تحریر: میر افسر امان
قدرتی گیس اور پٹرول اللہ کا عطیہ ہے اللہ جس قوم کو بھی چاہے عطا فرما دے۔ ہمارے ملک میں دونوں کی کمی ہے جس وجہ سے کثیر زر مبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور آئے دن اس کی لوڈ شیدنگ بھی ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان کے عوام اس کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک کی انڈسٹری گیس اور پٹرول کی کمی کی وجہ سے تقریباًبند پڑی ہے جس سے ہمارے ملک کی برآمدات نہ ہونے کے برابر ہو گئیں ہیں ملک میں اسی وجہ سے زر مبادلہ کم ہو گیا ہے گو کہ ہمارے وزیر خزانہ جو قرض لینے کے ماہر ہیں آئے روز پاکستانی قوم کو نیا قرض ملنے کی نوید سناتے رہتے ہیں اور اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہمارے زر مبادلہ میں اتنے کا اضافہ ہو گیا ہے جبکہ مانگے تانگے کے پیسے سے ملک نہیں چلا کرتے۔ ویسے بھی نو نقد تیرا ادھار کی ضرب مثل تو مشہور ہے اس ضرب مثل کے مطابق پاکستان کو ہر ڈیل پر تقریباً آدھا زیادہ دینا پڑتا ہو گا۔آئی ایم ایف کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے ملک کے کمائی دینے والے اداروں کی نجکاری کر کے ادا کئے جا رہے ہیں۔
پاکستانی آئی ایم ایف کے سودی قرضوں کے نظام میں بری طرح پھنس گئے ہیں جس کا انجام بقول ملیشیا کے سابق وزیر اعظم تنکو عبدالرحمان کہ” جس ملک کو تباہ کرنا ہو اُسے آئی ایم ا یف کے حوالے کر دو”اب تو ن لیگ کے ایک سینیٹر صاحب نے بھی کہا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کوقرضوں کے چکر میں پھنسا کر اسے دیوالیہ کرنا چاہتا ہے تا کہ اس کے آقائوں کی گریٹ گیم کے تحت پاکستان کے جوہری اثاثوں سے جان چھڑا لی جائے۔خیر بات دوسری طرف نکل گئی ہم بات کرے رہے تھے پاکستان کے دو گیس معاہدوں کی جو ایک ایران کے ساتھ پہلے سے طے ہو چکا تھا اور دوسراتاپی گیس معاہدہ جو ترکمانستان کے ساتھ ابھی ہواہے۔ تاپی گیس معاہدہ جس میںترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہے۔ پہلے معاہدے کے تحت ایران نے اپنے حصے کی گیس پائپ لین کا سارا حصہ کافی عرصے سے مکمل کر لیا ہے ۔پاکستان کے حصے کی ٧٨٠ کلومیٹر پائپ لین بچھانا ابھی تک باقی ہے۔
پاکستان کے لیے ایران پاکستان گیس معاہدہ تاپی معاہدے سے بہتر ہے اور اس پر عمل کرنے سے پاکستان کو فوراً گیس ملنا شروع ہو سکتی ہے جس پاکستان ترقی کی منزلیں طے کر سکتا ہے مگر ہمارے دوست نما دشمن امریکا کو پاکستان کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور اس نے پاکستان کو ایک ایسے منصوبے میں الجا دیا ہے جو کہ ایک تو مکمل ہونے میں کم از کم ٤ سال لگنے ہیں اور دوسرا ابھی تک طالبان جن کا افغانستان کے پیشر علاقے پر قبضہ ہے سے اجازت لینا باقی ہے۔ پاکستان ایران گیس منصوبے پر امریکا کے دبائو کے تحت پاکستان مکمل کرنے سے جان بچاتا رہا ہے۔ اب جب کہ ایران اور امریکا کے جوہری معاہدے کے تحت ایران سے اقتصادی پابندیاں ختم ہو رہی ہیں تو چاہیے تو یہ تھا کہ اس منصوبے کو مکمل کیا جاتا اور ملک کو گیس کی سپلائی فورناً شروع ہوتی تو پاکستان ترقی کے دور میں شامل ہوتا۔
نواز شریف حکومت نے امریکا کے کہنے پر دوسرے گیس کے منصوبے پر ترکمانستان سے معاہدے میں شامل ہو گیا۔ ایران پاکستان معاہدے کے مطابق پاکستان کو یومیہ ٢١ عشاریہ ٥ ملین کیوبک میٹر گیس دینے کا معاہدہ ہے۔ جس سے پاکستان میں خوشحالی آنا تھی۔ آج ہی ایران نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے نیشنل ایرانین گیس ایکسپورٹ کمپنی کے چیف ایکزکٹیو آفیسر جناب علی رضاکمیلی صاحب نے کہا ہے کہ ہم پڑوسی ملک ہیں اور قانون کے تحت کاروائی نہیں کرنا چاہتے ۔ہر ملک عوام کے اپنے مفادات ہوتے ہیںاگر پاکستان کی وجہ سے ہمارے عوام کو نقصان پہنچا تو ہم دیکھیں گے کہ ایران پاکستان گیس معاہدے کے مندرجات کیا ہیں تا کہ اس کے مطابق پاکستان سے بات کی جائے۔ معاہدے کے مطابق پاکستان کو ٢٠١٤ء تک اپنے حصے کا کام مکمل کرنا تھا جو اس نے نہیں کیا۔تاپی گیس منصوبہ جس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہے۔جو ایک طرف کہیں چار سال بعد مکمل ہو گا اور ابھی تو جس افغانستان کے راستے گیس کی پائپ لین گزرنی ہے اور جس پر طالبان کا قبضہ ہے اُس سے تو اجازت لینا باقی ہے۔ ایران پاکستان گیس منصوبے سے ہمارا دوست ملک چین نے بھی فاہدہ اُٹھانا تھا۔
