counter easy hit

قومیت یا انسانیت، لمحہ فکر

کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں کرنے والے ایک دو یا چند ہوتے ہیں مگر بھگتنا پورے کنبے، قبیلے، ملتی جلتی شکل و صورت والے اور سماج کو پڑتا ہے۔ دنیا میں ہر طرح کے لوگ موجود ہے۔ کسی ایک معاشرے میں دو مختلف رنگ و نسل کے افراد بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں پر لازم تو نہیں کہ ان کے رنگ و نسل کو دیکھتے ہوئے ان کی قدر و قیمت مختص کی جانی چاہیے۔ اگر وطن عزیز کا جائزہ لیا جائے تو یہاں پر بھی مختلف قومیتیں موجود ہیں۔ سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتون، اردو بولنے والے پھر ہر صوبے میں الگ الگ زبانیں بولنے والے اور قبیلے کے افراد موجود ہیں، ایسے میں انہیں الگ الگ انداز میں بانٹنے کے بجائے ایک ہی زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

سندھی وہ قوم ہے جو اپنے حقوق اور اپنی روایات کا خیال رکھتی ہے۔ گھر آئے مہمان کی قدر دانی کرتی ہے۔ مگر کبھی سندھی پسند نہیں کیا جاتااور کبھی اسے مختلف القابات سے نواز کر دھتکار دیا جاتا ہے۔ ناجانے کیوں کسی کو اپنی روایات پر فخر اور دوسرے کی روایات دیکھ کر مذاق سوجھتا ہے۔ اگر کہیں، کبھی چند ایک نے کچھ غلط کیا تو کیا اس کی وجہ سے اس پوری قوم کو غلط سمجھا جائے؟ ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ شرافت، کمال مہمان نوازی، اپنے اور غیر کےلیے گھر اور دل کے دروازے ہر وقت کھول کر رکھنے والے سندھی کو کسی ایک فرد کے غلط رویہ کی وجہ سے سب برا کہیں تو یقیناً یہ المیہ ہی کہلائے گا۔

اردو بولنے والے مہاجروں نے بھی قیام پاکستان کےلیے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ ہندوستان میں جاگیردار تھے مگر اپنے دین اور اسلام کو بچا کر پاکستان آئے اور یہاں پر مختصر گھر میں رہنے کو قبول کیا۔ پاکستان کو دل سے لگایا اور پھر پاکستان کےلیے اپنا سب کچھ لٹایا۔ ایسے میں اس اردو بولنے والے کو کوئی نکالنے کی بات کرے تو دکھ تو ہوگا۔ کوئی غیر کا طعنہ دے تو یقیناً دل پر لگے گا۔ کوئی اس کی شناخت چھیننے کی بات کرے تو آنکھ بھر آئے گی۔ ایسے میں اسے الگ کرنے اور دیوار سے لگانے کی باتیں غلط نہیں تو اور کیا ہیں۔ پاکستان میں ان کےلیے بھی وہی حصہ ہے جو باقی پاکستانیوں کےلیے ہے۔ یہ بات سب قبول کرلیں تو شاید کبھی اختلافات ہی نہ رہیں۔

اسی طرح پٹھان کو دہشت گردی کا ذمے دار سمجھا جاتا ہے۔ پٹھان ہے کہ جو پاکستان کےلیے جان نچھاور کرنے تک سے گریز نہیں کرتا۔ محب وطن پٹھان اپنے اخلاص کے باوجود دہشت گردی کی علامت بنا دیا جائے تو یقیناً یہ بات درست نہیں ہوگی۔ کبھی یہ نہیں سوچا جاتا کہ قیام پاکستان میں پٹھان کی قربانیوں کی داستانیں رقم ہیں جنہوں نے پاکستان کو بنایا تھا، وہ پاکستان کے خلاف کبھی ہتھیار نہیں اٹھا سکتے۔ مگر اس بات کو سمجھنے کے بجائے پھر بھی پٹھان پر دہشت گردی کی ذمے داری عائد کی جائے تو کیا یہ المیہ نہیں؟

