لاہور (ویب ڈیسک) مجھے مرحوم جنرل(ر)حمید گل کے الفاظ یاد آ رہے ہیں،انہوں نے کہا تھا نریندر مودی ہمارے لئے قدرت کا ایک انعام ہے،اس کی وجہ سے نہ صرف دُنیا کے سامنے بھارت کی اصل حقیقت کھلے گی، بلکہ کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہونے کے قریب پہنچ جائے گا۔پاک فوج کے ریٹائرڈ افسر اور نامور کالم نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں آج نہ صرف حمید گل مرحوم کی یہ باتیں درست ثابت ہو رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے اپنے اندر جو دراڑیں پڑ رہی ہیں،وہ بھی نمایاں ہو چکی ہیں۔ بھارت کے عوام نے مودی کا بیانیہ مسترد کر دیا ہے اور پاکستان کے ساتھ جنگ کے آپشن کو اپنی سیاست چمکانے کا گھناؤنا حربہ قرار دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارتی عوام کی ایسی متعدد ویڈیوز موجود ہیں، جن میں وہ انتہائی غیر مہذب لفظوں میں نریندر مودی کو سارے فساد کی جڑ قرار دیتے ہیں،خود بھارت میں 21اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے نریندر مودی کی جنگی سیاست کو بھارت دشمنی قرار دے کر مزاحمت کا آغازکر دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے واضح بیانیہ نے نہ صرف دُنیا، بلکہ خود بھارت کے عوام کو بھی یہ باور کرا دیا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی صرف نریندر سرکار کی وجہ سے ہے، وگرنہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں دوبارہ اپنے قومی خطاب میں بھارت کو پیشکش کی کہ وہ پلوامہ واقعہ کے بارے میں پاکستان پر الزامات لگانے کی بجائے ثبوت دے، پاکستان کارروائی کرے گا۔ دوسرا کشیدگی کے خاتمے کی عملی کوششوں میں پاکستان ہر فورم پر مذاکرات کے لئے تیار ہے۔بھارت اخلاقی طور پر پہلے ہی شکست کھا چکا ہے۔ اُس نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اورپھر ایک جھوٹی کہانی گھڑ کے اپنے اس عمل کودرست قرار دیا، جس کا پول جلد ہی کھل گیا اور دُنیا پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ بھارت نے دہشت گردوں کے کیمپ تباہ کرنے اور ساڑھے تین سو دہشت گردوں کو مارنے کا جو دعویٰ کیا تھا،وہ بے بنیاد تھا۔ پھر پاکستان نے جوابی حملے میں جس طرح محتاط انداز اختیار کیا، موقع ملنے کے باوجود سویلین آبادی یا فوجی کیمپوں کو نشانہ نہیں بنایا، وہ دُنیا کو ایک مثبت پیغام دے گیا۔ صرف یہی نہیں،دو بھارتی طیارے اُس وقت گرائے جب وہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے،گرفتار پائلٹ کے ساتھ جنیوا کنونشن کے مطابق اچھا سلوک کیا، اس کامیابی کے باوجود پاکستان کی طرف سے دھمکی آمیز رویہ نہیں اپنایا گیا،بلکہ اُسی شام وزیراعظم عمران خان نے پھر نریندر مودی کو مذاکرات کی پیشکش کر دی۔ یہ سب کچھ دُنیا دیکھ رہی ہے اور خود بھارتی عوام بھی۔۔۔ ہر سوال کا رُخ نریندر مودی کی طرف جا رہا ہے اور ان کا ’’ہمسائے کو سبق سکھائیں گے‘‘ والا بیانیہ بُری طرح پٹ چکا ہے۔ پاکستان نے کامیاب حکمتِ عملی کے تحت اپنی اس صلاحیت کو بھی منوا لیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنا دفاع کر سکتا ہے، بلکہ دراندازی کرنے والے کو اُس کے علاقے میں جا کر جواب بھی دے سکتا ہے، ساتھ ہی دُنیا کو یہ واضح پیغام بھی دیا ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا اور ہر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالنا چاہتاہے۔نریندر مودی نے اپنی جارحانہ پالیسیوں سے بھارت کو دُنیا میں سیاسی تنہائی کا شکار کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیںبھارت کے اندر بھی نریندر مودی تنہا ہو گئے ہیں،اُن کی اپنی جماعت کے اندر بھی ایک بے چینی ہے، جبکہ کانگرس سمیت اپوزیشن کی باقی جماعتیں تو اُن کے خلاف صف آراء ہو چکی ہیں۔بھارت آج اُس مقام پر پہنچ گیا ہے، جہاں وہ اپنے کسی اقدام کی درست اور قابلِ قبول توجیح پیش نہیں کر سکتا۔آج پاکستانی فوج ، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے بیک زبان ہو کر بھارت کو بالخصوص اور دُنیا کو بالعموم یہ پیغام دیا ہے کہ ڈیڑھ ارب انسانوں کے لئے جنگ کوئی مثبت آپشن نہیں،اس سے تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا یہ جملہ اب پوری دُنیا میں گردش کر رہا ہے کہ ’’جنگ میں کوئی جیتتا یا ہارتا نہیں،بلکہ انسانیت ہارتی ہے۔۔۔انسانیت کو بچانے کے لئے جنگ سے بچنا ضروری ہے‘‘۔ نریندر مودی اگر اپنے سیاسی مفادات کے زیر اثر نہ ہوتے تو ٹی وی پر خطاب کر کے پاکستان کی پیشکش کا مثبت جواب دیتے۔ اگر وہ حملے کے جواب الجواب میں پھنسے رہے اور انہوں نے ڈیڑھ ارب انسانوں کو جنگ کے خوف سے نہ نکالا تو انہیں ایک ناکام سیاست دان کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جو مشکل کے وقت میں اپنی ذات سے بلند ہو کر فیصلے نہ کر سکا۔مودی کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ سیالکوٹ سیکٹر میں بھارتی دراندازی کا جواب دینے کے لئے پاکستانی افواج نے جو کارروائی کی، اُس کے نتیجے میں وہاں جو ہلاکتیں ہوئی ہیں، بھارتی عوام اُن کا ذمہ دار نریندر مودی کوقرار دے رہے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارتی سرکار کا جھوٹ پر جھوٹ بے نقاب ہو رہا ہے۔پلوامہ حملے کا پاکستان کوذمہ دار قرار دینے کا جھوٹ پکڑا گیا ہے تو ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ کے مصداق مودی حکومت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ پلوامہ حملے کا پاکستان پر الزام صرف الزام نہیں،بلکہ حقیقت ہے، جس کے جواب میں بھارت کی طرف سے کارروائی ضروری تھی، مگر یہاں بھی مودی سرکار بُری طرح پٹ گئی، کیونکہ جیش محمد کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے جو دعوے کئے گئے اور ساڑھے تین سو دہشت گردوں کو مارنے کی خبر پھیلائی گئی،اُس کا کوئی ایک ثبوت بھی دُنیا کے سامنے نہیں لایا گیا۔اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کے آثار تو کئی ماہ تک نہیں مٹتے،لیکن یہاں تو اگلے دن ہی صحافیوں نے دورہ کر کے دیکھا کہ ایک چڑی کی جان بھی نہیں گئی۔اب تک تو سب کچھ بھارت کے خلاف ہی جا رہا ہے،لیکن بھارتی قیادت کالے کو سفید دکھانے پر بضد ہے، ناکامی کی وجہ سے جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر اب جنگ کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے تاکہ ایک طرف اپنے عوام اور دوسری طرف عالمی برادری کو دھوکہ دیا جا سکے۔