تحریر : مسز جمشید خاکوانی
پاکستان کی تاریخ ایسے کئی گمنام ہیروز کی حیران کن کہانیوں سے بھری پڑی ہے جو بہت زیادہ شہرت کے مستحق تھے مگر ہمارے نوجوان اور بچے ان کے متعلق کچھ نہیں جانتے میڈیا میں منفی خبریں ،تصاویر ،کرپٹ سیاستدانوں کی خبریں تو بہت زیادہ جگہ پاتی ہیں لیکن کئی متاثر کن لوگ اور انکی کہانیاں نظرانداز کر دی جاتی ہیں آج کچھ ایسی کہانیاں سنیے جن پر آپ یقیناً فخر کریں گے پہلی کہانی عالم خان برادرز کی ہے یہ کہانی محبوب عالم خان اور امیر النساء بیگم کے نو بیٹوں کی کہانی ہے ۔محبوب عالم خان متحدہ ہندوستان میں سروے سپروائزر تھے ان کے نو بیٹوں نے افواج پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور 1965اور 1971کی جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھائے اور بہت سی نیک نامی اور عزت کمائی ان میں سے ایک بھائی نے 1967۔میں بھارت کے خلاف ایک معرکہ میں جام شہادت نوش کیا
جبکہ ایک بھائی نے 1971کی جنگ میں وطن کی حرمت پہ جان نچھاور کی ایک وقت میں اتنے سارے بیٹے محاذ جنگ پر بھیجنے والی امیر النساء بیگم نے جب اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سنی تو اس عظیم ماں نے ایک تاریخی فقرہ بولا اور کہا اگر میرے اتنے ہی اور بیٹے ہوتے تو میں خوشی خوشی جنگ کے محاذ پر روانہ کر دیتی پاکستان کیا دنیا بھر میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اتنی تعداد میں بھائیوں نے ایک ساتھ وطن کے دشمنوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا ہو اور مادر وطن پر وارے گئے ہوں ۔ان نو بھائیوں کے نام بریگیڈیر ظاہر عالم خان،کرنل فروز عالم خان،سکواڈرن لیڈر شعیب عالم خان،جنرل شمیم عالم خان،وائس ایڈمرل شمعون عالم خان ،ونگ کمانڈر آفتاب عالم خان ،فلائٹ آفیسرمشتاق عالم خان ،کیپٹن اعجاز عالم خان ،اور لیفٹیننٹ جنرل جاوید عالم خان تھے۔
ان میں سے ونگ کمانڈر آفتاب عالم خان کو 1965کی جنگ میں داد شجاعت دینے پر ستارہ جرت دیا گیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ میں نے فوج صرف اپنا فرض ادا کرنے کے لیے جوائن کی ہے ۔جنرل شمیم عالم خان ریٹائرمنٹ سے قبل چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے عہدے پر فائز رہے۔پاک فوج نے ہر دور میں جرت وبہادری کی بے مثل داستانیں رقم کی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسانیت دوستی کی مثالیں بھی قائم کی ہیں ان میں ہمارے موجودہ سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے بھائی میجر شبیر شریف شہید کا نام سنہرے حروف میں لکھا نظر آتا ہے ان میں جرت و شجاعت کے ساتھ ساتھ انسانیت نوازی کی وہ صفت موجود تھی جو ایک مرد مومن کی ہی صفات ہو سکتی ہیں۔
یہاں میں کچھ واقعات رقم کرتی ہوں پاک فوج نے مشرقی محاذ سے توجہ ہٹانے کے لیے اور مغربی محاذ پر دبائو بڑھانے کا فیصلہ کیا تو بھارتی افواج نے پیشگی اس خطرے کو بھانپ لیا اور مغربی سرحد پر ایک مصنوعی پہاڑی بنا لی جسے سنونہ کہا جاتا ہے اس پہاڑی کی وجہ سے بھارتی فوج کو دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں آسانی ہو گئی پہاڑی کے سامنے ایک اور رکاوٹ کے طور پر دریا کھودا گیا تاکہ پاک فوج پیش قدمی کرتے ہوئے آرٹلری استعمال نہ کر سکے اس دریا پر دو پل تھے جو بھارتی فوج کے زیر انتظام تھے ۔ان حالات میں میجر شبیر شریف کو حملے کا ٹاسک دیا گیا تین دسمبر کو بھارتی گائوں بیری والا عبور کر کے پاک فوج کے جوانوں نے اللہ ھو اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے یلغار کر دی دو بنکر پہلے ہی ہلے میں تباہ ہو گئے۔
