تحریر : شہزاد حسین بھٹی
ترانہ کی اہمیت یوں تو بالکل خیال کی سی ہوتی ہے، مگر اس میں بول استعمال نہیں کئے جاتے یہ زیادہ تر تین تال میں گایا جاتا ہے۔ ترانے کی لے تیز ہوتی ہے اور عموما ستار خوانی کا انگ قائم کیا جاتا ہے۔ آواز کی ادائیگی کے لئے چند مخصوص قسم کے الفاظ مثلا” تا نا دا دے نوم تنوم “وغیرہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس میں مروجہ بول وہی بول ہیں جو طبلہ نواز اپنی گتوں اور پیشکاروں میں استعمال کرتے ہیں۔ کئی بولوں کا جوڑ زیادہ خوش اسلوب مانا جاتا ہے۔ مشلاً”تا را نا”،”تا را دے رے نا رے”،”کڑ تا نا گے گے نا تن تا نا گا رے رے نا” پاکستان کے قومی ترانے کا دورانیہ ایک منٹ بیس سیکنڈ ہے، اسے 13 اگست 1954 کو پہلی بار ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا تھا۔ کسی بھی ملک و قوم کی شناخت کے لئے قومی ترانہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اُس وقت کے سیکریٹری اطلاعات شیخ محمد اکرام کے زیر صدارت نو ارکان پر مشتمل قومی ترانہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں سردار عبدالرب نشتر ،’ ابولااثر حفیظ جالندھری اور احمد جی چھاگلا جیسی شخصیات شامل تھیں۔ قومی ترانے کی دھن 1950ء میں احمد جی چھاگلا نے 15 آلات موسیقی کی مدد سے ترتیب دی۔ ترانے کے بول ابو الاثرحفیظ جالندھری نے لکھے۔ احمد رشدی سمیت اس وقت کے گیارہ ممتاز گلوکاروں نے اسے پڑھا۔ 4 اگست 1954ء کو حکومت پاکستان نے اس کی باقاعدہ منظوری دی اور 13 اگست 1954 کو پہلی بار اسے ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا۔ قومی ترانہ ماضی اور حال کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لئے مشعل راہ بھی ہے۔ اس کی روح نصیحت ہے’ تو مرکز پاکستان کی آزادی پر یقین اس کے الفاظ قوم کی شناخت اور پہچان کی دعا ہیں۔
قومی ترانہ کسی بھی قوم کے جذبات ابھارنے اور انہیں حب الوطنی کے جذبات سے سرشار کرنے کا نام ہے۔اس کے الفاظ کوئی عام الفاظ نہیں بلکہ اپنے اندر جادو، اثراور تاثیر رکھتے ہیں۔ہر ملک کا الگ قومی ترانہ ہے۔اس کی حیثیت گویا ایک الگ تشخص کی سی ہے جس سے کوئی بھی دستبردار نہیں ہوتا۔اس کے تقدس کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جب بھی قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ گایا جاتاہے۔چھوٹا بڑا، ادنی و اعلیٰ سب بصداحترام ہاتھ کھول کر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ خصوصیت سوائے مخصوص مذہبی مناجات کے اور کسی کلمات میں نہیں۔
یہاں پر قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ صرف قومی ترانہ کی ہی اہمیت نہیں، اس کے ساتھ ساتھ بجنے والی دْھن بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قومی ترانہ لفظوں کے ساتھ نہیں، صرف دھنوں کے ساتھ بجتا ہے اور اسے بھی وہی احترام حاصل ہوتا ہے جو کہ شاعری کے ساتھ قومی ترانہ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ دھن اور قومی ترانہ دونوں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔دراصل قومی ترانے کے ذریعے قوموں کی جدوجہد اور ان کے جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔پاکستانی کی قومی زبان اردو میں اسے قومی ترانہ کہا جاتا ہے۔دیگر ممالک کی مختلف زبانوں میں اسے مختلف ناموں سے پکارا اور لکھا جاتا ہے۔
دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کا ایک علیحدہ قومی ترانہ اور اس کی میوزک کمپوزیشن ہے اور ہر اہم مواقع جب قومی جذبات کی ترجمانی مقصود ہو، قومی ترانہ مخصوص دھن کے ساتھ بجایا جاتا ہے۔بعض ممالک کی طرح پاکستان کا قومی ترانہ ہر روز اسکول میں جب طالب علم اپنے اسکول کے دن کا آغاز کرتے ہیں تو قومی ترانے سے ہی کرتے ہیں۔ 14 اگست1947 ء سے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ وجود میں نہیں آیا تھا۔جب 14 اگست 1947 ء کے موقع پر پاکستان کی آزادی کا دن ،پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ منایا گیا، اس وقت قومی ترانے کی جگہ ”پاکستان زندہ باد، آزادی پائندہ باد”کے نعروں سے یہ دن منایا گیا تھا لیکن اس موقع پر حساس اور محب وطن شاعر اور ادیبوں کے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ پاکستان کا ایک الگ سے قومی ترانہ بھی ہونا چاہیے۔جو دلوں کو گرما دے اور الگ قومی تشخص کی دنیا بھر میں پہچان کا ذریعہ ہو۔
تاریخ کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ پاکستان کا پہلا قومی ترانہ جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا جو کہ ایک ہندو شاعر تھے اور ان کا تعلق لاہور سے تھا۔انہوں نے یہ قومی ترانہ قائداعظم محمد علی جناح کی ذاتی درخواست پر لکھا تھا۔اس قومی ترانے کی منظوری دینے میں قائداعظم محمد علی جناح نے کافی غوروفکر کیا اور لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد اسے باقاعدہ سرکاری طور پر بہ طور قومی ترانہ کے منظوری حاصل ہوئی۔ پاکستان میں اس وقت جو قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے ، یہ وہ ترانہ نہیں ہے جسے جگن ناتھ آزاد نے لکھا تھا۔ یہ قومی ترانہ حفیظ جالندھری نے دسمبر1948 ء میں لکھا اور اس وقت سے یہ نافذالعمل ہے۔دراصل جگن ناتھ آزاد کے قومی ترانے میں بعض جگہ پر حب الوطنی کی خاصی کمی محسوس کی گئی تھی اور اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ نئے سرے سے قومی ترانہ لکھوایا جائے۔
یہ سعادت حفیظ جالندھری کو حاصل ہوئی اور انہوں نے یہ قومی ترانہ لکھ کر اپنا نام ہمیشہ کے لیے پاکستان کے ساتھ جوڑ لیا۔اس قومی ترانے کو منظوری کے لیے اس وقت کے انفارمیشن سیکرٹری شیخ محمد اکرام کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ جو اس کمیٹی کو ہیڈ کر رہے تھے، جس نے اس قومی ترانے کی منظوری دینی تھی۔ اس کمیٹی میں معروف سیاستدان، شاعر اور میوزیشن شامل تھے۔14 اگست1954 ء کو پہلی دفعہ قومی ترانہ ،مکمل دھن کے ساتھ بجایا گیا تھا۔ریڈیو پاکستان پر 13 اگست1954 ء کو 11 گلوکاروں نے بیک وقت گایا۔ قومی ترانہ گانے والے ان گلوکاروں میں احمد رشدی، شمیم بانو، کوکب جہان، رشیدہ بیگم، نجم آرا،نسیمہ شاہین،زوار حسین،اختر عباس،غلام دستگیر،انور ظہیر اوراختر وصی شامل تھے۔ان کے ساتھ علی راٹھور اور سیف علی خان نے بھی حصہ لیا تھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پہلی دفعہ ریڈیو پاکستان پر قومی ترانہ گایا گیا تھا۔جس کا ٹائم پیریڈ ایک منٹ اور 20 سیکنڈ تھا۔دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت پہلی دفعہ یہ ترانہ گایا گیا، اْس وقت تک سرکاری طور پر اس کی منظوری نہیں ہوئی تھی۔منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ نے باقاعدہ طور پر اس کی منظوری16 اگست1954 ء کو دی تھی۔قومی ترانے کے پہلے میوزک ڈائریکٹر احمد علی چھاگلہ1953 ء میں انتقال کر گئے تھے۔یعنی جس وقت پہلی دفعہ باقاعدہ طور پر ریڈیو پاکستان میں قومی ترانہ گایا جا رہا تھا، وہ بقید حیات تو نہیں تھے۔تاہم وہ اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر چکے تھے۔
