تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
زندہ قوموں کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے محسنوں کی یاد یں مناتی ہیں ان کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے ان کی یاد میں جلسے ،جلوس کرنے کے علاوہ اپنے محسن کی سیرت و افکاراور حالات زندگی کے بارے میں تقاریر کی جاتی ہیں۔ جو قومیں اپنے محسنوں کے احسانات کو بھول جاتیں ہیں فراموش کر دیتی ہیں ،زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔یوں تو ہر دن ،ہر رات اور ہر زمانے کا ہر لمحہ کی تخلیق اللہ نے کی ہے اورلیکن ان میں سے کچھ دن ،لمحے ،مہینے کچھ خاص اہمیت وخصوصیت رکھتے ہیں۔
بعض ایام ایسے ہیں جو اپنی نمایا ں خصوصیات کی وجہ سے دوسرے ایام پر فوقیت رکھتے ہیں جیسے ماہ رمضان کو جو دوسرے مہینوں پر فضیلت و برتری حاصل ہے ،وہ کسی اہل اسلام سے مخفی نہیں ۔اسی طرح ہفتہ کے دنوں میں جو جمعہ کو اہمیت حاصل ہے اس سے بھی ہم سب واقف ہیں، دس محرم الحرام اسلامی تاریخ کا ایک مستقل اور انتہائی دردناک باب ہے ،امام حسین رضی اللہ عنہ ہمارے عظیم محسن و پیشوا اور دین و ملت کے محافظ و پاسبان اور جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں انہوں نے دین کے لیے اپنی جان اور خاندان کو قربان کر دیا ۔ہماری مذہبی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی دین پرور زندگی اور کردار و عمل کو مشعل راہ بنائیں ان سے سیکھیںان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں ان کی یاد میںمجالس ہوں جلسے جلوس نکالنے کے ساتھ ساتھ ان کے مشن پر تقاریر ہوں اور ان کی قربانی کا جو مقصد تھا اسے اجاگر کیا جائے۔
عوام کو خاص کر نئی نسل کو ان کی زندگی اور دین اسلام کے لیے قربانی ،ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا،اصولوں پر سودے بازی نہ کرنا ،ظالم کے ڈر یا موت کے خوف سے سر نہ جھکانا ۔اور بے سروسامانی کے باوجود ظالم کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونا جیسے پہلوں سے روشناس کرائیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ یزید کافر نہیں تھا بلکہ بد اعمال تھا اور اسے بے ایمانی ( دھاندلی) سے خلیفہ وقت بنا دیا گیا تھا ۔امام حسین رضی اللہ عنہ عین اسی وقت بے سر و سامانی کی حالت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی انجام دہی کے لئے آگے آئے جب مسلمانوں کی اکثریت نے اسے خوف سے خلیفہ (بادشاہ ) مان لیا تھا یا اس تمام معاملے سے الگ ہو گئے تھے ۔ آپ نے جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے کے جرم میں جان قربان کر دی ۔لیکن آپ کے ضمیر نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ ایک غلط حکمران مسلمانوں پر مسلط رہے۔
جو شعار اسلام پر عمل پیرا نہ ہو جو ذاتی مفاد کو عزیز رکھتا ہو عوام پر ظلم کرتا ہو ایسے حکمران کے سامنے آپ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے، آپ کی زندگی سے یہ درس ملتا ہے کہ۔
جب بھی ضمیر کے سودے کی بات ھو
ڈٹ جائو حسین کے انکار کی طرح
مسلمانوں کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زندگی میں جو درس ہے اسے ہم مسلمانوں کی اکثریت بھول چکی ہے جس میں امام حسین نے اپنے خاندان کی قربانی دے کر یہ ثابت کر دیا کہ حق کھبی باطل کے سامنے سر نگوں نہیں ہو سکتا ، ایک مسلمان پر توحید و رسالت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ احکام الہٰی اور فرامین رسول ۖ کا نفاذ بھی ایمانی ذمہ داری ہے ۔اور یہ ذمہ داری اپنے گھرسے لے کر کوچہ وبازار تک ، مسجد سے لے کر سیاست و حکومت کے ایوانوں تک ہے۔
