نئی دلی: بینیڈکٹ جیبوکمار پیشے کے لحاظ سے ایک انجینیئر ہیں لیکن وہ 2012 سے اپنے فارغ وقت میں سڑکوں سے کیلیں اٹھاتے ہیں۔ ان میں سے کئی کیلیں بالکل نئی ہوتی ہیں کیونکہ پنکچر بنانے والے افراد جان بوجھ کر اپنی دکان سے کچھ فاصلے پر یہ کیلیں جان بوجھ کر پھینکتے ہیں۔
بھارتی انجینیئراکثر بینگلورو کے آؤٹر رنگ روڈ سے کیلیں جمع کرتے رہتے ہیں۔ کئی برس قبل جیباکمار نے محسوس کیا کہ جیسے ہی وہ آؤٹر رنگ روڈ سے گزرتے ہیں اکثران کی گاڑی یا موٹرسائیکل کا ٹائر پنکچرہوجاتا ہے۔ پہلے پہل انہوں نے اسے نظراندازکردیا لیکن انہوں نے غورکیا کہ آگے ہی ٹائربنانے والوں کی کئی دکانیں قطارمیں موجود ہیں اوران کا کاروباربھی خوب اچھا چل رہا تھا۔ کئی دفعہ کی کوشش کے بعد جیباکمار کو علم ہوا کہ چالاک پنکچر والے جان بوجھ کر سڑک کے کنارے کیلیں پھینک رہے ہیں۔ انہوں نے قریبی پولیس اسٹیشن میں اس کی شکایت کی تو کوئی سنوائی نہ ہوئی اور اس کے بعد انہوں نے سڑک سے خود کیلیں چننے کا فیصلہ کیا۔
اس نے غور کیا کہ بالکل نئی کیلیں پنکچر دکانوں کے قریب بکھیری جاتی ہیں اور وہ اپنے فارغ اوقات میں انہیں جمع کرنے نکل جاتے ہیں ۔ گزشتہ 5 برسوں میں وہ 50 کلوگرام سے زائد کیلیں جمع کرچکے ہیں جو بالکل نئی لگتی ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے مچھلی پکڑنے کی ایک چھڑی پر مقناطیس لگایا جسے وہ سڑک پر پھیرکرکیلیں جمع کرتے ہیں۔
اکثر وہ اپنے گھرسے صبح سات بجے نکلتے ہیں اور کیلیں جمع کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے دفترچلے جاتے ہیں اورشام کو گھرلوٹنے سے قبل ایک مرتبہ پھراس علاقے سے کیلیں چنتے ہیں کیونکہ پنکچر مافیا صبح کیلیں اٹھاتے ہی مزید کیلیں وہاں پھینک دیتا ہے۔ 2016 کو ایک دن انہوں نے 1645 سے زائد کیلیں جمع کی تھیں اور اب ان کے پاس 50 کلوگرام کیلیں موجود ہیں۔
خوش قسمتی سے گزشتہ برس ان کی گاڑی اور موٹرسائیکل پنکچر نہیں ہوئی کیونکہ اب انہیں سڑک کو دیکھنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔ جیباکمار نے ’ میرے روڈ ، میری ذمے داری‘ کے نام سے ایک فیس بک پیج بنایا ہے جس پر وہ اپنی روزمرہ کارکردگی کی ویڈیو اور معلومات شامل کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود اب تک کوئی خاص کارروائی نہیں ہوئی اورصرف دو مرتبہ پنکچر والے پکڑے گئے جو تین ماہ بعد جیل سے واپس آگئے اوراپنا پرانا کام شروع کردیا یعنی چند روپوں کی خاطر لوگوں کی گاڑیوں کو پنکچرکرنا۔