تحریر: سید انور محمود
نندی پور منصوبے کا آغاز پیپلز پارٹی نے 2008ء میں کیا، جو کچھ بدعنوانی کر سکتے تھے وہ کی اور چلے گئے، نواز شریف کی حکومت نے ڈھائی سال میں اس کی لاگت کو 22 ارب روپے سے81 ارب روپے پر پہنچا دیا لیکن اس منصوبے سےبجلی کا ایک یونٹ عوام کو نصیب نہیں ہوا۔ نندی پور پاور پراجیکٹ سے 1361 کلو میٹر دور سمندر کے کنارے دو کڑورکی آبادی والا شہر کراچی ہے۔
پورئے پاکستان کی طرح یہ شہر بھی بجلی کی کمی کے باعث لوڈ شیڈنگ کا بدترین شکار ہے۔ اس سال 20 جون سے کراچی میں گرمی بڑھتی چلی گئی اور درجہ حرارت 40 اور پھر 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، اس گرم ترین موسم میں لوڈشیڈنگ نے سانس لینے کا بچا کچھا حق بھی چھین لیا۔ لوگ دم گھٹنے سے مرتے رہے، اندازہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کم از کم چار ہزار کے قریب تھی۔ کراچی میں کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کی طویل دورانیئے کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہےاور شہریوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب بجلی کے نرخوں میں اضافے پے اضافہ ہورہا ہے لیکن شہریوں کو بجلی کی مسلسل ترسیل میں حائل روکاوٹوں کو دور کرنے کی جانب کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔
نومبر2013ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے چین کی مالی و تکنیکی معاونت سے کراچی میں “کے ٹو اور کے تھری” نامی جوہری بجلی گھروں کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا تو بظاہر اعلیٰ حکومتی حلقوں کو قبل از وقت اطلاع نہیں تھی۔ 20 اگست 2015ء کو وزیر اعظم نواز شریف نے کراچی میں ہاکس بے کے قریب واقع کینوپ ایٹمی پلانٹ میں “کے ٹو” منصوبے کی کنکریٹ پورنگ منصوبے کا افتتاح کر دیا۔ پاکستان کو کئی سالوں سے بجلی کی قلت کا سامنا ہے۔ کراچی کے ساحل پر ایٹمی بجلی گھر کینوپ 1972ء میں قائم کیا گیا تھا، اس کی پیداواری صلاحیت 137 میگاواٹ اور مدت 2002ء تک تھی مگر بعد ازاں اسے اپ گریڈ کرکے دوبارہ فعال بنایا گیا، اب اس کی پیداواری صلاحیت کم ہو کر 80 میگاواٹ رہ گئی ہے۔ 2011ء میں بھاری پانی کے اخراج کے بعد اس پلانٹ کو کچھ عرصے کے لیے بند کر دیا گیا تھا اور جب اس کی توسیع یعنی “کے ٹو” اور “کے تھری” بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تو بعض سائنسدانوں اور شہری تنظیموں نے اس پر خدشات کا اظہار کیا جس سے یہ منصوبہ متنازع ہوگیا۔ حکومت کے مطابق “کے ٹو” اور “کے تھری” بنانے کے بعد یہ دونوں بجلی گھر گیارہ سو میگاواٹ فی کس کے حساب سے بجلی پیدا کر سکیں گے۔ ان پلانٹس کی تکمیل 2019ء اور 2020ء تک ہو سکے گی جس سے کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ہوسکے گا۔ کراچی میں تعمیر کیے جانے والے ان دونوں ایٹمی بجلی گھروں میں سے ہر ایک کی تعمیر پر تقریبا پانچ ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان کے جوہری پاور پلانٹس کے حفاظتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ان جوہری تنصیبات کے حفاظتی انتظات پر خصوصی توجہ کے ساتھ کڑی نگرانی کرتا ہے تاکہ دنیا کے مروجہ قوانین کے مطابق تمام ایٹمی بجلی گھروں کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے اور ان اقدامات سے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی آگاہ ہے۔ یہ ایٹمی پلانٹ چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن نے تعمیر کرنے ہیں۔ یہ ری ایکٹر نہ پہلے کہیں بنائے گئے ہیں اور نہ کہیں یہاں تک کہ چین میں بھی نہیں آزمائے گئے۔
