ننکانہ صاحب: ننکانہ صاحب کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 118 میں 25 جولائی کو تحریکِ انصاف کے اُمیدوار برگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ اور نون لیگ کی سابق رکنِ قومی اسمبلی شذرہ منصب کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے۔ اپنے والد رائے منصب علی خان کھرل کی وفات کے بعد ضمنی انتخاب میں حلقے کے لیے برن یونٹ کے قیام، سوئی گیس اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا نعرہ لگا کر جیتنے والی شذرہ منصف اپنے زیادہ تر انتخابی وعدے پورے نہیں کرسکیں جس کے باعث عوامی حلقے عمومی طور پر اُن سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
آئندہ انتخاب میں اُن کے مدِ مقابل میدان میں اُترنے والے اعجاز شاہ کا شمار سابق صدرِ پاکستان جنرل مشرف کے رشتے داروں اور قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے مشرف دور میں ننکانہ صاحب کو ضلع بنوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔2013ء کے عام انتخابات میں اعجاز شاہ رائے منصف علی کے مقابلے میں بطور آزاد اُمیدوار لگ بھگ 56 ہزار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اس انتخاب میں انہیں صرف پانچ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی تھی۔تاہم رائے منصب کی وفات کے بعد ضمنی الیکشن میں جب وہ ایک بار پھر بطور آزاد اُمیدوار شذرہ منصف کے مقابلے میں الیکشن لڑے تو صرف 41 ہزار ووٹ حاصل کرتے ہوئے لگ بھگ 30 ہزار ووٹوں کے واضح فرق سے شکست کھا بیٹھے۔دوسری جانب انتخابی وعدے پورے نہ کر پانے کی وجہ سے گزشتہ دنوں ننکانہ صاحب کے نواحی گاؤں چک نمبر 10 نوشہرہ کے باسیوں نے ضلعی پریس کلب کے سامنے شذرہ منصب کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ہے۔کچھ عرصہ قبل شذرہ منصب نے ننکانہ شہر کے لئے سیوریج لائن کے فنڈز منظور کروا کر کام تو شروع کروا دیا تھا لیکن اب یہ منصوبہ فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے شہر میں نکاسیِ آب کا مسئلہ پہلے سے بھی ابتر صورت حال اختیار کر گیا۔اور تو اور پاکستان مسلم لیگ نون کے بچیکی سے تعلق رکھنے والے سینئر رہنما اور سابق ایم پی اے چوہدری لعل خاں نے بھی شذرہ منصب کے مبینہ ناروا رویے سے تنگ آکر ان کی مخالفت کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ نون کے لیے اس حلقے سے کامیابی حاصل کڑا امتحان بن گیا ہے۔دوسری جانب برگیڈیئر اعجاز شاہ نے حلقے کے لوگوں کے ساتھ عوامی رابطہ مہم تیز کر دی ہے۔تحریکِ انصاف کا ٹکٹ ملنے کے بعد اعجاز شاہ مزید مضبوط ہو گئے ہیں۔گزشتہ روز ننکانہ صاحب کے نواحی گاؤں کالی بیڑ میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے ننکانہ صاحب کو ضلع بنوایا تب انہوں نے اور بہت سے منصوبے سوچ رکھے تھے لیکن بد قسمتی سے مشرف کی حکومت ختم ہو گئی اور وہ مزید کام نہ کر سکے۔اُن کے بقول اگر وہ جیتے تو وہ وہیں سے کام شروع کریں گے جہاں سے 2008ء میں چھوڑا تھا۔ اُن کا دعوٰی ہے کہ وہ ننکانہ صاحب میں گورونانک انٹرنیشنل یونیورسٹی، ڈسٹرکٹ جیل اور ایئرپورٹ کا قیام عمل میں لائیں گے۔خیال رہے 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں برگیڈیئر اعجاز شاہ گروپ نے ناصرف ننکانہ شہر بلکہ ضلع بھر کی زیادہ تر یونین کونسلز سے کامیابی حاصل کی تھی۔علاوہ ازیں میونسپل کمیٹی ننکانہ صاحب کی چیئرمین شپ بھی اسی گروپ کے پاس ہے جس سے اس کی مضبوطی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔تحریکِ انصاف اور نون لیگ کے اُمیدواروں کے علاوہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق رکنِ قومی اسمبلی رائے شاہ جہاں بھٹی بھی اس حلقے میں مضبوط اُمیدوار گردانے جاتے ہیں۔اُن کا تعلق کھرل برادری سے ہے اس لیے اگر انہیں ان کی برادری سپورٹ کرتی ہے تو وہ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔دیکھتے ہیں کہ 25 جولائی کو عوام اپنا فیصلہ کس کے حق میں سُناتے ہیں۔