تحریر: انیلہ احمد
جند ماہ ھوئے ڈاکٹر پہ جانے کااتفاق ھوا ویٹنگ روم میں آپسں میں گفتگو کرتی ھم ماں بپٹی باری کا انتنظار کرتی ا سں بات سے بے خبرکہ سامنے بیٹھی فرنچ خا تون نھایت ا نھماک سے ھماری طرف دیکھ رھی ھے ھمین اپنی طرف متوجہ پا کر مسکرادی اور بولی کہ آ پ د ونوں کونسی ز بان بول رھی ھین ھم نے جلدی سے کھا کہ ارد و تو اس خا تون نے حیران ھو کر پوچھا کہ یہ کس ملک کی زبان ھے میں ا یک ٹرانسلیٹر ھوں چھ سات زبانو ن پر عبور حاصل کرنے کی وجہ سے عرصہ دراز سے لینگویج کورس کروارھی ھوں یہ زبان تو میں نے پھلے کبھی نھین سنی اب حیران ھو نے کی باری ھماری تھی یہ کیسے ممکن ھے کہ الیکٹرانک میڈیا کے ھوتے ھو ئے یہ لوگ اردو زبان سے قطعی ناواقف ھوں خاتون کی اس بے سروپا بات کو کو اھمیت نہ دیتے ھوئے موضوع ختم کیا۔
ڈاکٹر کو دکھا کر گھر کی رالی دو چاردن سوچا اور عام پاکستانیوں کی طرح خود کو تاویلیں دے کر مطمین کر دیا کہ و خاتون نے ا یو یں ھی بے پر کی اڑای ھو گی خیر کچھ روز پھلے اپنی ھم وطن بھن کے گھر جانے کا اتفاق ھوا جھاں اسں واقعہ کی یاد تازہ ھو گی ھوایوں کے ڈراینگ روم میں چائے سے لطف اندوز ھوتے د نیا جھاں کی باتیں کرتے ھوئے اسں بات کو بار بار اگنور کر جاتے کہ اسں خاتوں کی تیرہ سالہ بیٹی پاکستانی چینل بند کرکے فرنچ چینل لگا لیتی ا یک د و دفع ھم نے بھی کھا کہ بیٹی پاکستانی ڈرامہ یا خبریں لگا لو لیکن وھاں جواب ندا ارد کہ اتنی دیر میں ان کا بیسں سالہ بیٹا داخل ھوا فرنچ میں سلام دعا کے بعد ماں سے بھی فرنچ میں بات کرتا ھواگا ڑی کی چابی پکڑ کرباھر نکل گیا چاھنے کے باوجود ھم خاموش رھے لیکن بالاآخر ھم ر ہ نہ سکے پوچھ ھی لیا کہ بھن پ گھر میں بچوں کے سا تھ اردو میں بات نھیں کر تیں خاتون کے جواب نے ھمین و رطہ حیرت میں ڈال دیا۔
معلوم نھیں واں کا تمسخر تھا کہ کرو فربے مروتی سے بولیں نہ ھی میرے بچے تو فرنچ میں بات کرتے ھیں کبھی اردو میں بات کر بھی لوں تو پسند نھیں کرتے ا ند از تخاطب ھماری سمجھ سے بالاتر تھا آخر برملا اظھارکر ھی دیا کہ جب آپ پاکستا ن جا تے ھیں تو پھر یہ کیسے بات کرتے اور سمجھتے ھیں تو ادھر سے جواب آیا کہ اول تو یہ پاکستان جانا پسند نھیں کرتے میں اکیلی ھی جاکر میکے اور سسرال مل آتی ھوں اور اگر مجبورا لے بھی جاوں تو ان کی ناپسنددیدگی کی وجہ سے جلدھی واپسی کی راھ لیتی ھوں اسلیئے ھمیں کبھی فکر نھیں ھوی کہ انھیں اردو پرھایں یا سکھایں اگر کبھی دل کیا تو خود ھی ادھر ادھر سے سن کر ٹوٹی پھوٹی بول ھی لینگے اب ظاھر ھے جھاں رھتے ھیں انھی کی بودو باشں اختیار کر نا ھمارے لیے زیادہ اھم ھے ویسے بھی ھمارے اپنے چینلز پپے جو ڈرامے اور پروگرام دکھاے جاتے ھیں۔
ان میں اسقدر اردو اور انگلش مکسں ھوتی ھے کہ بچے خود پو پھتے ھیں کہ یہ کونسی زبان ھے ھم ور طہ حیرت میں انکی بات سنتے ز یاد دیر نہ بیٹھ سکے جلد ھی واپسی کی راہ لی لیکن تمام راستہ مضحمل سوچتے رھے کہ بات چینلنز کی حد تک تو ٹھیک ھے لیکن والدین کا جو فرض ھے اگر انھی اپنی زبان سے محبت نہ رھی تو بچے ملک سے وفا کیے کریں گے ھم جسے ماں کھتے ھیں بچے کیلے مآں کی گود پھلی درسگا ھوتی ے ان خاتون جیسی نجانے کتنی مایںں اور ھو ں گی جو ا پنا فر ض بو جھ سمجھ کر نھا رھی ھیں کتنے با پ ھو ںگے جو بچے کی تعلیم وتربیت کی فکر میں کو شاں ھو ںگے یا اسطرح کے نجانے کتنے گھر ھونگے جو بچے کو اپنی زبان سے دور کر نے میں کوی عارنہ سمجھتے ھوںگے ھم میڈیا کو ھم بار بار کوستے ھیں کہ بچے بگر گے ھم ان جیسے والدین کو کیون ھیں پو چھتے جو اپنی ھی زباں سے کو سوں دور بھا گر ھے ھیں اپنی جھوٹی شان و شوکت کو برقرار رکھنے کیلے بین الاقوامی زبانوں پر عبور حاصل کر نا ھمارے لیے باعث فخر اور اپنی قومی زبان کو اپنے نونھالوں کو سکھا نیاور پر ھانے ن کو باعث شرمندگی سمجھںا عاقبت نا اندیشی ھے جو ھماری نسلوں کیلے لمحہ فکر یہ ھے۔
تحریر: انیلہ احمد