یہ جنگِ یمامہ کے بعد کسی بھی واقعے میں حفاظ کرام کی سب سے بڑی شہادت تھی۔ جنگِ یمامہ مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی جس میں 700 حفاظ سمیت 1200 صحابہ کرام نے عقیدہ ختم نبوت صلی علیہ والہ وسلم کے تحفظ کے لیے جام شہادت نوش فرمایا۔ ایک دہائی قبل باجوڑ کے ایک مدرسے پر بھی حملے میں 80 افراد شہید ہوئے تھے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر حملہ بھی ہماری حالیہ تاریخ پر ایک بدنما داغ ہے جو کبھی نہ مٹ سکے گا۔
کل جب قندوز کے ایک مدرسے پر دستار بندی کی تقریب کے دوران وحشیانہ بمباری کی جا رہی تھی، اسی وقت عالم اسلام کے خود ساختہ ٹھیکیدار محمد بن سلمان اسرائیل کے وجود کے حق میں اپنے بیانات جاری فرما رہے تھے۔
رواں ہفتہ امت مسلمہ پر بہت بھاری گزر رہا ہے۔ پہلے فلسطینیوں کا قتل عام ہوا، پھر کشمیریوں پر زمین تنگ ہوئی اور کل قندوز کے مدرسے پر یہ قیامت گزری۔
دین کے طلباء اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مہمان ہوتے ہیں۔ اس تقریب دستار بندی میں حملے سے پہلے کی ننھے حفاظ کرام کی جو تصاویر سامنے آئی ہیں وہ خون کے آنسو رلانے کا سامان ہیں۔ ہر ایک معصوم بچے کا علیحدہ علیحدہ نوحہ لکھنے کو دل کرتا ہے لیکن اتنا ضبط نہیں کہ آنکھوں کے سامنے ان معصوم بچوں کو رکھ کر ان کی معصومیت پر کچھ لکھا جائے۔
احادیث کی کتب میں آتا ہے کہ قیامت کے دن حفاظ کرام کے والدین کو روشن تاج پہنائے جائیں گے جن پر انبیاء بھی رشک کریں گے۔
سفید کفنوں میں ملبوس، سروں پر جنت کے تاج سجائے، گلوں میں حب نبوی صل اللہ علیہ والہ وسلم کے ہار پہنے، چہروں پر بلا کا اطمنان اور سکون لیے، آنکھوں میں راضی ہو جانے کی چمک لیے، لبوں پر فتح کی مسکراہٹ سجائے یہ ننھے قاری ایک بارات لیے جنت الفردوس کے مالک بن چکے ہیں۔ یقیناً انکی آمد پر اللہ کا عرش جھوم اٹھا ہوگا۔
معوذ رضی اللہ عنہ اور معاذ رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر اپنے دوستوں کا استقبال کیا ہوگا۔ اس وقت وہاں خوب رونق لگی ہوگی۔
یہ بچے خود تو جنتی لباس پہن کر سرخرو ہوئے لیکن ہم پر احساس ندامت کے بھاری بوجھ چھوڑ گئے ہیں۔ انکی رخصتی سینکڑوں سوالوں کے جواب مانگتی ہے۔ عراق، شام، مصر، لیبیا، یمن، تیونس، افغانستان اور کشمیر میں گزرنے والی قیامتیں غفلت اور فرقہ واریت میں ڈوبی اس امت کو کب جگا پائیں گی؟
کیا ہمارے آپس کے جھگڑے ہمیں اسی طرح تقسیم در تقسیم کر کے جگ ہنسائی کا باعث بنتے رہیں گے یا ہم قندوز کے ان شہداء کے صدقے اتحاد کی طرف توجہ دیں گے؟
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے۔
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے۔
راحیل شریف والے ‘اسلامی’ اتحاد سے گزارش ہے کہ کرنا تو آپ نے کچھ نہیں لیکن کم از کم دو سطری بیان ہی جاری کر دیا کریں تاکہ آدھی امت اس پر ہی خوش ہو جائے۔