تحریر : عبدالرزاق
مقبوضہ کشمیر کے سرفروشوں اور جانبازوں کی جد و جہد آزادی بام عروج کو چھو چکی ہے جس کی جھلک دیکھ کے مودی سٹپٹا گیا ہے اور اس کے اوسان خطا ہو چکے ہیں اور وہ طرح طرح کی نادانیوں اور گیدڑ بھبکیوں پر اتر آیا ہے۔ پندرہ اگست ہندوستان کی آزادی کے دن مودی نے ایک ایسی حرکت کر ڈالی جس سے وہ نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی رسوا ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اشاروں کنایوں میں مودی پر تنقید کے نشتر برسا دیئے ۔یاد رہے مودی نے پندرہ اگست کو ایک تقریب کے دوران بلوچستان سے متعلق ہرزہ سرائی کی تھی جس کے ردعمل کے طور پر مودی کی بڑے پیمانے پر جگ ہنسائی ہوئی اور ان کو اپنے ملک اور بیرون ملک بری طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان کے سیاسی رہنماوں کے علاوہ ہندوستان کے بھی بعض سرکردہ سیاسی رہنماوں نے مودی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور ان کو حقیقی آئینہ دکھایا اور اس کی توجہ کشمیر کی جانب دلاتے ہوے حقائق پر روشنی ڈالی۔ اس میں دوسری کوئی رائے نہیں کہ ہندوستان مقبوضہ وادی کشمیر میں پاکستان سے محبت، ہمدری، اور لگاو رکھنے والے کشمیریوں پر جس بے دردی ، سفاکیت اور بربریت کا عملی مظاہرہ کر رہا ہے اس کی مثال ملنا بھی ناممکن ہے ۔ ہندوستان اک مدت سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے لیکن وہ غیرت مند کشمیریوں کی بہادری، دلیری اور عزم کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے ۔ ہندوستان نے مروجہ ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی حربہ آزما کے دیکھ لیا ہے اور کشمیری جوانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے کا شوق بھی پورا کر لیا ہے لیکن وہ پھر بھی ان کے جسم و جان سے آزادی کی امنگ ، ترنگ اور خواہش کو معمولی سی بھی ضرب لگانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے بلکہ ہندوستانی ریاستی جبر اور دہشت گردی نے کشمیر کی جدو جہد آزادی کو اک نئی جہت عطا کر دی ہے اور کشمیری حریت پسند اک نئے ولولہ کے سنگ سر پر کفن باندھ کر آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔
اگرچہ قیام پاکستان سے ہی ہندوستان کشمیریوں پر ظلم و ستم کی داستان رقم کرتا رہا ہے لیکن مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے یہ سلسلہ نا قابل بیان حد تک وسعت اختیار کر چکا ہے ۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ چند ہفتوں میں رونما ہونے والے دہشت و بربریت کے واقعات پر ہی نظر دوڑا لی جائے تو درجنوں کشمیریوں کی شہادت اور سینکڑوں کشمیریوں کا زخمی ہوکر بیکار ہو جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مودی کے سر پر پاک دشمنی کا بھوت اس حد تک سوار ہے کہ وہ ان کشمیری جوانوں کے گردزندگی کا دائرہ تنگ کرنے کی مذموم کوششوں میں ہے جو پاکستان سے دلی لگاو رکھتے ہیں۔
ہندوستانی فورسز کی جانب سے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ گذشتہ منگل کو کشمیرکے ضلع بڈگام اور اننت ناگ میں بھی بھارتی سکیورٹی فورسز نے بے گناہ کشمیریوں پر اس وقت اندھا دھند فائرنگ کر دی جب وہ احتجاج کر رہے تھے ۔ اس بے رحمانہ فائرنگ کے نتیجے میں نہ صرف بے گناہ کشمیریوں کی ہلاکت ہوئی بلکہ درجنوں زخمی ہو کر بستر سے چپک گئے ۔ ہندوستانی فورسز کے اس عمل کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے لہٰذا یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں جاری اس قسم کے واقعات کی وجہ سے مودی کو پندرہ اگست پر بلوچستان کا تذکرہ مہنگا پڑا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر لب کشائی کرتے نظر آئے اور انہوں نے دبے لفظوں میں مودی کو طعنہ دیا ہے کہ وہ بلوچستان کی فکر کرنے کے بجائے کشمیر کی صورتحال کا ادراک کریں۔
