تحریر: سید انور محمود
چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران اقتصادی راہداری سمیت 51 معاہدوں پر دستخط ہوئے اور پاک چین تجارتی حجم 20 ارب ڈالر تک لانے پراتفاق کیا گیا ہے۔ پاکستان کو بجلی کے بحران سے نکالنے کے لیے بھی معاہدے کیے گئے جن سے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکے گا۔ کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے ان معاہدوں اور بڑھتے ہوئے تعلقات کو پسند نہیں کرتے اور دونوں ممالک کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ لیکن پاک چین تعلقات کودشمن ممالک سے زیادہ پاکستانی حکمرانوں اور چینی کمپنیوں کی کرپشن سے خطرہ ہے، اس ضمن میں دو مثالیں دی جاسکتی ہیں ، پہلی 69 ناکارہ ریلوے انجنوں کی اور دوسری مثال نندی پور پاورپراجیکٹ کی ہے۔
جنرل پرویزمشرف کے دور میں چینی کمپنی ڈانگ فینگ سے 2001ء میں 69 ریل انجن خریدے گئے لیکن کمپنی انجنوں کی ضروری دیکھ بھال اور نگرانی میں ناکام رہی۔ ڈانگ فینگ کمپنی کا ٹرانسپورٹیشن ونگ میں کمپنی کے ٹھیکوں کا ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ 69 ریل انجنوں کے ناکارہ ہونے کے باوجود پانچ جون 2008ء کو پیپلزپارٹی حکومت نے اسی چینی کمپنی کو مزید 75 انجنوں کا آرڈر دے دیا اور تقریباً 3 ارب روپے ادا بھی کر دیئے گئے اگر سودا طے پا جاتا تو پاکستان کو 22 ارب روپیہ ادا کرنا پڑتا، ان 75 انجنوں کی درآمد روکنے کے لیے 10 کروڑ روپیہ ڈوب گیا ۔ نواز شریف حکومت نے چینی کمپنی ڈانگ فینگ کو بلیک لسٹ کردیا، چینی کمپنی نے بلیک لسٹ کیے جانے کے حکومتی فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ کیس کی سماعت کے دوران چینی کمپنی کے وکیل نے تسلیم کیا کہ ڈانگ فینگ کمپنی نے ملکی انفراسٹرکچر کی تعمیر کے بڑے منصوبوں جیسے غازی بروتھا ڈیم ، نندی پورپاور پراجیکٹ ، چیچو کی ملیاں پاور پراجیکٹ اور پاک چین ریل لنک فزیبلٹی میں شرکت کی ہے۔اب بھی پاکستان ریلو ے ریل انجنوں کی کرپشن میں پھنسی ہوئی ہے، ڈانگ فینگ کمپنی پر پابندی لگائی گئی تو ایک اور چینی کمپنی کو 58ریل انجنوں کی فراہمی کا حکم دےدیا گیا جس نے امریکی ساختہ انجن فراہم کیے ہیں جو پاکستانی ٹریک پر چلانے کے لیے موزوں نہیں۔ بدعنوانی اور ناقص مصنوعات فراہم کرنے کے الزامات کے بعدچینی کمپنی ڈانگ فینگ کو بلیک لسٹ کرنے کا معاملہ پاکستان اور چین کے درمیان متنازع ترین امور میں شامل ہے جس کی گونج وزیراعظم نوازشریف کے دورہ چین کے دوران بھی سنائی دی تھی۔
پیپلز پارٹی کے حکومت میں آنے کے بعد 2008ء میں نندی پور توانائی منصوبےکا ٹھیکہ بھی چین کی ڈانگ فینگ الیکٹرک کارپوریشن کو دےدیا گیا۔ یہ منصوبہ پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں مکمل نہ ہو سکا۔نواز شریف حکومت نے جب اس منصوبے پر کام شروع کیا تو نندی پور پاور پروجیکٹ کی مشینری تین سال سے کراچی پورٹ ٹرسٹ پر پڑی ہوئی تھی۔ منصوبے کے مینجنگ ڈائریکٹرکے مطابق اتنا عرصہ پڑے رہنے کی وجہ سے مشینری زنگ آلود ہو چکی ہے۔ اسے دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے مرمت کی جائےگی جس پر 50ملین ڈالر لاگت آنے کی توقع ہے۔ یہ منصوبہ جو 22 ارب روپے سے شروع ہوا تھا81 ارب روپے کی لاگت تک جا پہنچا ہے۔ حکمرانوں کی غفلت اور بدانتظامی، اور چینی کمپنیوں کی نااہلی کی وجہ سے پاکستانی قوم کا اتنا بڑا نقصان ہوا۔ سینیٹ کی کمیٹی برائے پانی و بجلی کو بتایا گیا تھا کہ 425 میگا واٹ کا نندی پور توانائی منصوبہ30 جون تک مکمل ہو جائے گا۔