بلوچ پاکستان کی ایک سرحد کے محافظ، اپنے ہوکر بھی غیروں جیسا رویہ برداشت کرنے پر مجبور رہے۔ محرومیاں در محرومیاں… مگر ان میں بیٹھو تو محبت اور ایسا پیار ملے کہ دل وہیں کا ہوکر رہ جائے۔ کبھی انہیں ملکی سطح پر دیکھا ہی نہیں گیا۔ لیا سب کچھ گیا مگر ملی تو صرف محرومی۔ جہاں غیروں نے اچھا نہ کیا وہیں نام نہاد اپنوں نے بھی ایسے ایسے دکھ دیے کہ جن کے زخموں سے آج تک خون رس رہا ہے۔ غیر یقینی کی زندگی بسر کرنے والا ہر بلوچ دل سے پاکستانی مگر پھر بھی غدار ٹھہرا۔ بلوچ کا دوسرا مطلب ملک کا باغی بن گیا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ یہاں لسانیت اور عصبیت کے ڈیرے تھے۔ بلوچ جو غیرت مند تھا، کبھی نہ بکنے والا، کبھی نہ جھکنے والا، اپنے حق کےلیے مر مٹنے والا اسے جھکانے کی کوشش کی گئی۔ تخت پنجاب، یا تخت وفاق نے ہر دور میں تکلیفیں دیں، زخم دیے مگر بلوچ پھر بھی اپنے خلوص میں کمی لائے بغیر وطنیت کا جھومر ماتھے پر لگائے چلتا رہا اور آج تک چلتا آیا ہے۔ بلوچ کہ جس نے ملک کو گوادر جیسا معاشی حب بھی فراہم کردیا، اس کےلیے اپنے گھروں تک کی قربانی دے دی۔ مگر بیرونی سازشوں کا شکار چند بھٹکے نوجوانوں کی وجہ سے آج تک بلوچ غدار ٹھہرا۔ طعنہ ملا تو غدار وطن کا۔ چند نوجوانوں کی غلط رویوں اور کرپٹ انتظامیہ کی وجہ کے کرموں کا صلہ بلوچ عوام پر ڈالنا المیہ نہیں کہلائے گاتو اور کیا ہوگا۔

پنجابی کو دیگر صوبے اپنا مجرم قرار دے کر نفرت کرتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ تخت پنجاب سے تمام قومیتوں کو شکایات رہی ہیں، جو کہ درست بھی ہیں۔ مگر سب اپنی محرومیوں کا ذمے دار پنجابی کو ٹھہرائیں تو یہ یقیناً غلط ہوگا۔ ایک عام پنجابی مزدور کو شناختی کارڈ دیکھ کر گولی مار دی جائے تو یقینا اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا۔ کوئی اپنا دشمن قرار دے کر گالی دے تو یقیناً دل ٹوٹے گا۔

پنجابی وہ ہے کہ جس کے دل میں کسی کےلیے نفرت نہیں۔ سب سے محبت کرتا ہے۔ خوش رہتا ہے۔ خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی اچھائی ہے کہ وہ بہت اچھے سے سب کو قبول کرتا ہے۔ اسے تخت پنجاب کی پالیسیوں سے کوئی مطلب نہیں۔ جتنا غلط اسے سندھی، بلوچی اور پٹھان سمجھتا ہے، اتنا ہی وہ سمجھتا ہے۔ ایسے میں اسے قصور وار قرار دے کر لائن میں کھڑا کر کے گولیوں کا نشانہ بنا دینا کہاں کا انصاف ہے۔

خدمت کے جذبے سے سرشار، کبھی کسی کام کو کمتر یا حقیر نہ سمجھنے والے، ہر وقت ہر ایک کی مدد کو تیار رہنے والا ایک معصوم سا طبقہ اپنے حقوق کی جدوجہد میں مصروف سرائیکی اور ہزاروی بھی اشرافیہ کےلیے کیڑے مکوڑوں سے کم نہیں رہا۔ دو چار کی غلطیوں پر پورے سماج کو حقارت سے دیکھا جانا لگا۔ زیادہ پیسے نہیں، غریبانہ پیشے سے وابستہ ہیں مگر اخلاص میں کوئی کمی نہیں۔ ہر کام کر گزرتے ہیں مگر ہمیشہ پسینہ بہا کر گھر کی گاڑی چلاتے ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہورہا ہے کہ وہ اپنے صوبے میں اجنبی بن کر رہ گئے۔ اپنی شناخت پر کبھی حیران، کبھی پریشان اور کبھی ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ ان طبقات کو اس مقام پر پہنچانے والے کوئی دوسرے نہیں، ان کے اپنے ہیں۔ ہاتھ سے کما کر، رکشہ، ٹیکسی چلا کر، مزدوری کر کے گھر کی گاڑی چلانے والے کو اس کے پیشے کی وجہ سے حقارت سے دیکھا جائے تو کیا یہ اس معاشرے کےلیے المیہ نہیں ہوگا۔

