counter easy hit

نادرا کے نام

Women Voters

Women Voters

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
جیسا کہ پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ پہلے مرحلے کے بعد دوسرا مرحلہ 19 نومبر جبکہ اس کے بعد تیسرا اور آخری مرحلہ بلدیاتی انتخابات کا ہوگا پہلے مرحلے میں نادرا کی اغلاط ووٹر لسٹوں میں بے شمار سامنے آچکی ہیں، حکومت کی نیت پر شک کئے بغیر ووٹروں ، سپورٹروں اور امیدواروں کی پرشانی کا ازالہ کس نے کرنا ہے،جب ووٹر خواتین و حضرات اپنا ووٹ چیکے کرتے ہیں تو 20,20 کلومیٹر دور ووٹر کا ووٹ بنا دیا جاتا ہے۔

جس کا کاسٹ ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، بعض ووٹرز کی ایسی بھی شکایات سامنے آئی ہے کہ تحصیل اور ضلع کو ہی تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ بات نادرا کی ہو رہی ہے توبتاتا چلوں کہ نادرا ( نشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) وفاقی حکومت کا کماؤں پتر ہے۔اس پر پورے پاکستانیوں کو فخر بھی ہے اور ناز بھی ہے۔ دور حاضر میںجدت پسندی کی اہمیت و افادیت ماضی کے مقابلے میں زیادہ بڑھ گئی ہے۔نادرا کے فعل ہونے سے مختلف اقسام کے جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے۔

اکشر سیاست دانوں اور بیوروکریسی سمیت زمہدران افسران کو میڈیا سے گلہ شکوہ ہوتا ہے کہ میڈیا والے صرف منفی پہلوں اور محکموں کی خامیوں کو نمایاں کر کے بدنام کرتے ہیںاور میڈیا کی آڑھ میں اپنے جائز و ناجائز کام کرواتے ہیں۔ جیسے ایک ہاتتھ کی پانچ اُنگلیاں برابر نہیں ہوتی اسی طرح صحافت میں بھی سب میڈیا والے ایک جیسے نہیں ہوتے۔گنتی کے دو چار آدمی اگر صحافت کا لبادہ اوڑھ کر اس مقدس پیشے کو بدنام کر رہے ہیں تو صحافی تنظیمیں بھی اپنی زمہ داری سے غافل نہیں رہ سکتی۔

Journalism

Journalism

ہر جگہ ایسے نام نہاد صحافیوں کے خلاف جہاد ہو رہا ہے ۔اور مجھے سلام پیش کرنا ہے ان میڈیا پرسن کو جو صحافت کے فراہض ادا کرتے ہوئے ہر وقت قلمی جہاد کا علم بلند کرتے نظر آتے ہیں ، سرکاری اور غیرسرکاری طور پر بھی صحافی برادری جو ملک و قوم کی ترقی کے لئے ظالموں اور شیطانوں کے سامنے سینہ تان کر فرنٹ لائین کا کردار ادا کر رہے ہیں ان کی بھی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

بات نادرا سے صحافت پر چلی گئی، چھ ماہ قبل ایک محفل نعت پوران منعقد ہوئی جس میں میرے ایک دوست کا عمرہ کا ٹکٹ نکل آیا، دوست سفید پوش ضرور ہے مگر پانچ وقت کا نمازی اور ڈیوٹی کو ڈیوٹی سمجھ کر اپنا کام کرنے والا ہے۔ مبارک ہو مبارک ہو ، مبارکبادیں دوست کو مل رہی تھی۔۔۔ اللہ پاک اور پیارے نبی ۖ کے در پر حاضری ہو بس یہ ہی تمنا لئے پاسپورٹ آفس رابط کیا تو انہوں نے اسمارٹ کارڈ بنوانے کا مشورہ دیا۔ 1500 روپے کا ٹوکن لیا فوٹو اور ڈیٹا اپ لوڈ کروانے کے بعد ٹوکن لئے گھر آگیا۔

NADRA

NADRA

جب ڈیلیوری تاریخ کو نادرا آفس پہنچا تو کارڈ کی بجائے کہا گیا کہ آپ کے والد کسی اور خاندان کے سرپرست بھی ہے پہلے وہ کینسل کرواؤ پھر ، میرے دوست نے نادرا آفس جلہم کے متعلقہ آدمی کو بتا یا ایسا کچھ بھی نہیں تو انہوں نے ایک چیچازاد ہمشیرہ کا نام دیا اور دوست نے بتایا وہ تو بیرون ملک ہے نادرا آفس میں موجود شخص نے فتویٰ جاری کیا کہ اس کو بیرون ملک سے پاکستان بلاؤ پھر مسلئہ حل ہوگا۔ ورنہ نہیں ۔دوست بے چارہ دیگر سفید پوش پاکستانیوں کی طرح چار پانچ ماہ در در کی ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ ہر بار ایک نئی کہانی ڈرامائی صورت میں پیش کردی جاتی ہے۔ لگتا ہے عام آدمی کے لئے امریکہ کا ویزہ حاصل کرنا آسان مگر نادرا سے اپنا آئی ڈی کارڈ زلالت کے بغیر حاصل کرنا مشکل ہے۔

دوست نے کہا بیس سال سے شناختی کارڈ استعمال کر رہا ہوں دوتین بار گم ہوا تھا اور ایک بار ایکسپائر ہوا تھا تب کمپیوٹرنے کوئی اعتراض نہ لگایا اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے موقع پر کیوں کمپیوٹر میرے کارڈ کو روک رہا ہے؟ جب میرا دوست بیرون ملک تھا تب اس نے اورسیز کارڈ بنوایا تھا۔۔۔ دوست نے دوسرے نادرا آفس ضلع گجرات سے اس کارڈ پر اپلائی کیا تو کارڈ بن گیا وہ بھی انگلش جسکی بنیاد پر اب اس کا پاسپورٹ جمع ہو گیا ہے۔

وفاقی حکومت کا چہتا پتر نادراکچھ کاموں کی عوام کو بلکل سمجھ نہیں آتی۔جیسا کہ اگر کسی آدمی کا آئی کارڈ گم ہو جائے تو نادرا والے گمشدہ کی ایف آئی آر کا مطالبہ کرتے ہیں ، جو غیر ضروری ہے،کیونکہ ملک میں بائیومٹرک سسٹم فعل ہونے سے آئی ڈی کارڈ کا غلط استعمال نہیں ہو سکتا، اور پھر مزدور کی دہیاڈی کا مسلئہ بھی نہیں ہوگا، اور غریب مسکین کو شناختی کارڈ کے لئے پولیس رپورٹ حاصل کرنے کے لئے پولیس کو رشوت یا سیاستدان کے تلوے پولیس رپورٹ حاصل کرنے کے لئے چاٹنے نہ پڑے گئے، نادرا میں جب بھی آئی ڈی کارڈ یا فارم بے کے لئے جانے کا اتفاق ہو تو ہر بار فارم تصدیق کروائے جاتے ہیں جن کا صرف ایک ہی مقصد نظر آتا ہے ،پاکستانیوں کو زلیل کرنا کیونکہ ڈیٹا تو پہلے ہی نادرا کے پاس ہوتا ہے۔ ماسوائے وہ کیس جو پہلی بار کمپیوٹرائزڈ ہو رہے ہیں۔

Bio-metric System

Bio-metric System

اسی طرح اب تمام یونین کونسل نادرا سے منسلک ہیں مگر بچوں کے انداج یعنی فارم بے یا آئی ڈی کارڈ کے لئے اپلائی کرنے والوں کے لئے تصدیقی عوامل لازمی ہے حالانکہ یونین کونسل کا برتھ سرٹیفیکیٹ بھی نادرا ہی جاری کرتا ہے۔نادرا آفس میں آنے والے سائلین کے لئے بائیومٹرک سسٹم والی مشینین نصب ہوں تا کہ احباب اختیار کو یہ باور ہو سکے لوگوں کو ایک کارڈ کے لئے کتنی بار اور کہاں کہاں سے آنا پڑتا ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ ہر یونین کونسل جو پہلے سے ہی نادرا کے ساتھ منسلک ہے جو وہ برتھ سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ہے اس کو فارم بے کا درجہ مل جائے؟ پاکستانیوں کے لئے اب حکومت کی طرف سے یہ بھی خوشی کی خبر ہے کہ کمپیوٹرائزڈ برتھ سرٹیفیکیٹ کی فیس بلکل ختم کر دی گئی ہے ، کاش حکومت یونین کونسل کے نخروں سے عوام کو بچانے کے لئے عملی اقدام اٹھائے۔

یعنی بچے کی پیدائش کے انداج کے لئے والدین کی شناخت کافی سمجھی جائے یا پھر اگر گاؤں میں نمبرداروں اور شہروں میں کلاس ون گریڈ 17 کی تصدیق اگر لازمی ہے تو پھر جب لوگ یونین کونسل سے برتھ سرٹیفیکیٹ کے لئے رابطہ کرتے ہیں تو ایک تاریخ پیدائش کا سرٹیفیکیٹ مینول دیا جاتا ہے ساتھ ایک کمپیوٹر سرٹیفیکیٹ کے اجراء کا فارم ۔۔۔ جس کو مکمل کر کے پھر نمبردار کی تصدیق یا گریڈ 17 کے افسر کی تصدیق مانگی جاتی ہے، جو بلکل غیر ضروری ہے۔

ہم وقت حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ پاکستانیوں بلخصوص غریب عوام کے حال پر رحم کھا کر نادرا کے کمپیوٹر کو یہ بات سمجھا دی جائے۔۔۔۔۔۔ کہ نادرا کو کوئی حق نہیں کسی کی عذت نفس کو مجروع کرنے کے لئے غیر ضروری اعتراضات اور غیر ضروری تصدیقیں کروانے سے روکا جائے۔

ایک آخری بات بندہ ناچیز ذاتی طور پر بے شمار لوگوں کو جانتا ہے جو آئے روز نادرا آفس کا مسلسل چکر پہ چکر لگا رہے ہیں وہ بھی کوئی ایک آدھ دن سے نہیں ،ہفتوں اور مہینوںکی بھی بات نہیں بلکہ سالوں کی مسافت بھی بے چاروں کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نہ دلواسکی ۔ معاملہ کچھ بھی ہو آخر وہ بے چارے پاکستانی شہری ہیں،نادرا اور حکومت کو اس سلسلے میں اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔

Dr Taswar Hussain

Dr Taswar Hussain

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا