تحریر: سمیرا قادر
زلزلہ اندوہناک قدرتی آفات ہے جو بیشتر و بیشتر آتا رہتا ہے اور اپنے ساتھہ جیگتی جاگتی حقیقتیں چھوڑ جاتا ہے۔ زندہ لوگ چند سیکنڈ میں زمین کی گود میں دفن ہوجاتے ہیں اور ماضی کی تصویر بن جاتے ہیں ڈھیروں مکانات میں جہاں چند منٹ پہلے زندگی پوری طرح مسکراہٹیں بکھیر رہی ہوتی ہے وہاں پل بھر میں سب مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ہنستے بستے لوگ موت کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔.26 اکتوبر 2015 تاریخ میں وہ باب رقم کرگیا ہے جس میں ڈھیروں زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں وہیں لاکھوں لوگ جانی اور مالی نقصانات کے ملبے تلے دفن ہوگئے چند منٹوں میں ان سے گھر کا سائبان اور ان کے پیارے چھن گئے جن کا کوء نعم لبدل نہیں۔
زلزلے میں متاثر لوگ جن تکالیف کا شکار ہیں وہ کسی اعلی عہدیدار اور حکمران سے ڈھکا چھپا نہیں ہزاروں لوگ آج کھلے میدان میں بے سروسامانی کے ساتھ وقت گزارنے کی تگ و دود میں مصروف ہیں انھیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن میں سر فہرست محفوظ چھت ہیں انھیں سر چھپانے کے لئے اور سردی سے بچنے کے لیے محفوظ چھت کی ضرورت شدت اختیار کرگئی ہے سخت سردی میں زندگی بسر کرتے لوگ حکمران کی کارگردگی پر سوالیہ نشان ہیں؟ اعلی عہدیدار اور حکمرانوں نے خوب میڈیا پر آکر ہمدردی کا اظہار کیا جو فوقتا فوقتا جاری رہا۔
امداد کا نعرہ ہر طرف سے زور و شور سے بلند ہوا مگر کسی کے ہاتھ آئی اور کوئی محروم ہی رہا مناسب انتظمات نہ ہونے کی وجہ سے امداد دور دراز کے علاقوں تک پہنچائی نہ جاسکی اور وہاں کے مکین انتظار ہی کرتے نظر آئے اور ابھی تک کوئی مناسب کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی زلزلہ زدگان لوگوں کے لیے اربوں روپے وفاق اور حکومت نے جاری کیئے پر کوئی فائدہ نہ ہوا وہ صرف جاری ہی ہوئے ملتے کسی کو نظر نہ آئے موسم کے بدلتے تیوروں اور ٹھٹرتی راتوں میں لوگ ٹینٹ میں رہنے پر مجبور ہیں۔
جو سردی کی شدت کو کم کرنے سے قاصر ہے اور ان کے خاندان کے لیے بھی ناکافی ہیں سوات میں 11 ہزار گھر تباہ ہوئے خیبرپختونواں میں 81 ہزار لوگ بے گھر ہوئے سب سے زیادہ تباہی چترال میں نظر آئی دوسرا اہم مسئلہ اشیاہ خور دو نوش کی کمی ہیں ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کوئی سامان موجود نہیں حتی کہ پینے کے لیے بھی صاف پانی میسر نہیں۔ خون جمادینے والی سردی سے بچنے کے لیے کوئی اضافی لحاف کی قلت اپنی جگہ اہم ہیں ان میں موجود معصوم بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں جو موسم کی سختیاں برداشت کرنے سے قاصر ہیں وہیں ادوایات کی کمی کی وجہ سے بیماریوں میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
جو گمبھیر صورتحال اختیار کرتی جارہی ہیں ان مسائل سے دو چار حاملہ خواتین بھی موجود ہیں جو ان مشکلات کو برداشت کرنے میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ ایسے میں انکو مناسب خوراک اور ادوایات کی شدت سے ضرورت ہے مگر یہ لوگ بے بسی اور لاچاری کی تصویر بنے حکومتی اداروں کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں ان مسائل کے درمیان ایک بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے اس آفات میں جہاں لوگ بے گھر ہوئے وہی لاکھوں لوگ بیروزگار اور ہزاروں بچے تعلیم سے محروم ہوئے قدرتی آفات میں اسکول، مکانات اور لوگوں کے روزگار بھی تباہ و برباد ہوگئے ہیں جہاں لوگوں کو اپنے گھروں کی فکر ہے وہیں بے روزگاری کی تکلیف بھی ان کو لاحق ہے۔
بچوں کے قیمتی سال ضائع ہورہے ہیں اور بے حسی کی نظر ہورہے ہیں ملک و قوم کے بچے ان مشکلوں میں کیسے اپنی تعلیمی سلسلے کو جاری رکھ سکتے ہیں ؟ ان غریبوں کی بدقسمتی کی داستان ہر روز ایک نیارخ اختیار کررہی ہے سرکاری طور پر اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ اصل میں یہاں ضرورت کس چیز کی اور کتنی ہے۔
فلاحی اداروں کو آگے آنا چاہیے اور حکومتی اداروں کو ان لوگوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے آج بھی یہ لوگ حکومتی اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں ہمارے مسلمان بھائی ، بہنیں ،بچے اور بوڑھے افراد آج بے یارو مددگار کمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں ہم سب کو آگے بڑھ کر ان کی مدد کو آگے آنا چاہیے ۔یہی ہمارا قومی اور مذہبی فریضہ ہے۔ زلزلے نے دہشت گردی سے بھی زیادہ تباہی مچائی ہے حکومت ریلیف بحالی اور تعمیرنو کے کام انجام دیں۔
اسمبلیوں اور ایوانوں میں بیٹھے لوگ کیسے ان کے مسائل سمجھ سکتے ہیں جو عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے عادی ہوں۔ ہمارے حکمرانوں کو ان کے مسائل سے آنکھیں پھیرنے کے بجائے ان کی مدد کو آنا چاہئے تاکہ یہ لوگ دوبارہ اپنی زندگی جی سکیں۔
حکومتی فریضہ یہی ہے کہ سب کو اپنی رنجیشیں بھلا کر تمام اتحادیوں کو مل کر ان لوگوں کی مشکلات کو حل کرنا چاہیے جو حل ہوتی نظر نہیں آرہی قدرتی آفات نے ہمارے حکمرانوں کی غیر ذمہ داریوں پر سے پردہ اٹھادیا ہے ہمارے زلزلہ زدگان لوگ مشکلات میں گھرے ان مسائل سے لڑنے کی کوشش کررہے ہیں جو حکمرانوں کی نااہلی کا واضح ثبوت ہے۔ زلزلے سے تباہ ہونے کے بعد کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور لاکھوں لوگوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ” نیا پاکستان” بن گیا ہے یا پرانا۔
تحریر: سمیرا قادر