بھارتی عوام کا سوشل میڈیا اور خود بھارت کے میڈیا پر ردعمل یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ جنگ کے حق میں نہیں،بلکہ وہ تو اس کشیدگی کے حق میں بھی نہیں، جو بھارت نے پیدا کر رکھی ہے۔پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں حکومتی موقف کی تائید کر رہی ہیں،جبکہ بھارت میں ملک کی 21جماعتیں مودی حکومت کی حمایت سے انکاری ہیں، وہ جنگ کی باتوں کو مودی کا پاگل پن قرار دے رہی ہیں اور انہوں نے اسے صرف ایک انتخابی سٹنٹ قرار دے کر مسترد کیا ہے، اب اس سے بڑی کسی قوم کی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اُس کی حکومت میں بیٹھے ہوئے افراد صرف دوبارہ الیکشن جیتنے کے لئے ملک کو جنگ میں جھونک دیں۔نریندر مودی اور اُن کے حامی وزراء اس بات کی کیا ضمانت دے سکتے ہیں کہ جنگ شروع ہو گی تو ایک حد تک محدود رہے گی اور مثبت نتائج حاصل کرنے کے بعد ختم کر دی جائے گی۔وزیراعظم عمران خان تو بار بار متوجہ کر رہے ہیں کہ جنگ ایک بار شروع ہوگئی تودونوں ممالک کی حکومتیں اسے سوئچ آف کر کے ختم نہیں کرا سکیں گی، وہ تو چلے گی اور نجانے کیا رُخ اختیار کرے گی۔بھارت کی طرف سے ایک گہری خاموشی ہے، جو قوت فیصلہ نہ ہونے کا ثبوت ہے۔ خطے کا امن تباہی کے دہانے پر ہے، نظامِ زندگی تعطل کا شکار ہے، پروازیں بند ہیں، جانے کس وقت کیا ہو جائے، کی کیفیت ہے، کیا اسے دانشمندی کہا جا سکتا ہے؟کیا سروں پر لٹکتی جنگ کی تلوار ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگی کو متاثر نہیں کر رہی، کیا اس طرح کی صورتِ حال کو غیر معینہ مدت کے لئے جاری رکھا جانا چاہئے؟ آخر اس پر کون سوچے گا۔۔۔ عالمی برادری بھارت کے جنگی جنون کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔امریکی صدر ٹرمپ بھی عملی کردار ادا کرنے کی بجائے صرف مشورہ دے رہے ہیں۔ پاکستان تو کھلے دِل سے مذاکرات کی پیشکش کر چکا ہے،لیکن بھارتی قیادت منقسم مزاجی کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے،اس کی خاص وجہ تو صرف یہی نظر آتی ہے کہ نریندر مودی اپنی پیدا کردہ مصنوعی انتہا پسندی کو چھوڑنے کی ہمت نہیں کر پا رہے۔ انہوں نے بھارت میں پلوامہ حملے کے بعد جو ماحول بنایا، وہ اب انہی کے گلے پڑ گیا ہے۔انہوں نے یہ سب کچھ عام انتخابات میں ہندوؤں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے کیا تھا،لیکن سکرپٹ میں بار بار کی خرابی نے سارا کھیل بگاڑ دیا، اب تو شاید جو ووٹ ملنے تھے، وہ بھی نہ مل سکیں،لیکن مودی کی اس جھنجھلاہٹ اور ناکامی کی اس خطے کے عوام کو کتنی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے، سب سے بڑا لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ پاکستان نے اپنے پُرامن ہونے اور دُنیا میں امن کو برقرار رکھنے میں جو کردار اس وقت ادا کیا ہے۔ اُسے پوری دُنیا سراہ رہی ہے، مگر اس کے باوجود مودی حکومت ایک ایسے راستے پر چل رہی ہے جو تباہی و بربادی کی طرف جاتا ہے۔ یہ پاگل پن سے بھی آگے کی اسٹیج ہے۔