عالمی رائے عامہ اب ایٹمی توانائی کے حق میں نہیں ہے زیادہ تر ممالک اسے چھوڑ چکے ہیں لیکن پاکستان میں ایسے جوہری پلانٹ لگائے جا رہے ہیں جو شہریوں کے لیے سنگین خطرات کا باعث ہوسکتے ہیں۔ جرمنی کی مثال سامنے ہے۔ امریکا میں پچھلے 44 سالوں سے کسی نئے ایٹمی بجلی گھر نے کام کرنا شروع نہیں کیا ہے۔ کچھ زیرِ تعمیر ہیں لیکن وہ عالمی رحجان نہیں کہلا سکتے۔ چین ایک مضبوط مثال ہے، اس نے ایٹمی صنعت کی کئی کارپوریشنز تیار کی ہیں جنہوں نے تکنیکی مہارت کے حصول کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے، اور اب وہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی دوسرے ممالک کو فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاک چین ایٹمی معاہدے کے بارے میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ نہ تو دنیا کا کوئی اور ملک پاکستان کو نیوکلیئر ری ایکٹر بیچنا چاہتا ہے، اور نہ ہی دنیا کا کوئی ملک چین سے نیوکلیئر ری ایکٹر خریدنا چاہتا ہے۔
سال 2014ء میں چین نے 20 گیگاواٹ صلاحیت کے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے ٹربائن لگائے ہیں۔ اگر چین اپنے پاس ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لیے اتنے بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس پن بجلی کے منصوبے تیار کرنے کے لیے بھی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس ہوا سے 40 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ چین سے قرضہ حاصل کرکے پن بجلی کی صنعت کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ پن بجلی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی تنصیب پر ایٹمی بجلی گھر سے آدھی لاگت آئے گی، جبکہ اس میں ایندھن کا کوئی خرچ نہیں ہوگا۔ پن بجلی ایٹمی بجلی سے سستی ہوگی۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے کافی کام ہو رہا ہے اور ہر سال 50 ہزارمیگاواٹ صلاحیت کے نئے منصوبے لگائے جارہے ہیں۔ پاکستان کو تو صرف 10 ہزار میگاواٹ کی ضرورت ہے تاکہ اپنی تمام ضروریات پوری کر سکے۔اس کے علاوہ سولر فوٹو وولٹیک ٹیکنالوجی ہے جس کی قیمت حال ہی میں کافی کم ہوئی ہے۔ حکومتِ پنجاب نے حال ہی میں شمسی توانائی سے توانائی حاصل کرنے کا منصوبہ لگایا ہے۔
دو کروڑکی آبادی والے شہرِ کراچی کے قریب دو نیوکلیئر ری ایکٹرز کی تعمیر کا حکومتی پلان سائنسدانوں اور حکومت کے دوران تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے۔ سونامی، زلزلہ یا دہشتگردی کی صورت میں کراچی کے لوگوں کے پاس کہیں جانے کا راستہ نہیں ہوگا اور جو تابکاری پھیلے گی اس سے بچنے کا امکان نہیں ہے۔ کسی بھی حادثے یا قدرتی آفت کی صورت میں اِن مجوزہ ایٹمی بجلی گھروں کا نظام تباہ ہوا تو شہر میں قیامت برپا ہو سکتی ہے۔ کراچی کے شہریوں اور ماہرین میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ تابکاری کے اثرات بہت زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں کیونکہ اِن بجلی گھروں میں ٹنوں کے حساب سے جوہری مادہ ہوتا ہے۔ اگر اس مادے کا صرف پانچ فیصد بھی خارج ہو تو کراچی کے لوگوں کےلیے بہت خطرناک ہوگا۔یہ بہت بڑے پلانٹ ہیں اور اتنے بڑے پلانٹ خود چین نے اس سے قبل نہیں بنائے اور یہ پہلا ماڈل ہوگا جو پاکستان میں لگایا جائے گا۔ یہ تو ایک تجرباتی ماڈل ہے اور اِس میں حفاظتی تدابیر کا کسی کو علم نہیں۔
