مقام اطمینان ہے کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر اب ازسرنو اس کی روح کے مطابق پوری سنجیدگی سے عملدآمد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس مقصد کیلئے ایک مانیٹرنگ کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جو پروگرام پر عملدرآمد پر نظر رکھے گی۔ ان اقدامات سے محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے ناسور سے نبردآزما ہونے کیلئے فوج و حکومت ایک صفحہ پر ہیں۔ آج ملک جن مخصوص حالات سے گزر رہا ہے اور فوج نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کا جو قدم اٹھایا گیاہے اس سے واضح کامیابیاں ملی ہیں لیکن اس ضمن میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے اور قومی سطح پر اس آپریشن کی سپورٹ کیلئے ملک کو اندرونی سازشوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے ساتھ ہی نیشنل ایکشن پروگرام جو کہ تمام قومی سیاسی و مذہبی جماعتوں و مختلف مکاتب فکر کے نمائندوں کی تائید و حمایت کے ساتھ ترتیب دیا گیا تھا اس پر حکومت عملدرآمد کرائے، یہ ایسا قومی سطح کا پروگرام تھا جس کے ہر نکات پر قومی و سیاسی قیادت متفق تھی جس کے باعث یہ ایک قومی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج ملک جن حالات و خطرات کا شکار اور حالت جنگ کی کیفیت میں آچکا ہےان حالات میں نیشنل ایکشن پروگرام فی الحقیقت قرارداد مقاصد اور متفقہ نکات جیسی قومی دستاویزات سے کم حیثیت کا حامل نہیں۔ اس کی اہمیت و افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئےہم آج بھی اس پر عملدرآمد کے ذریعے دہشت گردی، فرقہ واریت، ٹارگٹ کلنگ و کرپشن سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے پوری قوم کو ایک نئے جذبہ ولولہ کیساتھ اس پر عملدرآمد کیلئے فوج و حکومت کا ساتھ دینا چاہئے۔ بدقسمتی سے ملک کیلئے ہر قہم تجویز و لائحہ عمل حکومتوں کے سیاسی مفاد و مصلحتوں کا شکار رہا ہے۔ یہ پروگرام بھی ایسے ہی سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوا۔ اس میں دہشت گردی کے خاتمہ،قیام امن، فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے اہم اور قابل عمل تجاویز ہیں جس میں فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے فرقہ وارانہ لٹریچر، کتب، تقاریر اور لائوڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر پابندی کی تجویز تھی لیکن حکومتی سطح پر اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا۔ دینی مدارس کو ایک ترتیب، قواعد و ضوابط کی شکل دیکر قومی سطح پر لانے کی تجویز بھی اہم تھی لیکن رجسٹریشن وغیرہ کے عمل میں بھی پیچیدگیاں پیدا کی گئیں اور ابھی تک یہ مکمل نہیں ہے جبکہ سوشل میڈیا پر انتہا پسندانہ مواد کو روکنے کیلئے بھی کوئی موثر اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ حال ہی میں سائبر کرائم بل منظور ہوا ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ اسکے ذریعے کوئی موثر پیش رفت ہوسکے گی۔ نیشنل ایکشن پروگرام کی ان اہم قومی نکات پر عملدرآمد کے ساتھ ہی حکومت کا آئینی فرض ہے کہ وہ آئین کے مطابق ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کیلئے ملک کے قیام کی اولین دستاویز قرارداد مقاصد اور آئین 1973 کی اسلامی دفعات کو قابل عمل بنائے کیونکہ یہ واضح ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ، قیام امن صرف اسلام کے عدل اجتماعی پر مبنی قوانین کے نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ اگر ہم یہاں انصاف و عدل کو بلاتعصب ہر امیر غریب شہری کیلئے باآسانی مفت فراہم کردیں اور اسکے بحیثیت شہری حقوق کی ضمانت دیں تو یہ ملک ایک اسلامی فلاحی مملکت میں تبدیل ہوسکتا ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ قیام امن، قومی یکجہتی اور اندرونی و بیرونی سازشوںسےمحفوظ رہ سکتا ہے۔
بشکریہ جنگ