تحریر: سید انور محمود
پیر 15 اگست کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پر نئی دہلی کے لال قلعے میں اپنے خطاب میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں جاری پرتشدد واقعات کا براہ راست تذکرہ کرتے ہوئے بہت ہی بے شرمی کے ساتھ کہا کہ ’دہشت گردی کے مددگاروں‘ کو کڑے ہاتھوں لیا جائے گا، یعنی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ کو مودی نے دہشت گردی قرار دئے دیا۔ مودی کی اس طویل 94 منٹ کی تقریر میں میں مرکزی نکتہ پاکستان اور دہشت گردی تھا۔ مودی کا بلوچستان کے حوالے سے کہنا تھا، ’’میں اب کچھ بات بلوچستان، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرقبضہ کشمیر پر کرنا چاہتا ہوں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان بلوچستان اور اپنے زیرقبضہ کشمیر کے لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا جواب دے۔‘‘ مودی کو گلگت، بلوچستان اور آزادکشمیر سب یاد آیا، نہیں یاد آیا تو بس مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں پرمظالم۔ مقبوضہ کشمیر میں 95 فیصد سے زیادہ لوگ بھارت سے آزادی چاہتے ہیں جبکہ بلوچستان میں مشکل سے 5 فیصد ایسے لوگ ملینگے جنکو یا تو بھارت کے ایجنٹوں نے بہکایا ہوا ہے یا خریدا ہوا ہے۔
بھارت کے 70 ویں یوم آزادی کو پوری وادی کشمیر اور تمام دنیا میں کشمیری باشندوں نے یوم سیاہ کے طور پر منایا، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف جلسے، جلوس، مظاہرے اور ریلیاں منعقد ہوئیں ، پوری وادی میں مکمل ہڑتال کے سبب کاروبار زندگی معطل رہا، ، گھروں اور دکانوں پر سیاہ پرچم لہرائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے تشدد سے آٹھ جولائی سے ا ب تک 80 سے زائدکشمیر ی شہید کر دیئے گئے ۔ بھارت مخالف مظاہرے روکنے کیلئے وادی میں آج بھی کرفیو نافذ ہے۔ اس درمیان میں آٹھ اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال کے سامنے ایک خود کش بم حملے میں 74 افراد شہید جبکہ 150 کے قریب زخمی ہوئے۔ اس بم دھماکے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان کے ساتھ ساتھ دہشت گرد تنظیم داعش نے بھی قبول کر لی تھی، لیکن پاکستان کے سینئر اور ملٹری حکام اسے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی پاک چین اقتصادی راہداری کو نشانہ بنانے کی کارروائی قرار دے رہی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کارروائی کا ذمہ دار ’’را‘‘ کو قرار دیا ہے جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی رائے ہے کہ یہ بزدلانہ کارروائی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور بلوچستان کی بہتر ہوتی امن عامہ کی صورتحال کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے بلوچستان میں فرضی زیادتیوں کی دہائی دے رہے ہیں جبکہ یہ پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہے، اس کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے وہ ہیر پھیر کے راستے اختیار کررہے ہیں ۔ اس سے پہلے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اَجیت ڈووَل نے اپنی ایک تقریر میں پاکستان کیخلاف ’’دفاعی حملہ‘‘ شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
اس حکمت عملی کے تحت ڈوول کے مطابق بھارت کو انتہا پسندوں کی خدمات کرائے پر حاصل کرنا چاہئیں اور انہیں پاکستان میں کارروائی کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔ اسی خطاب میں ڈوول نے یہ دھمکی تک دیدی تھی کہ اگر پاکستان نے بھارت میں ممبئی حملوں جیسی ایک اور کارروائی کی تو اسے بلوچستان سے ہاتھ دھونا پڑجائے گا۔ مودی کے پاکستان دشمن بیانات پرخود بھارت میں ملک کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر، سابق کانگریسی وزیرداخلہ پی چدم برم اور سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید سمیت کئی اہم شخصیات نے نریندر مودی کی اس ہرزہ سرائی پر کڑی گرفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کو ایک ایسے علاقے پر بات کرنے کا کوئی حق نہیں جس پر اس کا کوئی دعویٰ ہی نہیں البتہ کشمیر کے حوالے سے اسے خود اپنی خبر لینی چاہیے۔ کانگریسی رہنماوں نے کشمیر میں شورش کا ذمہ دار بی جے پی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مکمل افراتفری کی صورت حال ہے، اس بحران کو وزیراعظم مودی، وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ اور وزیردفاع منوہر پاریکر کے بیانات نے سنگین بنادیا ہے۔
شہید برھان وانی جس کو بھارتی فوج نے 8 جولائی کو شہید کردیا تھا، بدھ 17 اگست کو اس کے چہلم کے موقع پر ہزاروں افراد باندی پورہ میں جمع ہوگئے، اس موقع پر شہید برھان وانی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔مقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ نے لوگوں کو سرینگر میں اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ کرنے سے روکنے کیلئے بدھ 17 اگست کو مسلسل 40 ویں روزبھی پوری وادی میں سخت کرفیو اوردیگر پابندیاں جاری رکھیں، مارچ کو ناکام بنانے کیلئے اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف جانے والے تما م راستوں کی ناکہ بندی کر دی گئی۔ تاہم متعدد مقامات پر لو گ کرفیو اوردیگر پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ کی کوشش کی۔جبکہ بدھ 17 اگست کو ہی پورئے بلوچستان میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے بلوچستان سے متعلق بیان کے خلاف عوام سراپا احتجاج تھے۔ صوبے کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں اور مودی کے بیان کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔
بھارت سے آزادی کی تحریک کشمیر کے علاوہ تامل ناؤ، آسام، ناگالینڈ، تری پورہ، منی پور، مشرقی پنجاب (خالصتان)، شمالی مشرقی بھارت سمیت کئی ریاستوں میں بھی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، لہذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ پوری دنیا کوان علیحدگی کی تحریکیوں کے بارئے بتائے، تاکہ بھارت کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے آئے۔ بھارت کے یوم آزادی کے موقعہ پرکئی مقامات پر مظاہرین اور بھارتی فوج کے درمیان تصادم ہوا جس کے نتیجے میں آٹھ کشمیری نوجوان شہید اور دو بھارتی سپاہی ہلاک ہوئے جبکہ اس سے ایک دن پہلے پاکستان کے یوم آزادی پر پورے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستانی پرچم لہرائے گئے ، قومی ترانے گونجتے رہے اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا بھرپور اظہار کیا گیا۔کشمیری عوام کا یہ رویہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اپنی سرزمین پر انہیں بھارت کا غاصبانہ تسلط ہرگز قبول نہیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کرنا چاہتے ہیں جس کی ضمانت پوری عالمی برادری نے اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کی شکل میں انہیں دے رکھی ہے۔
ان حالات میں بھارتی قیادت کیلئے ہوشمندی کا راستہ صرف یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازع کشمیر کے پرامن تصفیے کیلئے پاکستان سے بامقصد بات چیت شروع کرے جس کی دعوت اُسے ایک بار پھر حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی ہے۔بھارتی قیادت یہ بات نہ بھولے کہ جوہری صلاحیت کے حامل دونوں ممالک کے درمیان لڑی جانے والی تین میں سے دو جنگوں کی وجہ کشمیر کا متنازعہ علاقہ رہا ہے، بلوچستان، گلگت بلتستان نہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی بلوچستان کا رونا بند کریں اور مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم بند کریں۔
تحریر: سید انور محمود