صفِ اول کے ماہرِ فزکس عبدالحمید نیر سے جب پوچھا گیا کہ کراچی میں ری ایکٹرز کی تعمیر کی صورت میں آپ کی سب سے بڑی تشویش کیا ہے؟ تو اُن کا جواب تھا “ہمیں دو مسائل پر تشویش ہے۔ ایک یہ کہ اگر ان نئے ڈیزائن کے ری ایکٹرز کے ساتھ فوکوشیما یا چرنوبل کی طرز کا کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو کیونکہ زیادہ لوگوں کو اس ڈیزائن کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں ہوگا، تو حادثے کو کس طرح کنٹرول کیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ فوکوشیما حادثے کے اثرات ری ایکٹر سے 30 کلومیٹر دور تک بھی دیکھے گئے تھے۔ کراچی میں جہاں اس ری ایکٹر کی تعمیر کی تجویز دی گئی ہے، اس کے پاس 30 کلومیٹر کا علاقہ گنجان آباد ہے۔ اگر ان ری ایکٹرز میں کوئی خطرناک حادثہ پیش آتا ہے، تو یہ علاقے سالوں کے لیے مکمل طور پر بند کرنے پڑیں گے، جس کا لازمی طور پر پاکستانی معیشت پر برا اثر پڑے گا۔یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ فوکوشیما کے پاس 30 کلومیٹر کا علاقہ مکمل طور پر آبادی سے خالی کروایا گیا تھا، اور چار سال گزر جانے کے باوجود وہاں پر لوگوں کو واپس نہیں جانے دیا گیا ہے۔ سوچیں اگر اس طرح کا کوئی حادثہ کراچی میں پیش آجائے، تو کیا کراچی کو خالی کروانا آسان ہوگا؟ اگر ہم دو کروڑ لوگوں کو شہر سے نکالنے میں ناکام رہے، تو وہ ایٹمی تاب کاری کی زد میں آئیں گے”۔
ان دونوں ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر پر اعتراض کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان دونوں ایٹمی بجلی گھروں کے منصوبے کا پہلے باقاعدہ طور پر جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ سندھ کی ساحلی پٹی میں ماہی گیروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم پاکستان فشر فوک فورم، مزدوروں کے حقوق کی علمبردارتنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار لیبر، ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اور کئی دیگر تنظیموں نے ایٹمی بجلی گھروں کے ان نئے منصوبوں کے خلاف ملک گیر مہم چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ سماجی حلقوں نے اس پیش رفت کو خطرات میں گھرنے اور طویل المدتی گھاٹے کے سودے سے تعبیر کیا۔سندھ ہائی کورٹ میں پروفیسر پرویز ہود بھائی، شرمین عبید چنائے، ڈاکٹر اے ایچ نیّر اور عارف بلگرامی نے درخواست دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ منصوبے سے پہلے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ نہیں کرایا گیا اور حادثے کی صورت میں لوگوں کے انخلا کا ہنگامی پروگرام بھی دستیاب نہیں۔عدالت کے حکم پر منصوبے پر کئی ماہ تک حکم امتناعی رہا لیکن بعد میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی یقین دہانی کے بعد درخواست نمٹا دی گئی۔بہتر ہوگاحکومت پاکستان نہ صرف کراچی بلکہ ملک کے باقی حصوں سے بھی ایٹمی بجلی گھر کے منصوبے ختم کردے کیونکہ نندی پور پاور پروجیکٹ سےصرف مالی نقصان ہورہا ہے جو کرپشن پر قابو پاکر ختم کیاجاسکتا ہے، لیکن ایٹمی بجلی گھروں سے مالی اور جانی دونوں طرح کے نقصانات ہونے کا اندیشہ ہے۔ پاکستان میں نندی پور سے کراچی تک بدعنوانی کا راج ہے اس لیے کراچی جیسےگنجان آباد شہر کے نزدیک ایٹمی بجلی گھر کا منصوبہ دانشمندانہ اقدام نہیں ہے۔
تحریر: سید انور محمود