تیسرے بنکر کے سامنے کھڑے ہوئے میجر شبیر شریف نے دشمن کو للکارا تو اندر سے ہینڈ گرنیڈ پھینکا گیا جو انہوں نے تھام کر واپس اچھال دیا یہ آپریشن تیس منٹ میں مکمل ہو گیا اور سنونہ کی پہاڑی پر سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا یہ مورچہ واپس لینے کے لیے بھارتی فوج نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن ہر بار منہ کی کھانا پڑی میجر نریان سنگھ نے تو کمپنی کمان ہی اس عہد کے ساتھ سنبھالی کہ آج سونہ کی پہاڑی واپس لے کر میجر شبیر کی لاش لائونگا یا خود مر جائونگادوران جنگ ایک موقع پر اس نے میجر شبیر کو للکارا اگر ہمت ہے تو سامنے آئو میجر شبیر نے اپنی پوزیشن چھوڑی تو نریان سنگھ نے ہینڈ گرنیڈ اچھال دیا
فاتح سونہ کی قمیص میں آگ لگ گئی لیکن وہ دوبدو لڑائی میں اپنے مقابل میجر نریان سنگھ کو چاروں شانے چت کر کے اس کی چھاتی پہ چڑھ بیٹھے اور اس کی اسٹین گن اپنے قبضے میں لے لی کچھ سپاہیوں نے زخمی ہونے کی وجہ سے پیچھے ہٹ جانے کا مشورہ دیا تو کہا جب میں ایک عام لفٹین تھا تب پیچھے نہیں ہٹا تو اب اپنے جوانوں کو چھوڑ کر پیچھے کیوں ہٹوں گا 1965کی جنگ میں زخمی ہونے پر ہسپتال لایا گیا ایک بازو پر پلاسٹر چڑھانے کے بعد ڈاکٹر نے کہا آپ اب جنگ لڑنے کے قابل نہیں تو ہسپتال سے بھاگ نکلے اور باقی جنگ اس حالت میں لڑی کہ بازو پر پلاسٹر چڑھا ہوا تھا سونہ کے محاذ کے دو ایسے واقعات ہیں جو ان کی عظمت اور سپاہیانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
پہلا واقعہ تین دسمبر کا ہے جب انہوں نے فتح کے جھنڈے گاڑے ہی تھے کہ ایک عمر رسیدہ شخص نے آواز دیکر کہا بیری والا پر پاکستانیوں نے قبضہ کر لیا ہے ہم دوپہر میں ہی بارات لے کر یہاں آئے تھے اب واپس اپنے گائوں Gurmakheraجانا ہے ہمیں ان سے بچائو ان کا خیال تھا کہ یہ بھارتی فوجی ہیں میجر شبیر شریف نے ان کو حقیقت حال سے آگاہ کر کے خوفزدہ کرنے کی بجائے تسلی دی کہ آپ فوراً نکلیں یہاں سے آپکو کوئی کچھ نہیں کہے گا اور اس کے بعد پوزیشنیں سنبھالے تمام جوانوں کو حکم دیا کہ ایک بارات جا رہی ہے انہیں جانے دیا جائے ایک سپاہی نے کہا ہم انہیں آسانی سے جنگی قیدی بنا سکتے تھے سر ! آپنے کیوں جانے دیا ؟میجر شبیر نے کہا دل کی سنو جوانو!یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
دوسرا واقعہ اس سے اگلے دن یعنی چار دسمبر کا ہے جب بھارتی فوج نے اس پہاڑی کا قبضہ واپس لینے کے لیے ٹینکوں سے دھاوا بولنے کا فیصلہ کیا مخبری مل جانے پر دو راکٹ لانچر اس طرح نصب کیے گئے کہ ٹینکوں کے قریب آنے سے پہلے ہی انہیں نشانہ بنا دیا جائے ایک راکٹ لانچر میجر شریف کے قریب رکھا گیا کہ اگر پہلے دو نشانے چوک جائیں تو اس کو بروئے کار لایا جائے ادھر دشمن نے نہایت ہی مہلک چال چلی ٹینکوں پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر اس طرح کا ماحول پیدا کیا گیا جیسے پاک فوج کی کمک آ رہی ہو شب گیارہ بجے کے قریب ٹینک قریب پہنچے اور کوئی فائر نہ ہوا تو میجر نے وائرلیس پر پوچھا فائر کیوں نہیں کیے گئے۔
سپاہیوں نے کہا سر یہ تو پاک فوج کے ٹینک ہیں ۔میجر شریف کا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں دشمن کی چال نہ ہو پاک فوج کی کمک آئے تو سامنے کی بجائے پیچھے سے آتے اور پہلے اطلاع دی جاتی انہوں نے فائر کرنے کا آرڈر کیا لیکن سب نے پس و پیش سے کام لیا کیوں کہ کنفیوزن پیدا ہو گئی تھی چنانچہ میجر شبیر شریف نے خود پہل کرتے ہوئے راکٹ فائر کیا اور جب روشنی ہوئی تو پگڑیوں اور داڑھیوں والے سکھ فوجی نظر آئے تو سب کو دشمن کی اس مہلک چال کا علم ہوا جسے بر وقت ناکام بنا کر دشمن کی چال الٹ دی گئی یہ ایسے واقعات ہیں جو ہماری نسلوں کو جاننا ضروری ہیں لیکن انہیں نصاب اور کتاب دونوں سے نکال دیا گیا ہے۔
تحریر : مسز جمشید خاکوانی