اسلام آباد(ایس ایم حسنین)بنیادی طور پر نیوزی لینڈ حکام 2019 کے کرائسٹ چرچ کے اندوہناک سانحے جیسے حملوں کو روکنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے کیونکہ دائیں بازو کے بنیاد پرستانہ انتہا پسندی کی طرف کسی کی توجہ نہیں تھی۔ یہ بات نیوزی لینڈ کے رائل انکوئری کمیشن کی سن 2019 میں کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملوں کے واقعے کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا کہنا کہ وہ یُوٹیوب کے منتظمیں سے جلد براہ راست بات چیت کریں گی اور ان کی توجہ دائیں بازو کی بنیاد پرستانہ مواد کی جانب دلائیں گی۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق رائل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں حکومت کو چالیس نکات پیش کیے ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہو کر مستقبل میں ایسے دہشت گردانہ حملوں کو روکنا ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ نکات انسداد دہشت گردی کی موجودہ حکمتِ عملی میں تبدیلی کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ رائل کمیشن کی رپورٹ آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کمیشن وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی تجویز پر قائم کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم آرڈرن نے کمیشن کی رپورٹ اور سفارشت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان سفارشات پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ حکومتی اداروں میں ان حملوں کو روکنے کے حوالے سے کوئی کوتاہی سرزد نہیں ہوئی تھی کوینکہ یہ ایک فردِ واحد کا انفرادی فعل تھا۔ رائل کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ حملہ آور کسی بھی موقع پر فوری خطرے کے طور پر سامنے نہیں آیا تھا اور اس کے مقاصد بھی مخفی تھے کیونکہ اس نے نیوزی لینڈ میں چند افراد کے ساتھ رابطہ کاری کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق اس حملہ آور میں بنیاد پرستانہ تبدیلی بھی آن لائن مواد کا نتیجہ تھی اور خاص طور پر یُوٹیوب پر دستیاب ویڈیوز نہایت اہم تھیں۔ رپورٹ کے مطابق حملہ آور نے حملے کی تیاری کے دوران غیر اہم بات چیت آن لائن کی۔ یہ بات چیت اتنی غیر اہم تھی کہ اس کی بنا پر اس پر شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق حملہ آور کی آتشین سلحے میں دلچسپی کے تناظر میں تاہم اس کی نگرانی ممکن تھی اور اسی پہلو پر کمیشن نے سکیورٹی اداروں پر تنقید کی ہے۔ تاہم کمیشن کے مطابق اسلحے کے لائسنس کا نہ ہونا، اس حملے میں تاخیر تو پیدا کر سکتا تھا لیکن روکنا اس صورت میں بھی ممکن نہیں تھا۔ کرائسٹ چرچ کی مساجد پر کیے گئے حملوں کی رپورٹ دسمبر سن دو ہزار انیس میں مکمل کی جانی تھی لیکن اس کی تفصیلات اور مرتب کرنے میں ایک مزید سال بیت گیا۔ اس رپورٹ کے انتظار میں متاثرین کی بے چینی اور تشویش بھی سامنے آنا شروع ہو گئی تھی۔ واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر سن دو ہزار انیس میں دہشت گردانہ حملے کیے گئے تھے۔ مساجد پر حملوں میں اکاون افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔
ان حملوں کی انکوائری کے لیے رائل کمیشن قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ملکی سکیورٹی حکام نے دائیں بازو کے انتہا پسندوں پر کوئی توجہ نہیں رکھی ہوئی تھی اور اس باعث ایسے کسی حملے کو روکنا ممکن نہیں تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اتفاقیہ ایسے کسی حملے کو روکنا ممکن تھا لیکن بنیادی طور پہر حکام ایسے حملوں کو روکنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔
اس کے باوجود حملوں میں ہلاک شدگان اور زخمیوں کے خاندان کا خیال ہے کہ کمیشن کی رپورٹ مستقبل میں سکیورٹی معاملات کو بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ ایک ہلاک ہونے والے شخص کے والد کا کہنا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ میں کئی سوالات کے جوابات شامل ہیں اور ان کے تناظر میں اداروں کا احتساب ضروری ہے۔ متاثرین نے حکومت کی جانب سے رپورٹ کے اجرا کو ایک احسن قدم قرار دیا ہے۔ بعض متاثرین کے مطابق رپورٹ میں انتہاپسند مسلمانوں کی دہشت گردی پر بھی فوکس کیا گیا اوریہ دائین بازو کی انتہا پسندی کی وجہ سے ہے۔