تحریر : محمد حمزہ حامی
عورت کا تصور میرے لیے ایک پیاری سعادت مند بیٹی، ایک ذمہ دار شفیق ماں، ایک محبت اور خلوص لٹاتی بہن اور ایک خیال رکھنے والی حسن و محبت سے آراستہ بیوی ہے۔پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس کے باوجود یہاں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں جن کا تعین اسلام نے کیا ہے۔ہمارے ملک میں عزت و ناموس،ونی اور کاروکاری جیسی مختلف رسموں کے تخت عورت کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور کہیں تیزاب کے ذریعے چہرہ مسخ کر دیا جاتا ہے۔دنیا 1911ء سے خواتین کا عالمی دن منا رہی ہے عورتوں کو ان کے حقوق دلانے کیلئے مختلف عالمی تنظیمیں اور ادارے کام کر رہے ہیں۔اگر سو سال کے اس عرصے پر غور کیا جائے تو خواتین کو ان کے حقوق تو شاید کم ہی مل سکے ہوں البتہ زندگی کے ہر شعبے میں ان کی نمائندگی ضرور ہو گئی ہے۔
اگرہم دورِ حاضر کو آج سے چودہ سو سال پہلے نبی پاک کی ولادت سے پہلے کے دور سے تشبیع دیں تو بے جا نہ ہو گا ۔اُس وقت عورت انتہائی ذلت و رسوائی کا شکار تھی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا،بیٹی کی پیدائش کو اپنی توہین سمجھا جاتا تھااور ہر مرد کے نکاح میں کئی کئی بیویاں ہوتی تھیںجب شوہر مر جاتا تو بیٹے اپنی ماوں سے نکاح کر لیتے تھے ۔جب کرہ’ ارض پر خورشید اسلام طلوع ہوا اور ظلم و جبر کی کالی رات چھٹ گئی تو اسلام نے عورت کو معاشرے میں یکساں مقام دیا اور اس کی حقوق مقرر کیے اسطرح عورت اس معاشرے کا حصہ بنی۔
چونکہ مرد اور عورت کا رشتہ لازم و ملزوم کا ہے اس لیے ارشاد باری تعالی ہے: ” اور عورتوں کا حق مردوں پر ویسا ہی ہے جیسے معروف طریقے کے مطابق مردوں کا عورتوں پر ہے” ( البقرة: 228) اگر ہم حدیث مبارکہ کی رو سے دیکھیں تو نبی پاکۖ کا ارشاد گرامی ہے: ” عورتوں کے بارے میں اچھی وصیت قبول کرواور وہ تمہارے پاس پابند ہو چکی ہیں” ، ” مرد اپنے اہل پر ذمہ دار ہے اور اس سے اسکی رعیت کے بارئے میں پوچھا جائے گا” (صحیح بخاری ) ترقی یافتہ ممالک کی ترقی اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی تنزلی بھی آج تک عورت کو اس کا مقام نہیں دلا سکی۔ معاشرہ کوئی بھی ہو اور عورت کتنی ہی تعلیم یافتہ اور باشعور کیوں نہ ہو وہ آج بھی ایک کمزور،مجبور، بے بس، محروم اور ڈری سہمی عورت ہے۔آج کے دور میں عورت برابری کے حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں نسوانیت کا جوہر بھی کہیں کھو بیٹھی ہے۔
عورت کی حفاظت اور نان و نفقہ مرد کے ذمے ہے۔مرد کو ایک ہاتھ اُوپر اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ عورت کا تحفظ کر سکے نہ کہ اس ہاتھ سے وہ اُسے اپنی طاقت کازعم دکھائے، اس کی توہین کرئے اور اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھائے۔کمزور تو عورت پیدا کی گئی ہے مرد نہیں،جذبات کے سانچے میں عورت ڈھالی گئی ہے مرد نہیںپھر مرد اس کے مقابل کیسے آ گئے ؟ عورت کو تو صرف مرد کی محبت ،قدر،خیال ،تحفظ اور مضبوطی کی ضرورت ہے۔ نہ کہ ظلم و تشدد کی ، یہ عورت ماں ، بہن، بیوی اور بیٹی جیسے خوبصورت رشتوں میں ہمارئے ساتھ باندھی گئی ہے۔ مرد پر لازم ہے کہ وہ اسے اسکا اصل مقام دے۔ عورت کا ایک اہم کردار ہمارئے بیچ ماں کی صورت میں موجود ہے۔ جس کے پاوں کے نیچے جنت ہے۔
یہ ماں زندگی میں ہر قسم کی مصائب اور تکلیفیں برداشت کرتی ہے مگر اپنی اولاد پر آنچ نہیں آنے دیتی پھر بڑھاپے میں وہی اولاد اپنی ماں کو اولڈ ہاوس چھوڑ آتے ہیں۔ مسلم ہونے کے باوجود ہمارے معاشرے میںعورت ہمیشہ ذلت و رسوائی کا شکار رہی ہے۔ جب عورتوں پر تشدد کے واقعات حد سے تجاوز کر گئے تو چند روز پہلے پنجاب اسمبلی میں خواتین کے تحفظ کیلئے ایک بل پیش کیا گیا جو پاس ہو گیا اب علماء برادری اس ایکٹ کے خلاف سراپا احتجاج ہے کہ ” عورت بہت جذباتی ہوتی ہے اس لیے اسے بااختیار نہیں ہونا چاہیے اس بل سے لوگوں کے گھر ٹوٹنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں”۔
اس ضمن میں میرا علماء سے یہ سوال ہے کہ آپ نے ایسا ماحول کیوں پیدا کیا کہ خواتین کو یہ بل پاس کرنا پڑا؟ علماء حضرات نے اسلام کو عورت کی معاملے میں اس قدر تنگ نظری سے پیش کیا ہے کہ جیسے عورت کو ہمارئے مذہب میں ایک ”جوتی” کی حیثیت حاصل ہے۔عورت صرف ایک عورت نہیں بلکہ ” قوموں کی معمار” ہوتی ہے ۔ ترقی یافتہ معاشرے اسی عورت سے جنم لیتے ہیں یہی عورت پڑھے لکھے معاشروں کو تشکیل دیتی ہے ۔ ہمارے ہاں خواتین کا عالمی دن بھی رسمی ہے اور صرف سیمینارز تک محدود ہے۔ کیوں؟۔
تحریر : محمد حمزہ حامی