اگر کوئی ایسی نام نہاد حکومت وجود میں آجائے جو دین اسلام کے نظام حکومت سے مختلف ہو تو مسلمان ہونے کے ناطے اسے تسلیم نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ پاکستان میں ہے، پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا مگر اس میں اسلامی نظام حکومت قائم نہ ہو سکا اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری مذہبی جماعتیں ہی ہیں اور ہم مسلمان ہی ہیں ہم نے اس جمہوری نظام حکومت کو قبول کیا ہوا ہے جو کہ اسلامی نظام حکومت کے متضاد ہے بلکہ ملک میں جنگل کا قانون نافذ ہے ،یہاں نہ عزتیں محفوظ ہیں نہ ہی جان و مال ، ایک مہنگائی کا طوفان ہے اور نظام عدل قائم نہیں ،رشوت کا بازار گرم ہے اور سودی معیشت ہے ہمارا بنک کا سسٹم سود پر قائم ہے ،حکمران عوام کے پیسوں پر عیاشی کر رہے ہیں۔
اس ملک میں اس ملک کے محسن عبدالستار ایدھی جیسے انسان کو لوٹ لیا جاتا ہے ۔بدمعاش کو ہیرو خیال کیا جاتا ہے ،بچیوں کی قرآن سے شادی جیسی رسمیں موجود ہیں ،عدالتیں ہیں لیکن انصاف نہیں ہے ،مساوات کانام صرف کتابوں میںہے، طاقت ور کو اس ملک کا نظام سزا نہیں دے سکتا ،اسلام کے نام پر ووٹ لے کر جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے والے مذہبی رہنما ہیں جو خود کو علامہ بھی کہتے ہیں ۔ معرکہ کربلا کے ایک ایک واقعہ سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اسلامی دستور سے وفاداری کا مقصد دنیا میں اپنا ذاتی فائدہ نہ تھا بلکہ اسلام کا نفاذ اور اس کی حمایت ہی انکی اسلام دوستی کی اصل غایت تھی ۔اس لئے تمام مصائب کو آپ نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
آج امام عالی مقام کی سیرت سے ملنے والے اس درس کو پھیلانے کی اشد ضرورت ہے ،اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے ۔میں ایک اور بات واضح کرنا چاہتا ہو ں کہ اسلام اس نظام حکومت کو جو اسلامی نہ ہو اور وہاں مسلمانوں کی اکثریت بھی ہو اسے بدلنے کی کوشش کرنے کو جہاد کہتا ہے ہماری مذہبی جماعتوں کو اس پر سوچنا چاہیے کہ جہاد کا مقصد رب کی دھرتی پررب کا نظام قائم کرنا ہے(صرف نعرہ نہیں)۔ اس جہاد (کوشش) کا انجام کیا ہو اس سے ایک مسلمان کو سروکار نہیں ہوتا کیونکہ وہ تقدیر کے بدلنے کا دعویدار نہیںہوتا کوشش کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور اسی کا اس کو جواب دینا ہو گا۔ مسلمان مصائب کے طوفان کا دھارا موڑ دینے کا دعوی دار نہیں یہ بھی ضروری نہیں کہ کامیابی ہی ملے اسلام میں کلمہ حق کہنا ہی کامیابی ہے ۔ اسلام مصائب سے کھیلنا سکھا دیتا ہے۔
آج بھی اسلام دوستی کے ثبوت کے لئے وقت کے یزید سے نبرد آزما ہونا غلامانِ امام حسین رضی اللہ عنہ پر فرض ہو چکا ہے ۔ جو ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اس میں بندوں کا بنایا ہوا نظام حکومت رائج ہے اور اس سے بڑھ کر مذہبی جماعتیں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر نفاذ اسلام کو بھول چکی ہیں ۔ان میں سے( اکثریت ) کا طرز عمل ذاتی مفادات پر مبنی ہے ۔ اس وقت امریکہ ،بھارت، اسرائیل اور ان کے دوست ملتِ اسلامیہ (مسلمانوں) کو دستور اسلام سے ہٹانے کے لئے میدان میں اتر چکے ہیں۔
میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ غمِ حسین رضی اللہ عنہ میں رونا ثواب ہے مگر کردار حسین رضی اللہ عنہ کو اپنانا ریاضت ہے اور جس مقصد کے لیے آپ نے جان قربان کی اس کو سمجھنا اس پر عمل کرنا اصل عبادت ہے ۔دین اسلام کے نفاذ کے عمل کی کوشش کرنا ۔اور یہ ہی آپ کا اپنی جان قربان کرنے کا مقصد ہے یہ ہی ان کی زندگی سے درس ملتا ہے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ ناز و نعم میں نشو نما پا کر وقت کے فرعون سے ٹکرا گئے اور مصائب و آلام کو گلے لگا لیاور تاریخ عالم میں نیا باب رقم کیا جو نہ پہلے تھا اور نہ قیامت تک پھر رقم ہو گا۔ آئیے ”امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیغام ظالم کے سامنے کھڑے ہونا،کلمہ حق کہنا ،اسلام کے نفاذ کے لیے جان و مال قربان کر نا کو کو عام کریں تاکہ یزیدی قوتیں اپنے انجام کو پہنچیں۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال