تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
ہمارے ملک میں نصف آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اس کے باوجود ہمارے ہاں آج تک کسی حکومت نے سنجیدگی سے نوجوانوں کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی نہ ہی ان مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس وجہ سے نوجوان جرائم مثلا لوٹ مار ،اتنہاپسندی ،منشیات ،رشوت ،ملاوٹ خودکشی جیسے اور دیگر سنگین برائیوں کی طرف بڑھ ہو رہے ہیں۔ نوجوانوں کے پاس کوئی ایسا فورم نہیں جہاں وہ اپنی آواز بلند کر سکیں جو فورم ،پارٹیاں وغیرہ ہیں ان کے سربراہ نوجوان نہیں ہیں اس لیے نوجوان قوم تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے آج کل سوشل نیٹ ورکنگ ،انٹرنیٹ وغیرہ کااستعمال کررہے ہیں۔
جس سے علم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کے اندرکیسی تڑپ ہے اس نظام کو درست کرنے کی ،ترقی کی اور اپنے ملک سے محبت کی ۔دانشور کہتے ہیں کہ جس ملک کا نوجوان جتنا زیادہ تعلیم سے آراستہ ہو گا وہ ملک اتنی ترقی کرے گا ،تعلیم کا جو حال ہمارے ملک میں ہے۔ اس پر رویا جا سکتا ہے ،ماتم کرنا چاہیں تو وہ بھی ہو سکتا ہے ،بے حسی کی چادر اوڑھ لیں تو سب اچھا ہے ۔بہت سے تعلیمی نظام رائج ہیں ،اسی طرح بے شمار نصاب ہیں ،اس کے علاوہ ہمارے ہاں رٹے سے ڈگری (پیسے سے بھی ملتی ہے،نقل سے بھی)انگلش بولنے کو علم سمجھا جاتا ہے ،پانچویں پاس وزیر تعلیم بن سکتا ہے ،ایف اے پاس صدر ، ہمارا ملک دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک بچے کو مادری زبان ،قومی زبان ،مذہبی زبان ،اور حکومتی زبان(انگلش جو کہ اصل میں آقا کی زبان ہے جس نے نوجوانوں کا خون نچوڑ لیا ہے )سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے ۔علم کا مطلب جاننا نہیں صرف کسی مخصوص زبان میں رٹنا ہے(وہ عصر حاضر کے علوم ہوں تو انگلش میں رٹنا اور اگر مذہبی ہوں تو عربی میں رٹنا کیونکہ قرآن پاک کو بھی ہمارے ہاں مادری یاقومی زبان میں سمجھنا ضروری نہیں سمجھا جاتا)پاکستان میں 70 فیصد سے زیادہ ان پڑھ ہیں ایسے میں نوجوان تخلیقی ذہین کیسے پیدا ہوں گے ۔ان نوجوانوں کے دم پرملک کیسے ترقی کرے گا۔
دانشور وں کو کیا کہیں وہ تو کہتے ہیں جس ملک کا نوجوان طبقہ جتنا زندہ دل ہوگا، زندہ ضمیر ہوگا۔ اس ملک کی قوم اس قدر خوددار ہوگی۔ ہمارے ملک کے نوجوان طبقے کے زندہ دل ہونے میں تو کوئی شک نہیںلاشوں پر بھنگڑے ڈالتے دیکھے جا سکتے ہیں (ضمیر کا زندہ ہونا ضروری نہیں) کسی ملک کی ترقی کے لیے اس ملک کے نوجوانوں میں دیگر جن خوبیاں کا ہونا ضروری ہے، ان میں مقصدیا نصب العین ، مسلسل محنت ،محنت میںسمت کا درست ہونا ، اور اخلاق وغیرہ پھر یہ کہ نوجوانوں کو بے کار نہ رہنے دینا (روزگار دینا) وغیرہ جیسی سہولیات کا ہونا کو تو ہم کتابی باتیں سمجھتے ہیں ۔کسی ملک کی ترقی کے لیے اس ملک کے نوجوان کو سب سے پہلے بھوک و غربت سے نجات دینا ضروری ہے اس کے لیے اس کو روزگار دینا ہوگا ،اس کے بعد تعلیم دینا وہ بھی پورے ملک میں ایک جیسا نظام تعلیم ہو اور ایک جیسا نصاب ، جو کہ اس کی اپنی زبان میں ،عدل و انصاف کا حصول آسان ہو تو ملک ترقی کر سکتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں انسان کے پاس جوش ہوتا ہے ،ترقی کا ایک جذبہ ہوتا ہے وہ کچھ کرنا چاہتا ہے،اپنا آپ منوانا چاہتا ہے ۔نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا کر کوئی ملک ترقی کر سکتا ہے ،نوجوان اپنی ذات ،خاندان،معاشرے بلکہ ملک کے لیے بھی فائدہ مند ،باعث فخر بن سکتا ہے۔