وہ گوارد سے چین تک پائپ لین بچھا کراس منصوبے میں شامل ہو سکتا تھا ۔نواز شریف صاحب نے امریکا کے دبائو کے تحت ایران پاکستان گیس منصوبے کو ایک طرف رکھ کر ترکمانستان،افغانستان، پاکستان اور بھارت منصوبے پر دستخط کر کے لگتا ہے کہ چین کو ناراض کر دیا ہے۔ایک طرف تو پاکستان کہتا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کی ہمالیہ اور اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی ہے پھر امریکا کی چال میں پھنس کر اپنی صدا بہار دوست چین کوناراض کر دیا ہے۔چین کی ہمیشہ سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دینے کے اصول پر مبنی پالیسی تھی مگر اب کل ہی چین کے سفیر نے بیان دیا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے میںپاکستان اپنے سارے صوبوں کو راضی کرے۔ دوسری طرف بلوچ رہنما ئوںکے کہنے پر اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان کی ساری پارٹیوں نے شرکت کی۔
جس میں کہا گیا ہے کہ گوادر بندگاہ کا اختیار بلوچستان کر دیا جائے۔ چھوٹے صوبوں کو اقتصادی راہداری میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔سب سے پہلے مغربی روٹ کو مکمل کرنے کی بات کی گئی ہے ۔شک کا اظہار کیا گیا ہے کہ منصوبے میں نواز حکومت نے رد و بدل کر دیا ہے۔٢٨ مئی ٢٠١٥ء کے منصوبے کے تحت کام شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ نواز حکومت پاکستان کے چھوٹے صوبوں کو مطمئن نہیں کر سکی ہے جس کی وجہ سے آ ل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوا۔ پہلے بھی یہ بات سامنے آئی تھی کی چین کو بھی مغربی روٹ پسند ہے جس میں چین سے گوادر تک کم سے کم فاصلہ ہے جب کہ دوسرے کسی بھی روٹ کا فاصلہ زیادہ ہے۔ کچھ بھی ہو مگر اس معاملے میں بھی نواز حکومت کے گورننس پر بات اٹھتی ہے کہ ایک عظیم منصوبے کو بھی نواز حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے چین کو بھی مداخلت کرنی پڑی۔ پاکستان میںیہ بات عام ہونے لگی ہے کہ نواز حکومت کی نااہلی کی وجہ سے اس عظیم منصوبے کو بھی کالاباغ ڈیم کی طرح متنازہ بنا دیا گیا ہے۔
کیوں نہ پہلے سے طے شدہ متفقہ منصوبے پر کام شروع کیا گیا؟ کیوں کم سے کم فاصلہ کے روٹ کوچھوڑ کر دوسرے روٹز کی باتیں ہونے لگیں؟ اعتراض کرنے والے حکومت کے اتحادی مولانا فضل ا لرحمان صاحب اور اختر مینگل پریس کانفرنس میں کہا کہ کسی بھی پروگرام کو سامنے نہیں لایا جاتا راہداری منصوبے سے متعلق ایم اویوز اور نقشوں کو چھپایا جا رہا ہے۔ ہر معاملے کو چھپایا جاتا ہے شفایت کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔اگراعتراض کرنے والوں کی یہ بات صحیح مان لی جائے تو حکومت کے لیے شرم کی بات ہے کہ اپنے ہی لوگوں سے کیوں معاملے چھپائے جاتے ہیں جس سے شک و شبہ پیدا ہوتا ہو ۔حکومت کو فوراً جائز باتوں کو مانتے ہوئے چھوٹے صوبوں کو مطمئن کرنا چاہے تاکہ پاکستان میں ترقی کا یہ عظیم منصوبہ احسن طریقے سے پایا تکمیل تک پہنچے۔
آج اقتصادی راہداری کے متعلق آل پارٹیز کانفرنس نے کہا کہ وفاق صوبوں کو ترقی دینی ہے یا نہیں۔ رہداری منصوبہ بلوچستان کے تشخص کا مسئلہ ہے ، اٹھارویں ترمیم پر عملدرآمد ہو تو معاملات حل ہو جائیں گے۔۔منصوبے میں مقامی سرمایہ کاروں کی شرکت یقینی بنائی جائے۔شہریوں کو نئے شناختی کارڈ جاری کرنے کی مذمت، گوادر کے لوگوں کو ملازمت اور ماہی گیروں کو متبادل روزگار فراہم کیا جائے۔ جہاں تک دو گیس معاہددوں کا تعلق ہے اگر تاپی گیس منصوبے پر چار ملکوں نے دستخط کر دیے ہیں تو ٹھیک ہے اس منصوبے کو بھی جاری رہنا چاہیے کیوں کہ یہ ملکوں میں معاہدے کی بات ہے جسے پایا تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ مگر جو گیس منصوبہ بل لکل تیار ہے جس کاایران سے معاہدہ بھی ہے اور معاہدے کا ایک فریق اس پر اعتراض بھی کر رہا تو نواز حکومت کو اسے بھی فوراً مکمل کرنا چاہیے۔اس سے پاکستان میں انرجی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور معاہدے کی پاسداری بھی ہو گے جو قوموں کے وقار اور عزت کا معاملہ بھی ہے۔
تحریر: میر افسرامان
کنونینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان