ہمارے شناختی کارڈ کی معیاد ختم ہو رہی تھی سوچا اسے رینیو کرا لیا جائے
اب ہمیں کیا خبر تھی یہ کوئی کام نہیں بلکہ مہم تھی جو ہم بے خبری میں سر انجام دینے جارہے تھے
لو جی اللہ کا نام لے کر باہر نکلے راہ چلتے ایک بندے سے رستہ پوچھا نادرا کہاں ہے وہ شخص تپا ہوا لگتا تھا جل کر بولا—جہنم میں ہوگی –ہیں—— نادرا کا ا دفتر جہنم میں ہے کیا ہم نے ہنستے ہوئے جواب دیا یہ اور بات ہے اس نے سنا نہیں –مذاق میں کہی اس بات نے بعد میں ثابت کر دیا کہ نادر ا کا دفتر تو جہنم میں نہیں البتہ وہاں کام کرنے والے ضرور جہنمی ہیں— خیر پوچھتے ہوئے ہم نادرا کے دفتر پہنچ گئے اور وہاں ایک لمبی قطار دیکھ کر ہوش گم ہوگئے ہمت جمع کر کہ قطار میں کھڑے ہوگئے–اس سے پہلے ہماری باری آتی بارہ بج گئے اور دفتر بند—شدید کوفت اٹھا کر ہم واپس—-دوسرے دن دوبارہ دعاکرتے دفتر پہنچے —- اپنی باری پر
کاونٹر پر جا کر بتایا کہ شناختی کارڈ رینیو کرانا ہے اس نے ہماری بات بھی پوری نہیں سنی فٹ کہ دیا جی یہ گیٹ نمبر 2 پر ہو گا—- مرتے کیا نہ کرتے گیٹ نمبر دو پر گئے وہی ہوا باری نہیں آئ اور وقت ختم —— تنگ آخر ایک دوست سے کہا انہوں نے بتایا نادرا کا وی آئ پی دفتر ہے وہاں چلیں کام ہو جائے گا—-وہاں گئے پتہ چلا سارا کمپیوٹر سسٹم ہی خراب ہوا ہے لہذا کچھ نہیں کیا جا سکتا— ہم پهر واپس — آج دوبارہ نادرہ کے دفتر گئے تو کبھی اس برانچ کبھی اس برانچ کے چکر لگا کر جب گھر پہنچے تو تب سے یہی سوچ رہی ہوں — یہ کیسے لوگ ہیں کوئی بھی کام سیدھے طریقے بغیر رشوت یا سفارش سے کیوں نہیں کر سکتے ہزاروں لوگ ہر روز دفتروں میں بیٹھے ان کام چوروں خرکاروں بے ایمان لوگوں کی بے حسی اور کام چوری کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں
اپنے ہی وطن میں اپنے ہی شناختی کارڈ کے لیے اتنی خواری ———لمحہ فکریہ