امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، آسٹریا، فرانس، ناروے، کینیڈا، آئرلینڈ، ڈنمارک، اسپین، پرتگال اور اٹلی سمیت 44 ممالک میں ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ کا قانون نافذ ہوا جس پر عملدرآمد کر کے بہت سے ممالک نے بہتر نتائج حاصل کیے ہیں‘ پاکستان میں بھی اس نوع کا منصوبہ (نیشنل ایکشن پلان) 16 دسمبر 2014ء کو اے پی ایس کے افسوناک سانحہ کے بعد پیش کیا گیا جسکے تقریباً3 ماہ بعد اس کی رپورٹ عام کی گئی تو میڈیا نے اس پر کافی لے دے کی اور نیشنل ایکشن پلان کی مجموعی کارکردگی پر بیشمار سوالات اٹھائے‘ ازاں بعد حکومتی و عسکری ذمے داران کی نگرانی میں گاہے بہ گاہے کئی ایک اجلاس بھی منعقد ہوئے جن میں قومی سلامتی کے مسائل زیرغور آتے رہے اور نیشنل ایکشن پلان کے مختلف مراحل کا جائزہ بھی لیا جاتا رہا جب کہ صوبائی سطح پر فوج اور سویلین حکام کے تعاون میں درپیش مشکلات کا معاملہ بھی سابقہ اجلاسوں میں اٹھایا گیا۔
ان مسائل کے مستقل بنیادوں پر حل میں حائل رکاوٹوں پر تشویش کا اظہار بھی ہوا اور ملک میںرہ رہ کر اٹھنے والی فرقہ واریت کی لہر پر تفصیلی بات چیت بھی کی گئی تاہم پیش آمدہ مسائل کی بارہا نشاندہی کے باوصف حکومت ہمیشہ ہی ان پر قابو پانے کی کوششوں کو نظرانداز کرتی آئی ہے‘ اگرچہ حکمران کہتے رہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے صرف 8 سست روی کا شکار ہوئے جب کہ 12 نکات پر بھرپور کام ہوا لیکن یہ بات حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ جس کام کے لیے اربوں روپے کے فنڈزکی ضرورت تھی وہاں چند کروڑ دیے گئے‘ چوہدری نثار تو یہاں تک کہہ گئے کہ 20 میں سے 15 نکات پر عملدرآمد ہوا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کو عملی جامہ پہنایا گیا ہوتا تو اس کے بعد گلشن پارک لاہور کا سانحہ رونما نہ ہوتا‘ اس سانحہ کے بعد تو نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جانی چاہیے تھی مگر اس کے بعد بھی ملک میں دہشتگردی کا تسلسل برقرار رہا اور پھر نوبت 8 اگست کے سانحہ کوئٹہ تک آ پہنچی جسکے بعد سول اور عسکری قیادتیں پھر یہ دعوے کرتی نظر آئیں کہ نیشنل ایکشن پلان کو عملی جامہ پہنا کر دہشتگردوں کا ہرصورت خاتمہ یقینی بنایا جائیگا۔ اس سے تویہی مراد ہے کہ سفاک دہشتگردوں کی جانب سے ریاستی اتھارٹی کے علاوہ سرکاری اداروں کی فعالیت چیلنج کرنے کے باوجود سیاسی قیادت محض زبانی جمع خرچ سے ہی کام لیتی رہی ہے۔
دہشتگردی کے خلاف ہماری جنگ بالکل اسی طرح ہے جیسے سگریٹ کی ڈبی پر وزارتِ صحت ایک وارننگ لکھ کر بری الذمہ ہو جاتی ہے اور سگریٹ فیکٹریاں اپنا کام کھلے عام جاری رکھتی ہیں، میڈیا ان کی اشتہاری مہم چلا کر پیسے بناتا ہے اور لوگ سگریٹ پی پی کر حرام کی موت مرتے ہیں، کچھ ایسا ہی ہمارا نیشنل ایکشن پلان بھی ہے‘ ہم نے جتنی تنظیموں کو کالعدم کیا وہ سب فعال ہیں‘ جو ادارے دہشتگرد پیدا کر رہے ہیں اور انتہاپسندی کی سوچ کو فروغ دے رہے ہیں انھیں سرکاری خزانے سے نوازا جا رہا ہے‘ دُنیا جن دہشتگردوں پر گرفت کے مطالبے کر رہی ہے وہ ہماری سلامتی کی میٹنگز میں بیٹھ کر ہم سے مشاورت کر رہے ہیں‘ ہم نے کیا کیا؟ دہشتگردوں کو کالعدم کر دیا، ان کا نام مختلف فہرستوں میں ڈال دیا، اتنا کیا کافی ہے؟