قومی ترانہ فائونڈیشن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عزیز احمد ہاشمی کے مطابق قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری قومی زندگی میں ترانے کے عملی نفاذ پر زور دیتے تھے اور اسی مقصد کے حصول کیلئے قومی ترانہ فائونڈیشن نے طلبہ کی شخصیت و کردار سازی کے حامل ”عزم عالی شان ” پروگرام کا اجراء کیا ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وزیر تعلیم پنجاب ، سیکرٹری ایجوکیشن اور دیگر متعلقہ حکام کو ہدایت کرکررکھی ہے کہ وہ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں اس پروگرام پر عمل در آمد کو یقینی بنانے میں قومی ترانہ فائونڈیشن کے ساتھ مل کر کام کریں۔
بچوں میں 10 اعلیٰ خوبیاں پیدا کرکے ان کی شخصیت و کردار کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا عزم عالی شان پروگرام کا اصل مقصد اور ہماری قومی ضرورت ہے تاکہ یہ طلبہ عملی زندگی میں جا کر ان خرابیوں کا ازالہ کر سکیں جو اس وقت ہمارے قومی وجود کو خراب کر رہی ہیں۔ آج کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے اکثر سرکاری و پرائیویٹ سکولوں میں قومی ترانہ دیدہ دانستہ نہیں پڑھایا جاتا اور نہ ہی کوئی وفاقی و صوبائی محکمہ تعلیم اس بات کا نوٹس لیتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جار ہا ہے۔
اسلام آباد سے آمدہ اطلاعات کے مطابق الھدیٰ انٹرنیشنل سکول چین سسٹم اسلام آباد میں قومی ترانہ پڑھنے پر غیراعلانیہ پابندی عائد ہے اور قومی ترانے کے نہ پڑھنے بارے استفسار پر سکول انتظامیہ کا موقف یہ ہے کہ قومی ترانے سے نیشنلزم فروغ پاتا ہے۔ “اسلام میںمسلم اُمہ کا تصور ہے وطن پرستی یا قوم پرستی کا نہیں “۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے بچوں میں نیشلزم کو فروغ نہیں دینا تو پھر انہیں مخلص، محب وطن اورسچا پاکستانی کیسے بنانا ہے؟ انہیں اپنی تاریخ سے کیسے روشناس کروانا ہے ؟ اور اس عرض پاک کے حصول کی راہ میں جو قربانیاں دی گئیں ، جو جان مال اور عزت لُٹائی گئی وہ ہمارے آج کے بچے کیسے جان پائیں گے جب ہم انہیں قومی ترانے اور قومی پرچم سے روشناس نہیں کروائیں گے۔
میں ذاتی طو ر پر جانتا ہوں کہ ہمارے کئی سرکاری و مشنری سکولوں میں اب بھی قومی ترانہ بڑے اہتمام سے پڑھا جاتا ہے تو پھرپرائیویٹ سکولوں میں اس کے پڑھنے پر ممانعت کیوں؟ کیا اس کے پیچھے کوئی سازش تو نہیں۔ محکمہ تعلیم اور حساس اداروں کو اس جانب بھی غور کرنا چاہیے تاکہ اگر کوئی سماج دشمن ہماری صفوں کو اُلٹنا چاہتا ہے تو اسے منظر عام پر لاکر قرار واقعی سزاء دینی چا ہیے یہی نہیں بلکہ ملک بھر میں تمام سکولوں اور کالجوں میںقومی ترانہ لازمی قرار دیا جانا چاہیے بصورت دیگر سکول کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے ۔کالی بھیڑوں کی نشاندہی کر کے انہیں اپنی صفوں سے نکالنا ہو گا۔
تحریر : شہزاد حسین بھٹی