تحریر: ممتاز ملک ۔ پیرس
دنیا بھر میں قوموں کے حکمران ہوتے ہیں رہنما ہوتے ہیں یا سیاستدان ہوتے ہیں جو انہیں کامیابی کے راستوں پر لے جاتے ہیں لیکن پاکستانی قوم کو قائداعظم کے بعد ان میں سے کچھ بھی میسر نہیں آیا . بلکہ جو بھی ملے رنگیلے ملے یا رنگیلیاں ملیں . جو دامے ورمے سخنے کام نظر آیا وہ بھی اللہ پاک نے اس قوم کی عزت رکھوانے کے لیئے کسی نہ کسی سے زبردستی کروا ہی لیا،اسی طرح جیسے چیونٹی سے ہاتھی مروا لیتا ہے . سبحان ہے اس کی قدرت.
دور کیوں جائیں اپنے پڑوسی کو ہی دیکھ لیں جو اتنا بے دھڑک ہو کر بدمعاشیوں کے ریکارڈ بناتا ہے کہ ہمارے ملک کو میسر آنے والے رنگیلے اور رنگیلیاں ان کو کھل کر فٹے منہ کہنے کا حوصلہ بھی نہیں دکھا سکتے آخر کو سودا بیچنا ہے بھائ . آلو لے ، پیاز لے ، چینی لے ……
ہندوستان کے بارے کسی کو کوئ ثبوت ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ اس نے خود اپنے کرتوت اپنی ہی فلمز میں اعتراف کیئے ہیں ۔ یہ اعتراف گناہ “21دسمبر” نامی فلم میں پاکستان توڑنے کے واقعات ہوں یا “بنارس کیفے” نامی فلم میں سری لنکا اور جافنا میں ہونے والے خوفناک خانہ جنگی کے حالات اسے کھلے بندوں پیش کیا اور اعلانیہ انہیں پیش کیا گیا.ان فلموں کو دیکھنے یا ہندو دہشت گرد پرائم منسٹر مودی کے گزشتہ کچھ عرصہ میں دکھائ جانے والی زبان درازیاں ان سے بجا طور پر ایک کم عقل انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان کو بدنام یا برباد کرنے کے لیئے ستر سال سے یہ بنیا بغل میں چھری لیئے رام رام جپ کر پرایا مال اپنے نام کرنے میں مصروف ہے . اگر کوئ اور ملک پاکستان کی بجائے ہوتا جس کے ساتھ اس کا پڑوسی یہ گل کھلا رہا ہوتا تو وہ اسی کے انہی ثبوتوں کی بنا پر دنیا میں اسکا ناطقہ بند کر دیتا. ہندو محاورہ ہے کہ جھوٹ بولو لیکن اتنا بولو، اتنی بار بولو، ڈٹ کے بولو کہ وہ سچ لگنے لگے
اور ہندوستان کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہندوؤں نے ہمیشہ چھل ،بل اور کھپٹ کو اپنے ہر معاملے میں استعمال کیا اور آنکھوں میں دھول جھونکنے میں یہ قوم ید طولی رکھتی ہے . دوسری جانب ہم پاکستانیوں کو دیکھیں تو اپنی فطری نرم مزاجی کے باعث کبھی تو انہی ہندووں سے سال بھر میں اپنے ملک میں جاسوسی اور قتل و غارت کا ٹھیکہ ان 15 لاکھ پاؤنڈ کے عوض کر لیتے ہیں کہ کہ جن میں سے 10 لاکھ ڈالر ہمارے رنگیلے حکمران انہی کی ایک ایک طوائف کے گھنگھروں پر ایک رات میں نچھاور کر دیتے ہیں . کبھی ہم سادگی بازار لگا لگا کر بے حال ہو جاتے ہیں تو کبھی اپنے ایک لندن سیکرٹریٹ کا ماہانہ خرچہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ پاونڈز میں کرتے ہوئے آدھی آدھی رات کو شراب کے نشے میں دھت ملک و قوم کی غربت کا رونا فون کال پر روتے نظر آتے ہیں
کبھی یہ رنگیلا غیر ملکی آقاووں کے اشارے پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تڑیاں لگاتا ہے تو دوسرے ہی لمحے جب بلی کا بلونگڑا بھی ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیتا تو جھٹ سے جرنیلوں کے جوتے چاٹتا اور ملک سے باہر نکلنے کے چور دروازے کھلواتا نظر آتا ہے . کچھ اتنے ہشیار کہ راتوں رات ان رنگیلوں اور رنگیلیوں کے سات پشتوں کے کرتوت بمعہ ثبوت ڈھونڈ نکالتاہے تو کہیں اتنے احمق کہ “یار جانے دو میرا بھائ نہیں ” کہہ کر ملک سے باہر بھگا کر خوب عیاشی کرنے کی دعا دیکر اور بگل بجا کر رخصت کر دیتا ہے . وہ جنہیں قوم پھندے پر جھلانا چاہتی ہے اسے ہمارا کوئی بھی دوست نواز بااختیار جہاز کا جھولا جھلا کے” جھولے مایاں” کھلاتا ہے
کیونکہ ہم گھر کا کچرا جلانے کی بجائے اسے کارپٹ کے نیچے دبا کر اپنی نآک بند کر لینا زیادہ آسان سمجھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے بھلااپنی ناک کیوں بند کریں گے . لیکن ایک ہی بات ان سب حالات کو دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ بے غیرت کا کوئ دین دھرم نہیں ہوتا . پھر وہ رنگیلا ہو یا رنگیلی اس سے کیا فرق پڑتا ہے . نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو پہلے ہی فرما دیا تھا کہ ” جو حیا نہیں کرتا وہ جو چاہے کرے ” .
تحریر: ممتازملک ۔ پیرس