اسلام آباد: چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب کسی سے ذاتی اور سیاسی انتقام پر یقین رکھتا اور نہ نیب کا الیکشن سے کوئی تعلق ہے ،ہم کرپشن فری پاکستان کے لیے پر عزم ہیں، ہمارے ارادے پختہ اور بدعنوانی کا خاتمہ نہ صرف نیب بلکہ پوری قوم کی آواز ہے ہم سب ملکر اپنے پیارے وطن پاکستان کو بدعنوانی سے پاک کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔نیب کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق جسٹس(ر)جاویداقبال کا کہناتھاکہ انہوں نےنیب میں جہاں صرف کام اور کام کے کلچر کو فروغ دیا وہاں نیب افسروں، اہلکاروں کو اپنے کام کی رفتار بڑھانے کی ہدایت کی تاکہ پاکستان سے بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں، 10اکتوبر 2017کے بعد 300افراد کو گرفتار، 71شکایات کی جانچ پڑتال، 44انکوائریوں، 34انوسٹی گیشنز کی قانون، میرٹ اور شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے منظوری دی جن پر قانون کے مطابق کام جاری ہے، مختصر وقت میں بدعنوانی کے 240ریفرنس متعلقہ احتساب عدالتوں میں نہ صرف دائر کیے بلکہ 35ملزمان کو متعلقہ احتساب عدالتوں نے قانون مطابق سزادی جو کہ نیب کی شاندار کار کردگی کی عکاسی کرتا ہے۔جبکہ دوسری جانب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران انتخابات 2018 سے متعلق ریمارکس میں زور دیا ہے کہ یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہوں گے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ورکر پارٹی کیس کی سماعت کی، جس میں الیکشن کمیشن کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر ضابطہ اخلاق بنایا۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس ضابطہ اخلاق کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ انتخابی اصلاحات پر 2012 میں فیصلہ دے چکی ہے اور اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کا بھی تعین کر دیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات 2 یا 3 ماہ کے لیے ملتوی کرنے والی بات ذہن سے نکال دیں، انتخابات وقت پر ہوں گے۔الیکشن کمیشن حکام نے ورکر پارٹی کیس کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی اور سیاسی جماعتوں کی باہمی رضا مندی سے ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا، جیسا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو شفاف اور غیر جانب دار انتخاب کرانے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی تھی۔اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن خود کو با اختیار سمجھتا تو کاغزات نامزدگی کا تنازع ہی کھڑا نہ ہوتا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب کیا کیا جا سکتا ہے، نئے کاغزات نامزدگی کی وجہ سے بہت سے امیدوار معلومات اکٹھی ہی نہیں کر سکے۔دوران سماعت الیکشن کمیشن حکام نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی منظوری کے بعد دوبارہ ضابطہ اخلاق پر نظر ثانی کی گئی اور انتخابات 2018 کے لیے نیا ضابطہ اخلاق تیار کیا۔اس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ یہ درست نہیں ضابطہ اخلاق 2017 میں ہی جاری ہوا، کاغذات نامزدگی کا معاملہ عدالت کے سامنے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اب اگر پرانے کاغزات نامزدگی بحال کیے جاتے ہیں تو اُمیدواروں کو بہانہ مل جائے گا کہ ہمارے پاس معلومات نہیں ہیں، اس لیے چاہتے ہیں کہ انتخابات تاخیر کا شکار نہ ہوں۔عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ عوامی ووٹوں سے بننے والی پارلیمنٹ با اختیار ہے اس نے قانون سازی کر دی ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں، اب قانون سازی ہو چکی ہے۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 6 جون تک کے لیے ملتوی کر دی۔