عوام کو انتہاپسندی کے سیلاب سے بچانے کے لیے روشن خیال سیاست بے دست و پا ہو چکی ہے‘ میڈیا پر انتہاپسندی کے چاہنے والے اَن گنت شکلوں میں ایک ایسے تاریک دن کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں جس سے رات کی تاریکی بھی شرما جائے! لگتا یہی ہے کہ ہمارے قو می سلامتی کے مشیر، معاونین اور اسکرپٹ رائٹر سب دشمن کی ڈیوٹی پر ہیں‘ جنرل راحیل کے دور میں کورکمانڈرز کانفرنسوں میں ہمیشہ ہی نیشنل ایکشن پلان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا‘ بدقسمتی سے ضربِ عضب اور حساس معلومات پر ہونیوالے آپریشنز نیشنل ایکشن پلان کے دیگر 20 نکاتی نتائج فراہم کرنے میںکل بھی ناکام تھے اور آج بھی ناکام ہیں! شاید یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی اور غیرسنجیدگی کو دیکھتے ہوئے سابق آرمی چیف نے کھلے بندوں اصل حقائق عوام کے سامنے رکھے اور نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی کا اصل ذمے دار حکومت کو قرار دیا۔
نیشنل ایکشن پلان کو ملکی سلامتی کا واحد ذریعہ سمجھ کر معاشرے کے تمام مکاتب ِفکر نے اسے باہمی طور پر سپورٹ کیا تھا، جسکے مطابق عدالتی سزاؤں پر عملدرآمد کیے جانے کی نوید تھی مگر اس شق پر عملدرآمد عدلیہ کے امتناعی حکم کے بعد روک دیاگیا۔ فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لاکر دہشتگردی کے مقدمات کا بوجھ عدلیہ سے کم کیا جانا مقصود تھا مگر اس شق میں یہ پخ لگائی گئی کہ فوجی عدالتیں خود ایکشن نہیں لے سکیں گی بلکہ سول حکومت انکو مقدمات فارورڈ کریگی۔
فوجی عدالتوں کی مدت صرف دو سال رکھی گئی، نتیجہ یہ ہوا کہ گیارہ ہزار کیسوں میں سے صرف چند ایک ہی آرمی کورٹس کے حوالے کیے گئے جنکے فیصلے فوری طور پر انھوں نے سنا دیے، تب فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ نے ایکشن لے کر ان پر عملدرآمد رکوا دیا‘ ان سزاؤں کو وکلاء بار کی صدر عاصمہ جہانگیر نے انسانیت کے خلاف قرار دیا، پھر یہ ہوا کہ ان عدالتوں کی مدت ختم ہو گئی اور حکومت نے انکو دوبارہ فعال کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنادی جو باقی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی بات کر کے گرد اوڑھے خوابِ خرگوش میں چلی گئی۔
فوجی عدالتوں کے قیام کا ہدف بہترین انداز میں حاصل نہ ہو سکا حالانکہ ان عدالتوں کے قیام کے لیے نہ صرف آئین میں ترمیم کی گئی بلکہ اس کے تحت ذیلی قوانین بھی بنائے گئے‘ ان عدالتوں نے معدودے چند مجرمان کو پھانسی کی سزائیں بھی سنا ئیں جن کے خلاف اپیل دائر کرنے کے اختیار کی وجہ سے دہشتگرد بری ہو کر پہلے کی نسبت زیادہ شدت سے اپنے کاروبار میں مصروفِ عمل ہو گئے۔
