تحریر : مریم جہانگیر
فطرت انسانی میں ودیعت کردہ سچائی ہے کہ انسانی زندگی کی بہار عمرِ جوانی میں مضمر ہے۔ جوان سال کچھ کر دکھانے کی صلاحیت سے لبریز ہونے کے ساتھ اپنی غلطیوں سے سیکھنا بھی جانتے ہیں۔ نوجوان دراصل آگ ہیں۔ دھیرے دھیرے پھیلتے ہیں ‘ بامِ عروج پر جا پہنچیں تو ہاتھوں کو جلا دیتے ہیں ‘ اور ان کے ایندھن کی بنیاد پر استوار عمارت شعلے کے بجھنے کے بعد بھی چنگاری رکھتی ہے اور خود پر نگاہ غلط ڈالنے والے کو جلا کر بھسم کر دینے کی صلاحیت بھی۔یہ نقطہ بھی غور طلب ہے کہ بغیر غور و فکر اور شعور اور آگہی کے افراد کا مجموعہ قوم نہیں بلکہ گھوڑوں کی وہ بھیڑ ہے جس کی کوئی لگام نہیں اونٹوں کا وہ خاندان ہے جس کے ناک میں نکیل نہیں وہ منہ زور دریا ہے جس کا کوئی بند نہیں۔ اس لئے صرف یہ کہا جانا کہ نوجوان قوم کی تعمیر میں کردار ادا کر سکتے ہیں قطعاً بحث طلب ہو گا۔ اس نقطہ نظر کو درخود اعتناء سمجھا جانا چاہیے کہ نوجوانوں کے ”فکر وآگاہی سے مزین مثبت اقدامات ”کا ردِ عمل قوم کی موثر تعمیر ہے۔ بقول اقبال
وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارہ
شباب جس کا ہے بے داغ ‘ ضرب ہے کاری
یہ بات صحیح ہے کہ شمع جب تک خود نہ جلے اجالا نہیں ہوتا ‘ پھول جب تک شاخ سے جدا نہ ہولے گلے کا ہار نہیں بنتا اور نوجوان جب تک اپنا خون نہ بہائے قوم سرخرو نہیں ہو سکتی اگر قوم کے نوجوان ہونہار و بے باک فرزندان کی طرح سنجیدہ کوششوں سے گریز نہ کرتے ہوئے ‘ قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح نہ دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں تو تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے اور اگر نوجوان عیش پرستی ‘ بے راہ روی ‘ گمراہی ‘جنس پرستی اور ثقافت کی بغاوت کے علمبردار بن جائیں تو غلامی کی طویل زنجیریں ان کے گلے کا طوق بن جائیں اور غلامی اس قوم کا پیڑ جس کے آنگن میں ایسے بے حس نوجوان پلتے ہوں۔تاریخ گواہ ہے کہ نوجوان جس کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں اگر ان کی رگوں میں کوئی جذبہ خون بن کر دوڑتا ہے تو انکی فولادی فطرت اس جذبے کو اپنے لہو سے رنگ حقیقت میں ڈھال کر دم لیتی ہے۔ حضرت علی نے جوانی میں اپنی بہادری کے قصوں کے سبب آفاق گیر شہرت پائی۔ حضرت خالد بن ولید کو انکی جرات کے سبب سیف اللہ کا لقب ملا۔ محمد بن قاسم کی سترہ سالہ قیادت نے سندھ میں پہلی دفعہ اسلام کے دروازے وا کیے۔ سرسیّد احمد خان ‘ مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر کی جو ان مثلث نے برصغیر کا جغرافیہ بدل دیا۔
