مہینوں کے تجسس کے بعد پاکستان کے نئے آرمی چیف کا نام اعلان ہوا تو سوچا کہ امریکہ کا آرمی چیف کون ہے؟ اور جواب ندارد۔ تیرہ سالوں سے امریکہ رہتے ہوئے ایک بھی آرمی چیف کا نام نہیں پتا جبکہ پاکستان کی تاریخ کے ایک ایک آرمی چیف کا نام بچے بچے کو پتا ہے۔آرمی چیفس کی مملکتِ خدادا میں خداداد مقبولیت کے عوامل پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چُکی ہیں لیکن اسکی سب سے اہم وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے “کردار”!!! سیاستدانوں کے کردار کی کمزوری فوجیوں کےنام یاد کروانے کے لئے کافی ہے۔
صدر اوبامہ جو کہ سیاہ فام ہے، نے اپنے آٹھ سالوں کے دوران دو سو سے زائد سفید فام سینئر ملٹری افسران کو نوکری سے برخواست کیا جن میں سے نو جرنیل صرف 2013 میں نکالے گئے۔ سب سے اہم قدم، انتہائی طاقتور جنرل میک کرسٹل کو امریکہ کے نائب صدر (یاد رہے کہ صدر بھی نہیں) کی شان میں ہرزہ سرائی پر نوکری سے نکال دینا ہے۔ کیا کردار کی پُختگی کے بغیر ایک کالا صدر جس کےدادا پردادا، گوروں کے غلام تھے، گورے جرنیلوں کو نکال سکتا تھا؟؟؟؟؟ اگر یہاں بھی سوئس اکاؤنٹس اور پاناما لیکس ہوتے اور مشال اوبامہ کو کسی بدو کے خط کی ضرورت ہوتی تو کیا ایسا سخت قدم لیا جاتا؟ ہر سوال کا جواب ہے “کردار کی مضبوطی”!!!!جب ایک کالے صدر پر آٹھ سال میں کسی معمولی سی کرپشن کا الزام نہ ہو تو اسکے کردار کا “اُجلاپن” دیکھ کر اسکے ہر فیصلےمیں قوم اُسکے ساتھ ہوتی ہے۔
مزے کی بات ہے کہ ہمارے مُلک پاکستان میں “کردار” سے مُراد لی جاتی ہے، رومانوی یا جنسی تعلقات کی موجودگی یا غیر موجودگی۔ یعنی ایک لڑکی جو انتہائی نیک سیرت، نفیس، با اخلاق، ایماندار اور صلح جو ہو لیکن اسکا کسی سے لگاؤ یا رومانوی تعلق ہو تو وہ “بدکردار” جبکہ اگر کوئی لڑکی چور، بدزبان، چغل خور، لگائی بجھائی کرنیوالی اور بےایمان ہو تاہم اسکا کوئی افئیر نہ ہو تو وہ “باکردار” کہلاتی ہے حالانکہ سامنے کی بات ہے کہ ایسی “خوبیوں” کی مالکن کو کوئی “منہ لگائے” گا تو “بد کرداری”تک بات پہنچے گی۔
مرد حضرات بھی کچھ ایسے ہی ہیں- کہیں پہلوانی سیکھنے جاؤ تو “اُستاد” اپنے پٹھے پہلوان کو “لنگوٹ کا صاف” رہنے کا حکم دیتے ہیں۔ اب وہ پٹھہ پہلوان چاہے غریبوں کےپلاٹوں پر قبضے کرے، چاہے شراب کے ڈرم کے ساتھ پورا بکرا کھا جائے لیکن “کردار” کا تعلق صرف “لنگوٹ کی صفائی” تک ہے۔ کیرئیر کی ابتدا میں لاہور میں، ایک ہسپتال میں کام کرتے ہوئے، اِن نظروں نے ایسے “لنگوٹ کے صاف” لوگوں کو بعد میں نشے کا مریض بن کر لنگوٹ میں ہی بول بزار کرتے دیکھا ہے۔
کہتے ہیں کہ مرد تو حج کرکے اور داڑھی رکھ کر کبھی بھی انتہائی بدکردار سے با کردار بن سکتا ہے لیکن عورت داڑھی نہ رکھ سکنے کے باعث کوئی ایک غلطی بھی کر دے تو ہمیشہ بدکردار رہتی ہے۔
یہی حال عمومی زندگی میں ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو ایسے لوگوں سے ملنے سے سختی سے منع کر دیتے ہیں جن کی “بدکرداری” کی حد یہ ہو کہ فلانے کی لڑکی نے “لو میرج” کرلی یا فلانے کا لڑکا کوئی لڑکی بھگا کر لے گیا۔ کیا کسی نے اپنے بچوں کو ایسے گھروں میں جانے سے منع کیا ہے کہ وہ “بدکردار” ہیں کیونکہ اس گھر کا سربراہ رشوت خور ہے، اسمگلر ہے، ذخیرہ اندوز ہے، ملاوٹ کرتا ہے یا بھتہ خور ہے؟؟؟؟؟ کیا ہم ایسے لوگوں کو “بد کردار” کہتے ہیں؟؟؟
اس میں تو کوئی شک کی بات نہیں کہ ہر انسان کا ذاتی کردار بھی بہتر سے بہترین ہونا چاہیے اور اسکے لئے سعی کرنی چاہیے، لیکن یاد رہے ایک انسان اپنی ذاتی زندگی میں جو بھی کرے لیکن اگر اسکا اثر دوسروں پر نہ ہو تو وہ ان سے کہیں زیادہ “باکردار” ہے جو ہنستے ہنستے، نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے اور حج کرتے دوسروں کی زندگیوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ نُقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمارا ذاتی کردار بھی جب بہتر ہوگا جب ان لوگوں کو “بدکردار” سمجھیں گے جو ملک و قوم اور معاشرے کے لئے ناسور ہیں۔ جیسی روح ویسے فرشتے کے مصداق، بدکردار عوام پر بدکردار حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں اور جب اپنے ہی منتخب شدہ عذاب کے بوجھ سے دم گھٹتا ہے تو نہ صرف آرمی چیف کا نام ہر ذی روح کو ازبر ہو جاتا ہے بلکہ اُسکے لئے سلیوٹ مار کر “شُکریہ” بھی دل سے نکلتا ہے۔