تحریر : ابو الہاشم ربانی
8 مارچ 1940ء کو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم نے کہا تھا کہ ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تھا ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی ۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے نہ کہ وطن اور نسل ۔ ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا ، وہ جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی ”۔ اسی طرح لکھنو میں مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں بانی پاکستان محمد علی جناح نے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دیتے ہوئے یہ بات باور کروائی کہ مسلمان اورہندو دو قومیں ہیں۔ 22مارچ1940کو لاہور منٹو پارک میں تین روزہ مسلم لیگ کے اجلاس کے دوسرے روز اسلامیان ہند سے قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے دو قومی نظریے کو بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ، اس دوران قائد محترم نے گاندھی اور نہرو کے ” ایک ملک ایک قوم” کے نظریے کے پرخچے اُڑا کر رکھ دئیے ۔ دو قومی نظریے کی تائید میں قائد نے ایک متعصب ہندو لیڈر لالہ لاجپت رائے کا خط پڑھ کر سنایا جو اُس نے 1924ء میں ایک بنگالی ہندو لیڈر سی آر داس کو لکھا تھا۔ اس خط میں لالہ لاجپت رائے نے لکھا تھا کہ ” ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں ۔ انہیں ایک دوسرے میں مدغم کر کے ایک قوم بنانا قطعاً ناممکن ہے ۔لاجپت رائے کے اس خط کے متن کو سن کر تمام لوگ حیران و ششدر ہوگئے ۔ اسٹیج پر بیٹھے رکن پنجاب اسمبلی برکت علی فوراً بولے کہ لالہ لاجپت رائے ایک قوم پرست ہندو ہے۔ جس کے جواب میں قائد اعظم نے کہا کہ ”ہندو نیشنلسٹ نہیں ہو سکتا ، ہندو اول تا آخر ہندو ہی ہوتا ہے ”۔
قرار داد پاکستان کے پیش ہونے کے بعد صرف سات سال کے عرصہ میں پاکستان ایک خواب سے حقیقت بن گیا۔ اتنے بڑے خواب کا شرمندہ تعبیر ہو جانا اورتصور کا حقیقت بن جانا بلاشبہ دنیا کی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے ۔ دو قومی نظریے کو سمجھنے کے لیے کسی افلاطونی ذہنیت یا آئین سٹائن کے دماغ کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ کوئی راکٹ سائنس ہے جس کے لیے نیوٹن کے قوانین کا سہارا لینا پڑے ۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ہندو اور مسلمان صدیوں ایک ساتھ رہنے کے باوجود مذہبی ، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ ہیں اور کبھی بھی ایک قوم نہیں بن سکے۔حالانکہ مسلمانوںنے یہاں کئی صدیوںحکمرانی کی۔ اپنے دورے حکمرانی میں مسلمانوں نے ہندوئوں کے ساتھ انتہائی مشفقانہ اور ہمدردانہ رویہ اپنائے رکھا۔مسلم حکمرانوں نے نہ صرف ہندو راجوں مہاراجوں کے ساتھ مصالحت کر کے ان کی ریاستوں کو قائم رکھا بلکہ ان کو عہدوں اور مراتب سے بھی نوازا۔
ہمیشہ مسلم حکمرانوں کے دربار میں ہندو حکام ، عمال اور مشیر رہے۔ دیگر اقلیتوں کو بھی ہر طرح کے حقوق اور مذہبی مکمل آزادی دی۔ ہندو راہنمائوں کا تعصب اور مسلمانوں سے نفرت ہمیشہ ان کا ہتھیار رہا۔ ہر وقت وہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں ملوث رہے۔ کوئی موقعہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ۔ ان وجوہات کی بنا پر آج بھی ہندد مسلم ایک ندی کے دوکناروں کی طرح ہیں جو ساتھ ساتھ ہونے کے باجود کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ ایک توحید پرست تودوسرا بت پرست جن کی تہذیب، ثقافت، لٹریچر، شادی بیاہ ، آرٹ، طرز تعمیر، عبادت گاہیں، قوانین، اخلاقیات غرض زندگی کا ہر پہلو ہر لحاظ سے الگ ہی وجود رکھتا ہے ۔ دوقومی نظریہ کوئی انوکھی شے نہیں ہے ۔ دو قومی نظریہ کے معترضین کہتے ہیںکہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر نہیں بنا تھا، یہ تو بعد میں ایوب خان کے دورے حکومت میں خاص مقاصد کے حصول کے لیے ایجاد کیا گیا تھا ۔ دوقومی نظریہ 1964ء میں معرض وجود میں لانے کی باتیں سراسر غلط اور پروپیگنڈہ کے سواء کچھ نہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دوقومی نظریے کی بنیاد اسلام کی تعلیمات پر مبنی ہے اور اسلام 1964ء میں نہیں بلکہ سوا چودہ سو سال قبل نازل ہونے والا ایک دین حنیف ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر ایک مکمل ضابطہ رکھتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے اپنی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بڑے فخر سے کہا تھا کہ ”ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے”۔ یہ ایک دیوانے کی بڑک سے زیادہ کچھ نہیں انڈیا کو وقتی طور پر کی گئی سازش میں کامیابی مل گئی۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُس نے دوقومی نظریے کو ختم کر دیا ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بنگالیوں نے الگ ملک بنگلہ دیش تو بنایا لیکن واپس ہندوستان میں شامل ہونا ہرگز قبول نہ کیا اور نہ ہی بھارتی تسلط کو مانا۔ اس سے بھی بڑھ کر اُنہوں نے دین اسلام اور اُس کی تعلیمات کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی بت پرستی کو اپنایا بلکہ دین اسلام آج بھی بنگالیوں کا سرکاری مذہب ہے جو کہ دوقومی نظریے کی اصل اساس ہے۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے آفاقی نظریہ کے تحت لاکھوں جانوںکے نذرانے پیش کر کے یہ ملک حاصل کیا مگر افسوس کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے قائد اور اقبال کے تصورات کے مطابق عمل نہیں کیا ، ملک مصائب و مشکلات میں مبتلا اور مسائل سے دوچار ہے۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی جاگیر ملک پاکستان کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں۔ ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے پاکستان کی نظریاتی اساس منہدم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے ملک کو سیکولر بنانے کیلئے کروڑوں ڈالر خرچ کئے جارہے ہیں۔ پاکستانی قوم کو فکری انتشار کا شکار کرنے اور اس کا اسلامی تشخص تبدیل کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ نوجوان نسل کے ذہنوں سے پاکستان کا مطلب کیا” لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ”کا نعرہ نکالنے اور تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کروا کے نوجوانوں کے اخلاق و کردار برباد کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔
نونہالوں کے ذہنوں سے اس نظریہ کو کھرچنے کے لیے بھی تانے بانے بنے جارہے ہیں۔ دشمنانِ اسلام و پاکستان کی پوری طرح یہ کوشش ہے کہ پاکستانی قوم کو فکری انتشارکا شکار اور ان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کر دیا جائے۔ہر طرف فتنہ و فساد پھیلایاجارہا ہے ۔ وطن عزیز پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدیں کمزور کرنے کے لیے بے پناہ وسائل خرچ کئے جارہے ہیں غرض دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ ہی جائے ۔ لیکن دو قومی نظریہ ایک ایسی مضبوط بنیاد ہے فراہم کر تا ہے جس پر مسلمان کل بھی متحد ہوئے تھے’ آج بھی اور آئندہ بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے ہیں۔بکھری ہوئی قوم کو ایک بار پھر اسی دوقومی نظریہ کی بنیاد پر یکجا کرکے ملک میں اتحاد ویکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی میں پاکستان کی بقا، تحفظ، استحکام ، سلامتی اور اس کے ازلی دشمنوں کا مقابلہ ممکن ہے۔ قوم میں ایک بار پھر سے وہی تحریک پاکستان والے جذبے ولولے پیدا کئے جائیں۔ جب پاکستان بنا تھا تو اسلامیان ہندکلمہ طیبہ کی بنیاد پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے انگریز و ہندو کے خلاف میدان میں کھڑے ہوئے ، ایک قوم ایک وحدت بنے تھے۔
مسلمانوں کوآپس میں لڑنے کی بجائے اتحاد و اتفاق سے رہنا اور دشمنوں کی تمام سازشوں کو ناکام کرنا چاہیے۔ نظریہ پاکستان پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے سے ہی پاکستان مضبوط ہوگا ۔ کیوں کہ مضبوط پاکستان ہی بھارت میں رہ جانے والے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ کشمیری مسلمان اگر پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں تو اسکے جواب میں پاکستان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ کشمیریوں کوبھارتی دہشت گرد فوج کے جاری مظالم سے آزاد کروائے۔کیوں کہ 14اگست 1947ء کو جب لاکھوں قربانیوں کے بعد لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی اساس پر اس وطن عزیز کا قیام عمل میں آیاتو پوری دنیا کے مسلمانوں کو اُمید بندھنا شروع ہو گئیں تھیں کہ اب ہماری پکار پر ہمیں بھی کوئی لبیک کہنے والا ہو گا۔ پاکستان عالم اسلام کی اُمیدوں کا مرکز و محور ہے ، پاکستان ایٹمی قوت اور بے مثل ایٹمی میزائل پروگرام رکھتا ہے۔پاکستان عالم اسلام کا عظیم اثاثہ ہے اس کا مضبوط و مربوط ہونا اُمت مسلمہ کے حقوق کی ضمانت ہے۔ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے۔ پاکستان زندہ باد ، اسلام پائندہ باد۔
تحریر : ابو الہاشم ربانی