فاٹا، گلگت بلتستان، یا پھر کشمیر ایسے علاقے ہیں جو ہیں تو اپنے، مگر پھر بھی اپنے جیسے نہیں۔ بے یقینی کی کیفیت، محرومیوں سے محرومیوں تک کا نا ختم ہونے والا ایک طویل سلسلہ۔ کبھی در بدر کبھی اپنے در ناجانے کب تک ’’نیشنل نیشنل‘‘ کی جنگ میں جانوں کے نذرانے فاٹا کے عوام کا مقدر بنتے رہیں گے۔ کب تک فاٹا اپنے وطنیت کےلیے ترسے گا اور پھر اس پر ہوگی سیاسیت۔ سیاسی لیڈروں کے اللّے تللّے کا ملبہ فاٹا کے عوام پر پڑے تو کیا یہ المیہ نہیں ہوگا۔

برائی چند ایک میں ہوتی ہے، گندا پورا پنجابستان، بلوچستان، سرائیکستان، سندھستان، ہندکوستان، پختونستان ہو جاتا ہے۔ پھر تعلقات رکھنے والے انہیں جگہ جگہ ذلیل کرتے ہیں۔ ہر ہر بات پر انہیں ان کی ذات کا طعنہ سننے کو ملتا ہے۔ کبھی پنجابی کو پینڈو ڈنگر، کبھی اردو بولنے والے کو ہندوستانی، مطلبی کا لقب ملتا ہے۔ کبھی سندھی کو تو کبھی پٹھان کو بے ڈھنگا، شکاپوری اور بددماغ سمجھا جاتا ہے۔ الغرض جگہ بدلتے ہی خیالات بدلتے ہیں، مگر ان میں بدبو ہوتی ہے تو صرف عصبیت کی، لسانیت کی اور اونچ نیچ کی۔

کچھ مزید آگے بڑھیں تو شکلوں پر بھی جملوں کا سلسلہ نہیں رکتا، اس سے کہیں آگے شکل ایک برائی کی علامت بن چکی ہے۔ کبھی داڑھی والا مشکوک ہوجاتا ہے، کبھی کالے کپڑے برائی کا نشان بن جاتے ہیں۔ کبھی ٹوپی پر حرف آتے ہیں تو کبھی پینٹ شرٹ اور لباس پر غصہ نکال دیا جاتا ہے۔

کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ہم اور ہماری بنیادی حیثیت کیا ہے۔ برتری کا ترازو اور معیار دراصل ہے کیا؟ اگر ہم ایک بات سمجھ لیتے تو اچھے برے کی پہچان ہوجاتی۔ کیا کسی قوم یا فرد کی غلطی کی سزا سب کو ملنی چاہیے، ہرگز نہیں۔ ورنہ تو کوئی خاندان یا قوم ایسی نہیں جس میں غلط لوگ موجود نہ ہوں۔ پھر ہماری پہچان الگ الگ قومیں نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستانیت ہے۔ میرے ساتھ والا کس زبان سے تعلق رکھتا ہے مجھے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے، سوائے اس کے کہ وہ میرا پاکستانی بھائی ہے۔ جب ہم پاکستانی ہوںگے تو یقینا ہم الگ الگ قومیں نہیں ہوں گی۔

مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ جب ہم تفریق کرتے ہیں۔ انسان انسان کی تفریق کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اس میں کہیں بھی کوئی فرقہ، مذہب، مسلک، یا قوم کا فرق نہیں بتایا گیا۔ کیوں ہم انسانیت سے آگے بڑھ کر سوچتے ہیں۔ کیوں ہم ایک مسلم میں کئی حصہ بنا کر سوچتے ہیں۔

ہماری پہچان یہ ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور ہمارا مذہب و مسلک صرف اسلام ہے، اور ہمارا مقام یہ ہے کہ ہم انسان ہیں۔ انسان ہونا ہی ہماری رشتے داری ہے، تعلقات کا سبب ہے۔ کیوں کہ انسانیت کے ناتے ہم سب انسان ایک ہی طرح کی تخلیق ہیں۔ پھر یہ سب کیوں۔۔۔ فکر کرنی ہے تو صرف اچھے اور برے کی کرنی چاہیے۔ میرا پڑوس غلط کرتا ہے تو اس کی اصلاح ہونی چاہیے، نا کہ نفرت یا حقارت سے دیکھا جائے۔ کہیں کچھ غلط ہوا تو کیا وہاں پر سب نہیں اٹھ کھڑے ہوتے۔ برائی برائی ہوتی ہے چاہیے کوئی بھی کرے، اور اس کے خلاف سب ہی بلا امتیاز اور تفریق صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ اپنے گھر، محلے اور دکان کے پڑوسی سے لے کر اپنے صوبے اور ریاستی پڑوسی تک ہم سب کا معیار صرف اور صرف اچھائی اور برائی ہونا چاہیے۔ جہاں برائی دکھائی دے اسے مدد اور خلوص سے ٹھیک کرنا چاہیے، نا کہ تنقید کر کے اس پوری قوم کو برا بھلا کہا جائے۔