پلان میں ملک سے مسلح ملیشیاز کا خاتمہ کرنے کی شق بھی تھی‘ یہ کام پاک فوج کرتی رہی اور اس نے یہ کر بھی دکھایا اور خیبرپختونخوا کی قبائلی پٹی، بلوچستان اور کراچی سے دہشتگردوں کے مراکز اور لشکروں کا خاتمہ کر دیا مگر ملک میں مسلح جتھوں کو کام کرنے کی اجازت نہ دینے کا ہدف حاصل نہ ہو سکا اور سرکار کی ناک کے نیچے مسلح گروہ مختلف ناموں سے آج بھی کام کر رہے ہیں، اب بھی جلسے منعقد کرتے ہیں، ریلیاں نکالتے ہیں، بیان بازی کرتے ہیں اور پہلے کی طرح دندناتے پھر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود سرکاری رپورٹ میں ایسے کسی بھی مسلح گروہ کا ذکر نہیں جو پہلے تو سرگرمِ عمل تھا مگر نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں اسے ختم کر دیا گیا ہو‘ جس جھنگ سے علامہ طاہرالقادری آقائے دوعالمﷺ کی جانب سے جیت کی بشارت ملنے والی پرچیاں پھینکوانے کے باوجود ہار گئے تھے، اسی جھنگ سے حق نواز جھنگوی کے بیٹے کا بڑی لیڈ کے ساتھ جیت جانا نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی کا کھلا اعلان ہے۔
نیکٹا کا قیام موثر طریقے سے عمل میں لانے کی شق بھی پلان کا حصہ تھی مگر دہشتگردی کی روک تھام کے لیے بنائے جانے والے اس ادارے کے لیے اسحاق ڈار پچھلے اڑھائی سالوں سے فنڈز نہیں دے رہے تھے کیونکہ حکومت کے پاس 21 ارب روپے نہیں تھے جب کہ اسی اثناء میں اورینج ٹرین کے لیے 160 ارب، میٹرو کے لیے 70 ارب اور کسان پیکیج کے لیے 300 ارب فوری طور پر فراہم کر دیے گئے‘ حال تو یہ ہے کہ نیکٹا کے پاس اپنی بلڈنگ تک نہیں ہے، اس کے بورڈ آف گورنرز کا پہلا اجلاس ہی طلب نہیں کیا جا سکا کیونکہ اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم نے کرنی ہے جو ابھی تک اس میٹنگ کے لیے وقت نہیں نکال سکے۔
نیکٹا کو فعال اور مؤثر بنانے کے ضمن میں سرکار کی رپورٹ مطلقاً خاموش ہے‘ ہم 15 سال سے دہشتگردی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور متعلقہ ادارہ ماسوائے ایک ناکارہ سی ویب سائٹ بنانے کے، اور کچھ نہیں کر سکا اور اب تو اس ویب سائٹ پر بھی انڈر کنسٹرکشن کا لیبل لگا دیا گیا ہے۔ پلان کے مطابق انتہاپسندانہ مواد اور تقاریر کا خاتمہ کیا جانا مقصود تھا مگر اس پرکوئی عملدرآمد نہیں کروایا گیا، گو کہ وزیرداخلہ نے اعلانات بھی کیے مگر نفرت انگیز تقاریرکا سلسلہ ہے کہ ابھی تک نہیں رک سکا، وجہ یہ کہ اہم ترین سیاسی علماء حکومت کے اتحادی ہیں جنکے اثرورسوخ کے سبب سے ناپختہ ذہن انتہاپسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں‘ نفرت پر مبنی تقاریر اور مواد شائع کرنیوالوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں نفرت انگیز مواد پھیلانے کے الزام میں بہت کم مقدمات درج کیے گئے جب کہ لاؤڈ اسپیکر کی خلاف ورزی پر بے وجہ مقدمات بنائے گئے اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ پلان تو یہ تھا کہ دہشتگردوں کی فنڈنگ کو روکا جائے گا‘ اس کے لیے پاک فوج نے کراچی میں زبردست آپریشن کیا جسکے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے اہم لوگ بھی دہشتگردوں کی فنڈنگ کرنیوالوں کے طور پر سامنے آئے اور اسی کی سندھ میں حکومت بھی ہے‘ ایم کیوایم میں بھی مبینہ طور پر دہشتگرد بے نقاب ہوئے‘ پیپلز پارٹی نواز حکومت کی غیراعلانیہ اتحادی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کا معاملہ لٹکا دیا گیا‘ آصف زرداری، ٹپی اور شرجیل میمن وغیرہ پاکستان سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے، ایسے میں وہ فنڈنگ کیسے روکیں؟