کشمیر کے حالات نے بھارتی حکومتی عہدہ داروں کی نیندیں بھی حرام کر دی ہیں اور بھارتی وزیروں کے پاکستان سے متعلق زہر آلود بیانات مسلسل میڈیا کی زینت بن رہے ہیں ۔بھارتی وزیر دفاع منوہر پریکر نے اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوے کہا ہے کہ پاکستان میں جانا دوزخ میں جانے جیسا ہے ۔ منوہر پریکر کو اب کون سمجھائے کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کر لینے سے کبوتر کی مصیبت ٹل نہیں جاتی اسی طرح جناب آپ لاکھ کشمیر سے توجہ ہٹانے اور آنکھیں بند کر لینے کی مشق دہرا لیں اب یہ تحریک رکنے والی نہیں انشاللہ کشمیری اپنی آزادی کا پرچم بلند کر کے رہیں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ وادی کشمیر میں آزادی کی تحریک نے جس سرعت سے جنم لیا اس کا اندازہ ہندوستانی حکومت کا ہرگز نہ تھا ان کا خیال تھا کہ معمولی نوعیت کا احتجاج ہو گا جس سے بخوبی نمٹ لیا جائے گا لیکن برہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی کشمیر کے نوجوانوں کا خون کھول اٹھا ہے اور اب یہ تحریک اپنے منطقی انجام کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ کشمیریوں کی جدو جہد آزادی میں اک نیا جوش ،ولولہ اور رنگ دیکھنے کو مل رہا ہے کشمیری ہمت کا پہاڑ بن چکے ہیں اور ان کی نظر اپنی منزل آزادی کے حصول پر مرکوز ہے۔
یاد رہے افضل گرو جو پارلیمنٹ حملہ کیس کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے تھے کشمیریوں میں خاصے مقبول تھے ان کی موت پر بھی کشمیریوں کی جانب سے اس قدر غم و غصہ کی لہر نہ اٹھی تھی جس قدر برہان وانی کی شہادت کے بعد حالات کشیدہ ہوے ہیں اور مودی حکومت کو کشمیر ہاتھوں سے پھسلتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت میں مذید کھل کر سامنے آنا چاہیے اگرچہ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے کشمیر یوں پر ظلم و ستم کے تناظر میں اقوام متحدہ کو خط لکھ دیا ہے جو خوش آئند بات ہے لیکن پاکستان کو اس سے بھی بڑھ کر کشمیریوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔کشمیریوں کی پاکستان سے محبت بے مثال ہے اس محبت کی پاداش میں وہ بھارتی مظالم کا شکار رہتے ہیں اس محبت کا قرض اتارنے کے لیے پاکستان کو ہر سطح پر کشمیریوں کا بھر پور ساتھ دینا چاہیے۔
کشمیری نا مصائب حالات میں بھی پاکستان سے لگاو کا عملی مظاہرہ کرنے میں پیش پیش ہیں کبھی وہ مقبوضہ وادی میں پاکستان کا جھنڈا لہرا دیتے ہیں اور کبھی کشمیر بن کے رہے گا پاکستان کا نعرہ بلند کر دیتے ہیں جس کے جرم میں وہ طرح طرح کی سختیاں اور مصیبتیں برداشت کرتے ہیں اس کے باوجود ان کی پاکستان سے نسبت میں معمولی کمی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوے مودی نے کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے بلوچستان پر بات کی لیکن اس کو شائد اس بات کا احساس نہیں کہ بلوچستان اور مقبوضہ وادی کشمیر کے زمینی حقائق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کشمیر میں تو آزادی کی جنگ آخری مراحل میں ہے اور انشاللہ بہت جلد کشمیریوں کی قربانیاں ثمر آور ہوں گی اور مقبوضہ وادی کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔
تحریر : عبدالرزاق