پوری دنیا میں 12 اگست کو نوجوانوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر نوجوانوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو غربت اور بے روزگاری کی دلدل میں پھنسنے سے بھی بچانا ہے ۔اس دن کو منانے کا مقصد نوجوانوں کے مسائل جاننا ،ان کے حل پر بحث کرناوغیرہ ہے ۔اقوام متحدہ نے 1998 میں پہلی بار عالمی یوم نوجوانان منانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد سے اسے ہر سال دنیا بھر میں بھرپور جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔
جی ہاں صرف منایا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی اس دن کو بڑے اہتمام سے ( بلکہ بے شرمی سے ) منایا جاتا ہے ۔اس دن کو منانے سے نہ ہی تو دنیا بھر کے نوجوانوں کے مسائل حل ہوئے اور پاکستان میں تو نوجوانوں کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔آج بھی نوجوانوں کی وہی حالت ہے جو 1998 میں تھی ہاں اس دن نوجوانوں کے لیے بوڑھے سیاست داں،رہنما،لیڈر ،وزرا وغیرہ تقریر یں ضرور کریں گے ،جن میں نوجوانوں کو ملک کا مستقبل ،قیمتی سرمایہ ،اور ملکی ترقی کا ضامن،قرار دیا جائے گا ۔اس کے علاوہ نوجوانوں کے دل بہلانے کو ان کے نام کے پروگرام کیے جائیں گے ،کالم لکھے جائیں گے ،اخبارات اسپیشل ایڈیشن شائع کریں گے لیکن پرنالا وہیں رہے گا جہاں اس دن کو منانے سے پہلے تھا۔
میری اس بات کا ثبوت یہ رپورٹ ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا نوجوان غربت کا شکار ہے اور ہر پانچواں روزگار سے محروم ہے ۔یہ تو دنیا میں نوجوانوں کی حالت ہے پاکستان میں ملکی اداروں کے مطابق ہر دسواں پاکستانی نوجوان بے روزگار ہے جبکہ عالمی اداروں کے مطابق ہر چھٹا پاکستانی نوجوان روزگار سے محروم ہے ۔لیکن حقیقت اس سے کہیں مایوس کن ہو گی کیونکہ جھوٹے اعدادو شمار دینا ہمارے ملک میں حکومت کا گر سمجھا جاتا ہے ۔اگر مردم شماری ہوتی ہے جو کہ 2016 کو ہونے جارہی ہے اور یہ کہ شفاف ،درست اعدادو شمار جمع کیے گئے تو شائد پاکستان میں ہر تیسرا نوجوان غربت کا اور چوتھا بے روزگار ہوگا ۔اور آبادی کا 60 فیصد سے بھی زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہو گا (بلکہ ہے ) اس لیے اگر ہمارے ملک کے دانشور،رہنما،سیاست داں نوجوانوں پر بھروسہ کریں تو یہ ملکی ترقی کی ضمانت ہے۔ نوجوانوں کی تعداد کا زیادہ ہونا پاکستان پر اللہ کی رحمت ہے ،اگر ان نوجوانوں کو روزگار دیا جائے ،ملکی ترقی میں ،پالیسی میں،ان سے کام لیا جائے ۔ نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لیے نوجوانوں پر مشتمل کونسلزتشکیل دی جائیں۔