شہباز شریف کی نہ سمجھ میں آنے والی پھرتیوں کی وجہ سے نندی پور پاور پراجیکٹ کا افتتاح وزیراعظم نواز شریف نے 31 مئی کو کیا اور صرف پانچ روز فعال رہنے کے بعد تکنیکی مسائل کی بناءپر اسے بند کر دیا گیا۔ پچانوے میگاواٹ کی پہلی ٹربائن ڈیزل پر چلائی گئی تھی۔ اس پرانی اور متروک مشینری پر فی یونٹ تیس روپے کے قریب خرچ آرہا تھا لہٰذا یہ ٹربائن بند کردی گئی۔ اپنی نااہلی اور بدعنوانی چھپانے کےلیے فوری طورپر منصوبے کے ایک یونٹ کو کمشننگ کے بغیر چلا کر “پیداوار” کا افتتاح کردیا گیا۔ افتتاح کے بعد وزیراعظم کی تشہیر کے لیے کروڑوں کے اشتہارات چلائے گئے۔ صرف پانچ روز بعد پراجیکٹ ڈائریکٹر کے اعلان کے ذریعے اس یونٹ کو بھی بند کردیا گیا کہ یہ پیداوار باقاعدہ نہیں محض “آزمائشی” تھی۔ گزشتہ ہفتے جیو نیوزچینل پر شاہزیب خانزادہ نے بھی نندی پور پاور پراجیکٹ پر حکومت کی نااہلی اور کرپشن کو بےنقاب کیا ہے۔ پروگرام میں حکومت کی صفائی دینے کےلیے وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف بھی اس پروگرام میں آئے لیکن وہ بھی اینکر کے سوالوں کے جواب نہ دے سکے۔ ایک معاشی تجزیہ کار نے اسی ٹی وی پروگرام میں چیچو کی ملیاں پراجیکٹ، بہاول پور شمسی بجلی پروگرام اور نیلم جہلم پراجیکٹ میں نامناسب منصوبہ بندی اور بدانتظامی کی نشان دہی کی ہے۔
اس سال ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سی پی آئی کے اسکور کارڈ پر پاکستان کے 100 میں سے 29 پوائنٹس جبکہ 175 ملکوں میں اس کادرجہ 126 ہے۔ جبکہ گزشتہ سال پاکستان کا 175 ملکوں میں 127واں نمبر جبکہ اس کے28 پوائنٹس تھے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ پاکستان سے کرپشن کی لعنت صرف ایک درجہ کم ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی ۔ یہ کہہ دینا کہ موجودہ نواز شریف حکومت میں کرپشن نہیں ہوئی ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل نے اپنی رپورٹ میں امید ظاہر کی تھی کہ اسلام آباد کرپشن کی لعنت ختم کرنے کے لئے زیادہ بھرپور طریقے سے کام کرے گا۔ دوسری طرف چین کی جانب سے ملک میں انسداد بدعنوانی کی مہم چلائے جانے کے باوجود اس کا سکور 40 سے گر کر 36 پر پوائنٹس پہنچ گیا ہے۔ گویا پاکستان اور چین میں کرپشن کے اسکور کارڈ پر صرف 7 پوائنٹس کا فرق رہ گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے 69 ریل انجنوں کی کرپشن کی طرح نندی پور پاور پراجیکٹ بھی کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے۔
کرپشن کا کینسر ملک کے ہر شعبے میں موجود ہے اور جب تک اس کا سختی سے علاج نہیں ہوتا اقتصادی اور معاشی شعبے میں ترقی اور عام لوگوں کے حالات میں بہتری ناممکن ہے۔ کافی شور مچنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے 425 میگا واٹ کے نندی پور پاور پراجیکٹ کی پڑتال کا حکم دیا ہے جس کے بعد وزارت پانی وبجلی نے وزیراعظم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے آڈیٹر جنرل کو نندی پور پاور پروجیکٹ کا آڈٹ کرنے کے لیے باضابطہ خط لکھا دیا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پرتین زمروں میں پڑتال کی جائے گی جس میں بتایا جائے گا کہ اس منصوبے کی لاگت کیا تھی اور اس پر کتنی رقم خرچ ہوئی جب کہ منصوبے کی لاگت میں اضافے کی وجوہ بھی بیان کی جائیں گیں۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور میں “توانائی” کا لفظ 42 مرتبہ استعمال کیا گیا اور یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ توانائی کی قیمت میں کمی لائی جائے گی لیکن اس کے برعکس قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے معاشی ترقی کےدعووں کے برعکس 27 ماہ میں اس حکومت نے نہ تو کشکول توڑا اور نہ ہی لوڈشیڈنگ میں کوئی کمی آئی ہے، خوشحالی اور ترقی کے نام نہاد دعوے کرنے والی اس حکومت نے اب تک صرف عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔
تحریر: سید انور محمود