اقبال کی شاعری نے شاہین کی دریافت کی محمد علی کو جناح بن دیا۔ مصطفی کمال نے تاریخ میں انقلاب لفظ کی وسعت کو اپنے عمل سے قائم کر کے دکھا دیا۔ منصور کی سولی سے آج بھی انالحق کی آواز آتی ہے۔ حضرت حسیننے در باطل پہ جھکنے سے انکار کر دیا اور ملت اسلامیہ کی اپنے خون سے آبیاری کی۔ طارق نے ساحل اندلس پر کشتیاں جلا کر فتوحات کے جھنڈے گاڑھ دئیے۔ ”ابھی یا کبھی نہیں Now or Never!جیسی مدبر سوچ بھی برصغیر کے جوان کی فکر کا کارنامہ ہے۔ راشد منہاس نے اپنی جان قربان کر کے قوم کو سربلند کر دکھایا۔ عامر چیمہ شہید نے ناموس رسالتۖپر قربان ہو کر اسلام کی لاج رکھ لی۔ماضی میں کی جانے والی یہ انفرادی کاوشیں ‘ کامیابیاں اور قربانیاں حال میں بھی اجتماعی فخر کا باعث ہیں اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ ایک چراغ سے ہزار چراغ جلتے ہیں۔ قطرے مل کر دریا بناتے ہیں اور دریائی انقلاب روایتی ہتھکنڈوں کو غیر موثر ثابت کر دیتے ہیں انقلاب نوجوانوں کا شاخسانہ ہیں اور روحِ امم کی حیات کشمکش انقلاب نحیف و ضعیف افراد کے لہو سے آہ و فغاں اور سسکیاں و آہیں ہی بلند ہوتی ہیں جبکہ نوجوان شہید کہلاتے ہیں اور نوجوانوں کے لہو کے متعلق شاعر کہتا ہے کہ
شہید کا جو خون ہے قوم کی زکوٰة ہے
شہید کی جو موت ہے قوم کی حیات ہے
چین کے نوجوان جب تک منظم نصب العین کی طرف گامزن نہ تھے آبادی کا ریلا کہلاتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں والوں کی اس دنیا میں کوئی اہمیت نہ تھی مگر آج جب ان چھوٹی آنکھوں کے پیچھے پیچھے مارٹن لوتھر کے وضع کردہ تخیل تک رسائی ہو چکی ہے۔ دنیا کا ہر تسلط پسند ملک چین سے خائف ہے۔ اگر یہ نوجوان بھی جنس پرستی ‘ جدت پسندی اور شراب کے گورکھ دھندے میں ملوث ہو جائیں تو چین پہلے کی طرح لفظ وقعت سے نا آشنا ہو جائے۔
شاعر مشرق نے فرمایا
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
قوم کی حالت کو بدلنے کیلئے تعمیر کی طرف مائل کرنے کیلئے نوجوانوں کو بے حسی ‘ نفسا نفسی اور خود غرضی کے لبادے تلے چھپے دل کو اولاً مشقت اور سفر کی طرف مائل کرنا ہو گا اور سفر کیلئے راہ چاہیے ‘ راہ کیلئے چراغ چاہیے ‘ چراغ کیلئے روشنی چاہیے ‘ روشنی کیلئے جگنو چاہیے ‘جگنو کیلئے درد کا مارا چاہیے ‘ درد کا مارا ہونے کیلئے درد چاہیے ‘ درد کیلئے فکر چاہیے ‘فکر کرنے کیلئے سوچ چاہیے ‘ سوچ کیلئے عمل چاہیے کیونکہ بغیر عمل کے سوچ وہ راستہ ہے جس کی کوئی منزل نہیں اور عمل کرنے کیلئے نوجوان کی اشد ضرورت ہے۔قوم کی تعمیر کیلئے نوجوانوں کو نظریاتی اختلافات کو پسِ پشت ڈالنا ہو گا باہمی داخلی رنجشوں کا خاتمہ کرناہو گا بیرونی مداخلت پر آواز اٹھانے کیلئے وحدت و یگانگت کی اہمیت سے پہلو تہی کرنے کی عادت کو ترک کرنا ہو گا۔ شخصی ذاتی انفرادی اصلاح کا بیڑا اٹھانا ہو گا۔ زمین وزر کو کل نہیں بلکہ جزجاننا ہو گا۔ مرکز واحد پر مرتکز کرنا ہو گا۔
جہالت کی مخالفت کر کے علم کو عام کرنے کی سعی کرنی ہو گی۔ اپنے کانوں سے موسیقی کی دھن کا نام و نشان مٹا کر قوم کے درد کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرنا ہو گا اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم اکیلے کچھ بھی نہیں ہماری پہچان کوئی بھی نہیں قوم ہے تو ہم ہیں ہماری پہچان ہیں۔ درخشاں مستقبل کی بنیاد حال میں کیے گئے عوام کے فیصلوں پر منحصر ہو گی۔ کل کو سنوارنے کیلئے آج کو بہتر بنانا ہے۔ کھیل کا میدان ہو یا صحافت کا شعبہ ‘ سیاسی منڈی ہو یا علمی معرکے ‘ نوجوانوں کی شمولیت کی اشد ضرورت ہے۔نوجوانوں کو اگر قوم کی اکائی کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ جہاں کچھ نوجوان بے حسی کا لبادہ اوڑھے قوموں کیلئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں ‘ وہیں قوم کی اساس اور طاقت نوجوان ہی ہیں۔سرحدوں کی حفاظت کا مسئلہ ہو یا ملک کے داخلی حالات اگر نوجوان ان پر سیر حاصل معلومات رکھتے ہوں تو مسائل بنیاد سے ہی قابل حل لگنے لگیں۔ منشیات کی چکا چوند نے عصرِ حاضر کے نوجوانوں کے حواس چھین لئے ہیں اس لت سے اگر چھٹکارا نہ حاصل کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ہر گلی میں سیدھے کھڑے لوگ کم اور ٹالیوں کے گرد لیٹے لوگ زیادہ نظر آئیں گے۔
اگر نوجوانوں کی دلچسپی کا مرکز قومی مسائل کو بنا دیا جائے تو قومی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے با آسانی چھوٹے بڑے معاملات سے نمٹ لیا جائے۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مواصلاتی رابطے پر قائم کردہ ٹیکس کو انہوں نے خاموشی سے صرف SMSکے ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے ختم کروا دیا۔ اگر نوجوان ایسے ہی دلچسپی پرامن معاشرے کے قیام کیلئے دکھائیں تو کوئی اس ملک کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ معاملہ بھی خود میں وسعت رکھتا ہے کہ عصرِ حاضر میں صرف جذبات اور جوش کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے دانشمندی اور ہوش سے کام لینا ہو گا۔مثلاً مسلمانوں کے بھیس میں کسی دہشت گردی کرتے دیکھ کر مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھ لینا کم عقلی ہے جبکہ مسلمانوں اور ان منافقین کے مابین فرق کو سمجھنا عقلمندی ہے۔ احتجاج برائے احتجاج اور تنقید جیسے منفی رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہو گی۔ معاملے کی تہہ میں جائے بغیر صرف سنی سنائی پر یقین کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔
ذاتی معاملات کو وجہ اختلاف بنا کر کسی قومی شخصیت کے بیخے ادھیڑنے سے اجتناب کرنا ہو گا کیونکہ ایک اونٹ کا مالک بھی اس کے دام خود بڑھاتا ہے جبکہ قومی شخصیت تو دنیا کے سامنے ہم سب کی عکاسی کرتی ہے۔ حکمرانوں پر تنقید کرتے وقت یہ بات مدِ نظر رکھنا ہو گا کہ انہیں حکومت کیلئے ہم نے چنا ہے۔ غصے کا اظہار توڑ پھوڑ کی شکل میں کرنے سے گریز کرنا ہو گا کیونکہ اس طرح ہم اپنی ہی چیزوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو غصے کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔ تحمل کے فقدان کے سبب کوئی بھی کسی دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں۔ کوئی مر رہا ہو اور ”ایک بوند پانی ‘ ایک بوند پانی ”چیخ رہا ہو تب بھی کوئی نظر اس پر کرم نہ کرے گی ماؤں کے بیٹے ہنستے کھیلتے گھروں سے جاتے ہیں اور واپسی کفن میں لپیٹے ہوئے وجودوں کی ہوتی ہے۔
درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات
اک دل انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں
وہ دور گزر گیا کہ آنکھیں کبوتر کی طرح بند کر لی جائیں آپ کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ایک کا بہادرانہ عمل صدیوں بعد بھی قابلِ تقلید رہیگا اور ایک کی بزدلانہ روش کیلئے پوری قوم کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریباں میں جھانکنا ہو گا اس بات کو ماننا ہو گا کہ کوئی ہمارے اختیار میں نہیں مگر ہم تو اپنے اختیارمیں ہیں نا !لہذا ہمیں اپنے نفس کو اس راہ کا پیروکار بنانا ہو گا جس کی منزل ہماری قوم کی ترقی ہو۔ اپنی جانوں کے نذرانے کو اپنے ملک کیلئے ارزاں سمجھناہو گا۔ اپنے شعبوں کو ذریعہ کمائی سمجھنے کے بجائے عین عبادت سمجھناہو گا۔ لسانی اختلافات کو زبانی جھگڑوں کی شکل دے کر غیروں کو انگلی اٹھانے سے باز رکھناہو گا۔ فطرت کے عین تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کی بہار یعنی نوجوانی میں ایسا کردار وضع کرنا ہو گا جس کی آنے والی نسلیں پیروی کر سکیں وہ گفتار کا انداز اپنانا ہو گا جو قابلِ تقلید ہو موت کا وہ طریقہ اپنانا ہو گا۔ جس پر عالم رشک کریں اور آنے والے لوگ معمار قوم کی فہرست میں ہمارا نام بھی جلی حروف میں لکھیں۔ اگر نوجوانوں کے جدت پسند مغربانہ شکنجے میں پھنسے دماغوں میں یہ سوچ سرائیت کرجائیں تو یہ نا ممکن نہیں کہ قوم تعمیر کی وہ آفاق گیر سرحد پار کر لے کہ دیگر اقوام عالم اس پر رشک کریں اور تقلید کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہیں دوسرے لوگوں کیلئے خود کو مشعل راہ بنانے کیلئے ہمیں مہذبانہ رویے کو اپنانا ہو گا نئی نسل کے کچے اذان پر اچھی تربیت کے پکے نقوش چھوڑنے ہونگے خاموش انقلاب کا بیڑا اٹھانا ہو گا۔
اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا۔ مہنگائی یا وسائل کا فقدان بلا شبہ جھنجھٹ کا سبب بنتا ہے مگر آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ وسائل کی کمی کو سمجھنا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہم کاٹھ کے الو بن کر ہر غیر ضروری چیز کو خود پر برداشت کریں اس کے برعکس ہمیں مسائل کو سمجھ کر ان کے حل کیلئے اتحادی کارروائیاں کرنی ہوں گی۔ بیرونی دباؤ کا خاتمہ معاشرے میں امن کے قیام کیلئے بہت ضروری ہے تعلیم کو صرف ذہنی نشوونما کیلئے محدود کر دینا درست نہیں بلکہ اس سے ہماری ظاہری حالت و فعل میں بھی تبدیلی آنی چاہیے حسد و کینہ کے نقصانات سے آگاہی کیلئے نوجوانوں کی سطح پر سیمینار منعقد کروانے چاہیے ‘ کسی کے اچھے عمل سے خائف ہو کر اسکی ٹانگ کھینچنے کے بجائے اسے بڑھاوا دینا چاہئے۔ اخلاقی قدروں کو خصوصی اہمیت دی جانی چاہیے۔ اگر ان سب اقدامات کو مدِ نظر رکھ کر ہر شخص ذاتی تربیت کر لے تو قوم کی پرامن اور مثبت تعمیر میں کوئی بھی چیز مانع نہ ہو گی۔
تحریر : مریم جہانگیر