ہمارے ہاں نوجوانوں کو سیاسی نعروں کی حد تک قوم کا مستقل قرار دیا جاتا ہے اس کی ایک مثال جب پاکستان تحریک انصاف کی ابتدا ہوئی تو عمران کہا کرتا تھا ابھی میرے ووٹر بچے ہیں ،دنیا نے دیکھا کہ وہ بچے جوان ہوئے ،تحریک انصاف دوسری بڑی پارٹی بن گئی ۔عمران سے اس وقت غلطیاں ہونا شروع ہوئیں انہیں نوجوانوں پر بھروسہ کرنا چاہیے تھا ، جو انھوں نے نہیں کیا اپنے اعلان کے باوجود 35 فیصد ٹکٹ نوجوانوں کو نہیں دیئے ۔جب دیگر سب پارٹیوں نے یہ دیکھا تو ملک میں ایک نظریاتی تبدیلی آئی دیگر سب جماعتوں نے نوجوانوں کو اہمیت دینی شروع کر دی ۔عمران خان اس وقت تک اپنی پالیسی ،نعرے سے دور ہو رہے ہیں ۔لیکن ان کی وجہ سے نوجوان بیدار ہوئے ہیں ۔ان کو اپنی اہمیت کا احساس ہو چکا ہے ۔عمران خان تبدیلی لانے نکلے تھے لیکن جس نظام کو تبدیل کر نا تھا اس میں شامل ہوئے، اور اس نظام نے اب عمران کو تبدیل کر دیا ہے پاکستان تحریک انصاف دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح کی ایک پارٹی بن چکی ہے ۔عمران کے بعد تو جو اب تحریک انصاف میں اور دیگر پارٹیوں میں فرق نظر آرہا ہے وہ بھی نہ رہے گا۔
پاکستان میں نوجوانوں کی کثیر تعداد جماعت اسلامی ،عوامی تحریک کے ساتھ بھی ہے لیکن یہاں بھی نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے استعمال کیا جا رہا ہے عوامی تحریک کچھ بھی نہیں ڈاکٹر طاہر القادری کے بغیر اور ڈاکٹر طاہر القادری زیادہ وقت ملک سے باہر گزارتے ہیں ،ایک طرف انقلاب لانا چاہتے ہیں دوسری طرف تصانیف کا ڈھیر لگا رہے ہیں ان کو ایک ہی کام کرنا چاہیے اگر وہ واقع انقلاب کے لیے مخلص ہیں ،( ہمارے ملک کو علم کی کم اور عمل کی زیادہ ضرورت ہے ) تو صرف ایک کام کرنا چاہیے ملک کی گلی گلی جانا چاہیے ،انقلاب کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے وہ ایسا نہیں کر رہے نوجوان ان سے بھی مایوس ہو جائیں گے ۔رہ گئی جماعت اسلامی تو اس کی گو مگوکی پالیسی ،کبھی اس سے اتحاد کبھی اس سے اتحاد ،اور حقیقت میں کسی سے بھی اتحاد نہیں ،ڈنگ ٹپائو پالیسی ،دوسروں کی طرف دیکھتے رہنا واضح منشور ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کرنا ،جن کے خلاف جہدو جہد کرنا ہو ان سے مطلب کے لیے اتحاد کر لینا یہ اور ان جیسی اور بہت سی وجوہات سے نوجوانوں کو جماعت مایوس کر رہی ہے ۔لیکن اب مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نوجوانوں کی اہمیت کا اندازہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے اپنی ترجیحات میں نوجوانوں کو شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔ آخر میں مجھے نوجوانوں سے کہنا ہے کہ وہ تسلی رکھیں ،دل چھوٹا نہ کریںبے شک کہ نوجوان اپنے ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں،ہمارے ہاں بھی نوجوانوں کو ملک کا قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جارہا ہے جو ہمارے ملک کے رہنماء اپنے قیمتی اثاثوں سے کر رہے ہیں یعنی ان کو بیرون ملک (محفوظ) رکھنا مثلاََ ان کی دولت ،اولاد، جائیدادیں بیرون ملک ہیں تو نوجوانوں کواس لیے ملک میں روزگار نہیں دیا جاتا (غیر ملکی زبان میں تعلیم بھی اس لیے دی جاتی ہے ) کہ وہ بھی بیرون ملک ہجرت کر جائیںوہاں محفوظ رہیں گے کیونکہ قیمتی اثاثے ہم بیرون ملک ہی رکھتے ہیں۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال