیشت سکڑ رہی ہے اور جغادری سیاستدانوں کے بنک اکائونٹس اندرون و بیرون ملک ہاتھی کے پیٹ کی طرح پھولتے جارہے ہیں ۔ایسے افرادکی منقولہ و غیر منقولہ جائدادیں نیب و احتساب عدالتیں ضبط کر کے ان نا سور وں کو ختم یاپھر پھا نسی و زند گئی بھر قید خا نوں میں قید کر دیا جائے تو ملک پا کستان کے لیے کو ئی بہتر لیڈر آنے کی توقع کی جا سکتی ہے ویسے تو حکمرانوں سرکا ری اداروں کا پورے کا پورا آ وہ ہی بگڑا ہوا ہے۔
تحریر : ڈاکٹر امتیاز علی اعوان