تحریر : سید توقیر زیدی
وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں سرکاری حکام اور اعلیٰ عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردوں کو فنڈنگ روکنے کے لیے مزید موثر اقدامات کیے جائیں گے۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرا?مد کی نگرانی کے لیے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کی سربراہی میں ٹاسک فورس تشکیل دے دی۔
اعلیٰ سطحی اجلاس کے فیصلے حوصلہ افزا ہیں’ لیکن جو سب سے بڑا سوال اٹھتا ہے’ یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد کیسے کرایا جائے گا۔ ابھی پچھلے دنوں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں اس بات کا پتہ چلایا گیا کہ جنوری 2015ء میں سول اور فوجی قیادت کی باہمی مشاورت سے وضع کئے گئے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر اب تک پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا جا سکا اور اس منصوبے کی کئی شقیں ایسی ہیں جن کو عملی شکل دینا ابھی باقی ہے۔ پیر کے روز ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے’ وہ دراصل نیشنل ایکشن پلان پر مکمل طور پر عمل درآمد یقینی بنانے کے سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ یاد رہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنانے کا فیصلہ گزشتہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر محمود جنجوعہ سدرن کمان کے سربراہ رہ چکے ہیں اور اس حیثیت میں بلوچستان میں امن کی بحالی اور سینکڑوں عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کے سلسلے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں؛ چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ نیشنل ایکشن پروگرام پر عمل درآمد کے سلسلے میں بھی الوالعزمی کا مظاہرہ کریں اور اس طرح وہ تمام مقاصد حاصل ہو سکیں گے’ جس کو مدنظر رکھ کر مشترکہ اور متفقہ طور پر یہ منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا؛ تاہم یہ بات ناقابل فہم ہے کہ نیکٹا اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار دوسرے ادارے وزارت داخلہ کے تحت ہیں لیکن نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے قائم کی گئی ٹاسک فورس کی نگرانی ناصر جنجوعہ صاحب کریں گے۔
ایک وزیر کی موجودگی میں اختیارات ایک مشیر کو دینا قابل عمل ہو گا؟ ممکن ہے اس سے یہ تاثر دینا مقصود ہو کہ ہم نے سب کچھ فوج کے حوالے کر دیا ہے’ اب یہ ریٹائرڈ فوجی افسر جانے اور اس کا کام جانے۔ اختیارات اور ذمہ داریاں جب الگ الگ خانوں میں بٹے ہوں گے تو کس طرح اس کے ٹھوس نتائج برآمد ہوں گے؟ یہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے بالا ٹاسک فورس کو چلانے کا منصوبہ ہے یا عوام کو یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ ہم نے سب کچھ فوج کے حوالے کر دیا’ اب دہشت گردی کا خاتمہ اس کی ذمہ داری ہے’ وجہ جو بھی ہے لیکن اس طرح مسائل پیدا ہو سکتے۔ پہلے ہی ڈیڑھ پونے دو سال تجربات میں گزر گئے’ لہٰذا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ معاملات وہیں کے وہیں رہیں اور دہشت گرد جب بھی موقع ملے اپنے وجود کا احساس دلاتے رہیں۔
اس زمینی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پہلے کی نسبت بڑھ گئی ہے’ کیونکہ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی جا چکی؛ اگرچہ ان کی دہشت گردی کی استعداد ماضی کی نسبت کم ہو چکی ہے’ پھر بھی وہ اس انتظار میں ہیں کہ آپریشن کا زور کم ہو اور انہیں باہر نکل کر امن و چین تباہ کرنے کا ایک بار پھر موقع مل جائے۔ کوئٹہ’ لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں میں وقتاً فوقتاً دہشت گردی کی جو وارداتیں ہوتی رہتی ہیں وہ دہشت گردی اور انتہا پسندوں کی اس حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
دوسری جانب یہ حقیقت بھی واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ بھارت بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں پوری طرح ملوث ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر روایتی الزام تراشی کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف خوب زہر اگلا جبکہ اپوزیشن جماعت کانگریس نے بلوچستان کے حوالے سے اپنے وزیر اعظم کے بیان پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ دوسری جگہ ٹانگ نہ اڑائیں۔ یاد رہے کہ بھارت کے یومِ آزادی پر لال قلعہ میں مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے ہرزہ سرائی کی کہ ‘پاکستان کے صوبہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگوں نے اپنے حق میں آواز اٹھانے پر میرا اور پوری ہندوستانی قوم کا شکریہ ادا کیا، میں بھی ان کا مشکور ہوں، بھارت کے لئے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ یہ لوگ ہم سے مدد طلب کر رہے ہیں۔
اگرچہ بھارتی کانگریس نے بھارتی وزیر اعظم کی اس حکمت عملی پر تنقید کی ہے لیکن اس سے بھارتی حکومت کی پالیسی میں تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی؛ چنانچہ اس ساری صورت حال کا بھی تقاضا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور اس کی رفتار بڑھائی جائے’ تاکہ ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔
بہرحال امید کی جاتی ہے کہ حکومت ٹاسک فورس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں معاونت کرے گی اور اس طرح وہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں گے’ جن کو مدنظر رکھ کہ یہ تشکیل دی گئی ہے۔ اجلاس میں ملکی سرحدوں کا انتظام بہتر بنانے کے لیے سول آرمڈ فورسز کے 29 نئے ونگز بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس کا مقصد دہشت گردوں کی نقل و حمل روکنا ہے۔ یہ اقدام یقیناً نتیجہ خیز ثابت ہو گا کیونکہ فوج کے پاس پہلے ہی اس حوالے سے ایک سیکرٹریٹ موجود ہے اور وہ ساری ٹاسک فورس کی رہنمائی بھی کر سکتا ہے اور ان کے معاملات میں کوآرڈی نیشن کرنے کی صلاحیت کا بھی حامل ہے۔