دہشتگرد تنظیموں کی فنڈنگ کے ذرایع مکمل طور پر بند نہیں کیے گئے‘ اسٹیٹ بینک نے اس ہدف کے تحت دس ارب روپوں کے اثاثے منجمد کیے اور ایف آئی اے نے غیرقانونی رقم منتقلی کے100 کے قریب مقدمات بھی درج کیے‘ اتنے ہی افراد بھی گرفتار کیے اور کروڑوں روپے وصول کیے مگر اسے کسی بھی لحاظ سے تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایک تو یہ رپورٹ حکومت کی جاری کی ہوئی ہے جومصدقہ نہیں، دوسرا یہ کہ پاکستانی بینکوں میں کالعدم تنظیموں کے اب بھی کھربوں روپے پڑے ہیں۔
پلان کے مطابق کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے فعال ہونے سے روکنا درکار تھا مگر اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہو رہا بلکہ کچھ کالعدم تنظیمیں پنجاب کے ایک طاقتور وزیر کے ذریعے حکومت کی اتحادی بنی ہوئی ہیں‘ کالعدم تنظیموں کو کسی اور نام سے کام کرنے کی اجازت نہ دینے کا بھی عہد تھا مگر اس پربھی کارکردگی صفر ہے‘ فوجداری عدالتی نظام میں اصلاحات کی غرض سے آئین میں ترمیم کے بعد ضروری قوانین تک نافذ نہیں کیے جا سکے اور اس بابت کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی‘ آئی ڈی پیز کی بحالی کے حوالے سے ترقیاتی اور انتظامی اصلاحات کا عمل اس لیے اطمینان بخش ہے کیونکہ یہ کام فوج نے ذاتی دلچسپی سے کیا ہے‘ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشتگردوں کا پروپیگنڈہ بند کرنے کے لیے سائبرکرائم بل ڈیڑھ سال بعد پارلیمان سے منظور ہوا اور تشویش کی بات یہ ہے کہ مجوزہ بل میں ناقابلِ بیان حد تک قانونی سقم موجود ہیں۔
پلان کے مطابق انسدادِ دہشتگردی کے لیے خصوصی فورس قائم کی جانی تھی مگروفاقی حکومت تاحال اس پر پوری تندہی سے کام نہیں کر پائی‘ خصوصی فورس برائے انسدادِ دہشتگردی بنانے کے حوالے سے بہت حد تک پنجاب اور بلوچستان میں ہدف حاصل کر لیا گیا جب کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں اس پرکوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ پلان تو یہ تھاکہ مذہبی بنیادوں پر استحصال اور امتیاز کے عمل کو روکا جائے گا مگر اس پر بھی کوئی عمل نہیں ہو پایا‘ حتیٰ کہ میڈیا پر بھی فرقہ واریت پر مبنی مباحثے پیش کیے جا رہے ہیں اور وفاقی حکومت کے ساتھ پیمرا بھی اس پرخاموش ہے۔
پلان تویہ تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کو یقینی بنایا جائے گا مگر اس پر عملدرآمد تو دُور کی بات، حکومت توابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ یہ کام مذہبی وزارت نے کرنا ہے، تعلیم کی وزارت نے، یا وزارتِ داخلہ نے، جب کہ مدارس کے سب سے بڑے نیٹ ورکس چلانے والے فضل الرحمن جیسے لوگ حکومت کے اہم ترین اتحادی ہیں جو راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد نیشنل ایکشن پلان کو آئینی غلطی قرار دے رہے ہیں‘ مدرسوں کا ضابطہ کار طے کر کے ان میں اصلاحات کے ضمن میں بھی سرکار کی رپورٹ خاموش ہے اور اس بارے میں کوئی خاطرخواہ اقدام نہیں کیا گیا‘ اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے سرے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے چنانچہ نیپ کی توضیع کے محض 3 ماہ کے دوران ہی امام بارگاہوں اور لاہور میں گرجا گھروں پر حملے ہوئے۔
