counter easy hit

مودی صاحب کے چہرے پر( کالم) مجیب الرحمٰن شامی بشکریہ روزنامہ پاکستان

Narendera-Modi-ke-Chehre-Par-by-Mujeeb-ur-Rahman-Shami

مودی صاحب کے چہرے پر

اس بار اگست عجب رنگ سے گزرا۔ اس مہینے کے دوران ایسے واقعات (یاحادثات) پیش آئے جنہوں نے پاکستان کی سیاست اور ریاست پر گہرے اثرات مرتب کئے۔کوئٹہ میں خودکش دھماکے میں بلوچستان اپنے انتہائی سینئر اور ممتاز قانون دانوں کی بہت بڑی تعداد سے محروم ہو گیا۔ اس کے بعد ’’را‘‘ کی طرف انگلیاں اٹھیں ۔بلوچستانی وزیراعلیٰ اور دوسرے رہنماؤں نے واضح الفاظ میں الزام لگایا کہ بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ہندوستان مصروف عمل ہے اور اس کی خفیہ ایجنسی کے کارندے یہاں آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ اس الزام پر محمود خان اچکزئی نے جو کہ فخریہ طور پر بلوچستانی گاندھی کہلانے والے خان عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے ہیں اور جن کی جماعت بلوچستان کی مخلوط حکومت کی سرگرم شراکت کار ہے، اپنے ہی ملک کے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے، الزام کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی، لیکن 15اگست کو ہندوستان کے یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کا ذکر اس انداز میں کیا کہ پاکستان میں اسے ’’اعترافِ جرم‘‘ کانام دیا گیا اور پورا ملک احتجاج کے نعروں سے گونج اٹھا۔یوم آزادی کو ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ ایم کیوایم کے لندن میں مقیم بانی الطاف حسین نے کراچی میں اپنے کارکنوں کے ایک بھوک ہڑتالی کیمپ سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے انہیں پاکستان کے خلاف اُکسایا۔ ایسی زبان استعمال کی جس کے یوں برملا استعمال کی اس سے پہلے کسی پاکستانی سیاستدان کو جرات نہیں ہو سکی تھی۔ انہوں نے ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے اور لگوائے (یہ اور بات کہ ان کے سامعین کی بھاری اکثریت نے اس حوالے سے کسی جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کیا)۔ الطاف حسین الیکٹرانک میڈیا پر بھی برسے اور کئی میڈیا ہاؤسز کا نام لے کر لوگوں کو ان پر حملہ آور ہونے کی شہہ دی۔ ان کی تقریر کے بعد کئی مشتعل کارکن اے آر وائی نیوز اور بعض دوسرے چینلز کے دفاتر پر چڑھ دوڑے، بعض خواتین کارکنوں نے تو اس چابکدستی سے کام کیا کہ دیکھنے والوں کو گمان گزرا کہ شائد انہیں تخریب کاری اور توڑ پھوڑ کی باقاعدہ تربیت دی گئی ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ ایم کیو ایم کے وارداتیوں نے خواتین کے خصوصی دستے اس کام کے لئے منظم کر رکھے ہوں۔
الطاف حسین کی یہ تقریر پاکستان کی تاریخ کا ایک نرالا وقوعہ تھا۔ اس سے نہ صرف پاکستان بھر میں کھلبلی مچی، بلکہ ایم کیو ایم کی اپنی صفوں میں بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں اور حامیوں کے لئے یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس کا کبھی تصور بھی نہ کیا گیا تھا۔ ان کی صفوں سے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعرے بلند ہونے لگے اور پاکستان بھی طورخم سے گوادر تک متحد ہو گیا۔الطاف حسین کے خلاف شدید کارروائی کے مطالبے نے آسمان سر پر اٹھا لیا، اور دور و نزدیک یہ تاثر عام ہو گیا کہ ایم کیو ایم کے بانی رہنما نے خودکش حملہ کر دیا ہے۔ اس حملے میں نشانہ بننے والوں کا نقصان تو کم یا زیادہ ہو سکتا ہے، لیکن حملہ آور سو فیصد ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ سو، الطاف حسین پر بھی یہی گزری۔ برسوں کی ریاضت سے انہوں نے جو کچھ بنایا تھا، وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔
الطاف حسین کی خرابی ء صحت کو اس کا سبب بتایا جائے یا کثرت مے نوشی میں اس کی وجہ ڈھونڈی جائے،یہ کہنے والے کم نہیں تھے کہ مودی کی ’’جارحانہ پالیسی‘‘ بھی اس میں کہیں نہ کہیں بول رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد غم و غصے کی شدید لہر اٹھی ہوئی ہے، اس میں متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور چھرے دار بندوقوں کے ذریعے درجنوں کیا سینکڑوں افراد کو شدید زخمی کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ پوری دنیا انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پرتھو تھو کر رہی ہے۔ وزیراعظم مودی سخت دباؤ میں ہیں اور اپنے ہم وطن اہل سیاست کے ساتھ مل کر کوئی ’’پائیدار حل‘‘ تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ایسا حل جس میں کشمیر یوں کے حق خودارادیت کی نفی کرتے ہوئے ان کے سینوں میں لگی آگ سرد کی جا سکے۔
ہندوستان میں یہ بات کھلم کھلا زیر بحث ہے کہ وزیراعظم مودی نے بلوچستان کا مسئلہ اٹھا کر ’’جارحانہ دفاع‘‘ کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔ انہیں اس پر داد دینے والے بھی موجود ہیں، لیکن تشویش کا اظہار کرنے والے بھی کم نہیں ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا مصدقہ اور مسلمہ حصہ ہے، اسے متنازعہ بنانے کا شوق جہاں ہندوستان کا چہرا گدلا کر سکتا ہے، وہاں خطے کے تمام ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی بجا سکتا ہے۔ ایران اور افغانستان (اپنی وقتی جذباتیت سے قطع نظر) اپنی بلوچ آبادی کے حوالے سے پریشان ہو سکتے ہیں اور سی پیک اور گوادر کی وجہ سے چین کے ساتھ ہندوستانی تعلقات میں دراڑ گہری ہو سکتی ہے۔ بہرحال اس سے قطع نظر کہ مودی صاحب کے ہاتھ کچھ آتا ہے یا نہیں، الطاف حسین کے دلوں کو چھیدنے والے الفاظ نے بھارتی ہاتھ کی کارستانیوں کو نمایاں کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہ ممکن ہے کہ بیمار اور افسردہ الطاف حسین کے گرد جو افراد جمع ہیں، وقت اور موقع کا انتخاب انہوں نے کیا ہو اور اپنے ’’قائد‘‘ کو ورغلا گزرے ہوں۔
پاکستان میں اٹھنے والے شدید ردعمل نے ایم کیو ایم کے مقامی رہنماؤں کو مجبور کیا کہ وہ فاروق ستار کی قیادت میں کھڑے ہو کر لندن سیکرٹریٹ سے علیحدگی کا اعلان کر دیں۔ انہوں نے الطاف حسین کی (زیربحث) تقریر سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کراپنی سیاست اپنے ہاتھ میں لینے کا اعلان کر دیا۔ اس کا خیر مقدم کرنے والے کم نہیں ہیں، لیکن اسے حیلہ جوئی قرار دینے والے بھی موجود ہیں۔ بہت سے حلقے مطالبہ کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم پر پابندی لگائی جائے اور اس کے سیاسی عناصر نئے نام سے سیاست کریں، پرانے نام اور کام کو دفن کر دیں۔
پابندی لگاکر کسی نئی جماعت کے قیام کی راہ ہموار کی جائے یاکسی موجودہ جماعت کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے یا فاروق ستار کی قیادت میں کام کرنے والے سیاسی کارکنوں کی بات سنی جائے، ایک بات واضح ہے کہ ایم کیو ایم کے عسکریوں پر زمین تنگ ہو چکی ہے۔ الطاف حسین نے اپنی تقریر پر معذرت کا اظہار کر دیاہے اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اعلانات کی بھی توثیق کر دی ہے۔ اپنی گرتی ہوئی صحت کی طرف توجہ دینے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے اور یوں پاکستانی سیاست اور ریاست کی توانائی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اگست کے مہینے میں آزادی کی حفاظت کرنے کا جذبہ فزوں تر ہوا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی جارحانہ حکمت عملی صدمے سے دوچار ہے۔ ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے اپنے تازہ شمارے میں جنرل راحیل شریف کے چہرے پر تھپڑ کا نشان لگا کر سرورق چھاپا ہے، پاکستانی سیاست کا معروضی جائزہ لینے والے مبصرین کہہ سکتے ہیں کہ یہ تھپڑ(فی الحال) مودی صاحب کے اپنے چہرے پر رسید کر دیا گیا ہے۔ کوئٹہ اور کراچی کے واقعات نے اہلِ پاکستان کے حوصلے توڑے نہیں، انہیں مزید بلند کر دیا ہے:
تُندیء باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website