پلان تو یہ تھا کہ میڈیا وغیرہ سے دہشتگردوں کو پرکشش بنانے کے عمل کا سدِباب کیا جائے گا لہٰذا میڈیا میں تو پاک فوج کے خوف سے یہ عمل کم ہو گیا لیکن جب بات دہشتگردوں کے سہولت کاروں کی آتی ہے تو آج بھی نہ صرف میڈیا بھرپور انداز میں ان کا موقف پیش کرتا ہے بلکہ میڈیا پر آ کر وہ دھڑلّے سے رینجرز اور پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیںاور حکومت اس پر کوئی ایکشن نہیں لیتی‘ اسی طرح سوشل میڈیا پر یہ کام بدستور جاری ہے‘میڈیا میں دہشتگردوں کے بیانئے کو جگہ نہ دینے کا ہدف کسی حد تک حاصل ہوا ہے، گوکہ اس میں میڈیا نے خود ذمے داری دکھائی ہے۔
پلان تو یہ تھا کہ فاٹا میں ریفارمز متعارف کروائی جائیں گی مگریہ ایک سہانا خواب ثابت ہوا جس پر جمہوری حکومت کی جانب سے صفر کام کیا گیا بلکہ دہشتگردی سے متاثرہ وزیرستان کے لوگوں کے لیے فنڈز تک منظور نہ کیے جا سکے، ان لاکھوں متاثرین کی دیکھ بھال اور وزیرستان میں ممکنہ حد تک انفرسٹرکچر کی تعمیر پاک فوج محض اپنے بل بوتے پر کررہی ہے۔
پلان تو یہ تھا کہ دہشتگردوں کے کمیونیکیشن نیٹ ورکس کو توڑا جائے گا، سو پاک فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس پر کام کرتے ہوئے حیرت انگیز طور پر کامیابی حاصل کی اور نہ صرف پورے پورے نیٹ ورکس پکڑے گئے بلکہ تاریخی کامیابی حاصل کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کی صورت میں دہشتگردوں کے نیٹ ورک چلانے والے بھی پکڑے گئے۔
حکومت سے توقع کی جا رہی تھی کہ اب وہ یہ معاملہ بھرپور انداز میں انڈیا اور ایران کے سامنے اٹھائے گی اور اقوامِ عالم کے سامنے بھارت کاگھناؤنا چہرہ بے نقاب کریگی مگر وزیراعظم کی زبان سے کلبھوشن کا نام تک نہ نکلا بلکہ کچھ عرصہ قبل لندن پہنچنے پر ایک صحافی نے بار بار ان سے بھارتی جاسوس کے حوالے سے سوال کیا جسے انھوں نے بڑی مہارت کے ساتھ نظرانداز کر دیا۔ پلان تو یہ تھا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکا جائے گا مگراس پرآج بھی کھل کر دہشتگرد اپنے نظریات کا پرچار کر رہے ہیں حالانکہ حکومت پر تنقید کے خلاف سائبر کرام بل دنوں میں منظور کر لیا گیا۔
پلان تو یہ تھا کہ پنجاب کے اندر سے عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا‘ پنجاب میں پاک فوج اور رینجرز کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کبھی آپریشن کرنے کی اجازت ہی نہیں دی، اس حقیقت کے باوجودکہ زیادہ تر دہشتگردوں کی ذہنی پرورش جنوبی پنجاب میں کی جاتی ہے اور وہیں سے سب سے زیادہ بھرتیاں بھی ہوتی ہیں، جب کہ سندھ سے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے انھیں فنڈز آتے ہیں‘ تمام صوبوں سے دہشتگرد بھاگ کر جنوبی پنجاب میں پناہ لیتے ہیں جو دہشتگردوں کے لیے جنت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے تاہم وہاں رینجرز کوخواہش کے باوجود آپریشن نہیں کرنے دیا گیا۔
پلان تھا کہ کراچی میں بلاامتیاز آپریشن جاری رکھا جائے گا، تواس پر رینجرز اور پاک فوج نے پوری تندہی سے عمل کیا اور اسکے تحت جتنی بھی گرفتاریاں ہوئیں،سب کی پشت پر سیاسی و جمہوری جماعتیں برآمد ہوئیں جنھوں نے اس آپریشن کو ہی متنازعہ بنا دیا‘ ڈاکٹر عاصم اور عذیر بلوچ کا معاملہ لٹکا دیا گیا‘ نائن زیرو پر چھاپے میں دو درجن مشکوک افراد پکڑے گئے تھے، ان کا ابھی تک کچھ نہیں ہو سکا، بہت سوں کی قبل ازگرفتاری ضمانتیں منظور کر لیں گئیں‘ عدالت میں گرنیڈ پھٹ جاتے ہیں لیکن پھر بھی کچھ ’’ثابت‘‘ نہیں ہو رہا‘ اس بابت حکومت نے پاک فوج کی مدد کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا جس کا دوسال بعد بھی کوئی اَتا پتہ نہیں ہے۔
پلان تھا کہ کراچی میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا، تواس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ شائد بدترین ناقد بھی مانیں کہ سندھ رینجرز کی کارکردگی قابلِ تعریف ہے اور انھوں نے نیشنل ایکشن پلان کو کراچی میں لاگو کرکے دکھا دیا۔ پلان تھا کہ بلوچستان میں مفاہمت کا عمل یقینی بنایا جائے گا، تو اس پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ نے بہت کام کیا‘ بیشمار بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لایا گیا لیکن جہاں تک ان بلوچوں کی محرومیاں دُور کرنے کی بات ہے تو حالت یہ ہے کہ صرف صوبائی سیکریٹریوں کے گھروں سے کروڑوں روپے برآمد ہوئے‘ بلوچوں کے حقوق جمہوریت کھا گئی‘ اگر یہی حالت رہی تو ہم ان کو دوبارہ واپس دہشتگردی کی طرف جانے سے کتنا عرصہ تک روک پائینگے؟
پلان تو یہ تھا کہ فرقہ وارانہ تنظیموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا مگر افسوس کہ اس پر بھی کسی پیشرفت کے بارے میں کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملی‘ اس شق پر ابھی تک کارکردگی صفر اس لیے ہے کہ فرقہ پرستی پر بنی کچھ جماعتوں کے سیاسی ونگ بھی ہیں جو حکومت کے کافی قریب ہیں۔ پلان تو یہ تھا کہ افغان مہاجرین کے مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے گا‘ اس معاملے میں صرف پاک فوج اور کے پی کے میں قائم پی ٹی آئی کی حکومت نے ہی تھوڑا بہت کام کیا ہے اور افغان مہاجرین کی باعزت اور جلد واپسی کامعاملہ اٹھایا ہے جب کہ وفاقی حکومت کے تینوں اہم ترین اتحادی مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی اور اسفند یار والی افغان مہاجرین کی واپسی کی سخت مخالفت کر رہے ہیں بلکہ محمود اچکزئی تو خیبرپختونخوا کو افغانستان کا حصہ قرار دے چکے ہیں لیکن کسی نے ان سے سوال تک نہیں کیا۔
پلان کے مطابق افغان مہاجرین کے اندراج کی جامع پالیسی وضع کی جانا تھی مگر اس صورتحال میں ہماری وفاقی وصوبائی حکومتیں اور پولیس بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ پلان تو یہ تھا کہ عدلیہ یا جسٹس سسٹم کی تشکیلِ نو کی جائے گی مگر اس پر کوئی کام نہیں ہوا کیونکہ عدلیہ ہی پاکستان میں تمام مسائل کی جڑ ہے‘ صرف عدالتیں ٹھیک ہو جائیں تو ہر قسم کی کرپشن، بدانتظامی اور جرائم کا تدارک کیا جا سکتا ہے لیکن ہنوز اس معاملے میں حکومت کی طرف سے پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔
ذرا تصور تو کیجیے کہ نیشنل ایکشن پلان کے صرف ان ہی حصوں پر کام ہو سکا ہے جو پاک فوج نے کرنے تھے‘ جمہوری حکومت کے حصے کا کام اڑھائی سال بعد بھی صفر کا صفر ہے‘ منتخب جمہوری حکومت نے ابھی تک کمیٹیاں بنانے، اجلاس کرنے، بیان بازی اور بھاری بھرکم تنخواہوں پر نئے نئے وزیر اور مشیر بھرتی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ پاکستان میں دہشتگردی ایک نہایت پیچیدہ معاملہ ہے جس میں دُنیا بھر کی بڑی بڑی طاقتیں ملوث ہیں اور ان کی مدد پاکستان کے اندر سے کئی مذہبی اور سیاسی گروہ کر رہے ہیں‘ اس جنگ کے بیشمار پہلو ہیں، اس لیے اس سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کے مشورے سے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا تا کہ سارے پہلوؤں کا احاطہ ہو سکے۔
پاک فوج کے ذمہ اس پلان کا سب سے مشکل حصہ تھا جو اس نے پورے جوش و جذبے سے اور اپنے ہزاروں جوانوں کی قربانی دیکر بخوبی پورا کیا‘ اسی کا نتیجہ ہے جو ہم ملک میں کسی حد تک امن و امان دیکھ رہے ہیں‘ پاک فوج کے راستے میں بھی طرح طرح کی رکاوٹیں حائل کی گئیں جن کا مشاہدہ ہم ماضی میں کرتے رہے ہیں۔
صداقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوری قوتیں نیشنل ایکشن پلان کو مکمل طور پرناکام بنانے پر کمربستہ ہیں‘ اگر صورتحال یہی رہی تو 6 لاکھ تو کیا 60 لاکھ کی فوج بھی دہشتگردی کے عفریت کو قابو نہیں کر پائیگی‘ وزیراعظم کی بھارت سے نرم پالیسی کی وجہ سے حکومت اور عسکری اداروں کا خارجہ پالیسی کے بارے میں وژن پر ماضی میں اتنا بڑا اختلاف رہ چکا ہے کہ پاکستان کے قیام سے آج تک اتنا بڑاختلاف یا تضاد پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔
نیشنل ایکشن پلان پر سست روی کے حوالے سے تشویش یہ واضح کرتی ہے کہ صوبائی حکومتوں نے بھی اپنے حصے کا کردار احسن طریق سے انجام نہیں دیا۔ ضربِ عضب صد فیصد منطقی انجام تک نہ پہنچا تویہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ اس کا ردِعمل کتنا بھیانک ہو گا‘یہ آتش فشاں دوبارہ پھٹ پڑا تو پہلے سے زیادہ تباہ کن ہو گا‘دہشتگردی کے خلاف جنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک ہمہ جہتی اور مکمل حکمتِ عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے تا کہ دہشتگردوں کو بچ نکلنے کا موقع نہ مل سکے‘ ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور اشتراک کو فروغ دیکر دہشتگردی کے خلاف اس کارروائی کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے تا کہ پاکستان کے ستم رسیدہ عوام راحت کی فضا میں سانس لے سکیں‘ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کہاں کہاں کوتاہی ہوئی ہے؟ کون سے مورچے تھے جن کو خالی پا کر دہشتگردوں نے قوم پر اپنے حملوں کے لیے استعمال کیا؟
کون سے محاذ ایسے تھے جن پر منظم طریقے سے کام نہیں کیا گیا؟ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 20 شقوں میں سے صرف پانچ پر مکمل یا جزوی عمل ہوا ہے جب کہ 15 شقوں پر قطعی کوئی عمل نہیں ہوا‘ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے بھی وزیراعظم نے 26 دسمبر 2014ء کو اپنی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی اور وزیر داخلہ، وزیر دفاع، وزیر اطلاعات، وزیر منصوبہ بندی و ترقی اور مشیر خارجہ اس کے ممبر نامزد کیے گئے تھے‘ ہمارے علم کے مطابق ایک تاسیسی اور نمائشی اجلاس کے سوا آج تک اس کمیٹی کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی، اگر ہوئی ہو تو حکومت کے نصف درجن سے زائد ترجمان ہمیں بھی آگاہ کریں‘ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں کتنی سنجیدہ ہے؟
تحفظِ پاکستان ایکٹ کی تجدید نہ کرنے کا ذمے دار کون ہے؟ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد اور تحفظِ پاکستان ایکٹ کی تجدید کے بغیر آپریشن ضربِ عضب کبھی مکمل نہیں ہو سکتا اور یہ سب کام سول حکومت کے کرنے کے ہیں۔ کیا آج تک حکمرانوں نے نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں عوام کو کوئی بریفنگ دی ہے؟ کیا ضربِ عضب سے متعلق کبھی پارلیمنٹ کو آگاہ کیا گیاکہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے کتنے نکات پر عمل ہوا؟ گویا ثابت ہوا کہ حکومت کی ترجیحات نیشنل ایکشن پلان نہیں بلکہ وہ اتحادی ہیں جن کے لیے نیشنل ایکشن پلان وضع کیا گیا تھا چنانچہ حکمرانوں کا مقصد دہشتگردی کا خاتمہ نہیں بلکہ وقت گزارنا ہے۔ 3 سال ہو چکے، ابھی تک نیکٹا کی ایک میٹنگ تک ہو سکی اور نہ ہی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آپس میں کوآرڈی نیشن بہتر ہو سکی ہے‘ جب نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا وقت آیا تو سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات آڑے آ گئے‘ پاکستان واحد ملک ہے جہاں 30 سے زائد انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیاں کسی کوآرڈی نیشن کے نظام کے بغیر کام کر رہی ہیں۔
نیکٹا کو صرف اسی صورت میں طاقتور بنایا جا سکتا ہے کہ اسے وزارتِ داخلہ کے پاس رکھنے کے بجائے غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل کسی حاضرسروس جنرل کو اس کا سربراہ بنایا جائے اور اسے مکمل طور پر فری ہینڈ دیا جائے، ٹارگٹ بھی دیے جائیں، اس سے یہ اَمر یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ اب اس ادارے کو مزید نظرانداز نہیں کیا جائے گا اور ایجنسیوں کے مابین ہم آہنگی بھی پیدا ہو سکے گی‘اگر نیکٹا کو مطلوبہ فنڈز مہیا کر کے اس کا اسٹاف بھرتی کر لیا جائے اور ہر صوبہ میں اس کے دفاتر بھی قائم کر لیے جائیں تو دہشتگردی پر ہرحال میں قابو پایا جا سکتا ہے۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد لوگوں کے دلوں میں ایک جذبہ اور اُمید کی کرن بیدار ہوئی تھی کہ ہماری پرانی پالیسیاں بدل جائینگی لیکن بعد میں ہم نے دیکھا کہ وہ پالیسیاں نہیں بدلی گئیں اور پرانی پالیسیوں کی جھلکیاں آج بھی ہمیں نظر آ رہی ہیں‘ دہشتگردی کی جنگ میں قوم کے علاوہ ہماری سیکیورٹی فورسز نے بھی بلاشبہ بے بہا قربانیاں دی ہیں، جنھیں رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے۔ حکومت کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اب خالی خولی نعروں اور زبانی جمع خرچ سے قوم کو مزید مایوس نہ کیا جائے‘ آج ضرورت ایک عزم کے ساتھ ٹھوس قدم اٹھانے اور نیشنل ایکشن پلان کو پوری فعالیت کے ساتھ عملی جامہ پہنانے کی ہے، کہ اب محض گفتند، نشستند، برخاستند سے کام نہیں چلنے والا۔