تحریر : محمد صدیق مدنی
اسلام کی صداقت و حقانیت نے جب دلوں کی دنیا کو مسخر کر لیا تو وہ مذاہب جن کی بنیاد اوہام پر تھی اور وہ انسانی عقل کی اختراع تھے تلملا اٹھے۔ جن آسمانی مذاہب کی شکلیں ان کے ماننے والوں نے بگاڑ کر رکھ دی تھیں انھیں بھی اسلام کی سچائی اور صداقت سے بیر تھا اور وہ حسد و بغض کے جذبات سے مغلوب۔ اسلام کے مقابل ”شر” کا یہ عمل سامنے آیا کہ نئے نئے افکار و نظریات وجود میں لائے گئے۔ تمدنی و تہذیبی، ثقافتی و نظریاتی، سیاسی و اقتصادی ہرطرح کے حملے کیے گئے۔ لیکن یہ فطری بات ہے کہ حق و صداقت کو دوام و استقرار ہے اور باطل کو ہزیمت و زوال۔فطرت سے انحراف ہی انسانی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ اسلام سے عداوت و بغض رکھنے والے افکار و نظریات کی بنیاد چوں کہ انسانوں کے ہاتھوں بنائے ہوئے اصولوں پر تھی اس لیے ان کی ہر فکر نے انتشار و فسادکی فضا استوار کی اور تخریب و تباہی کا سامان ہوا۔ ادیان باطلہ جور و ستم کی راہ پر گام زن تھے۔ انسانی سہاگ لٹ کر رہ گیا تھا، عصمتیں تار تار تھیں، دہشت گردی کا بازار گرم تھا ایسے ماحول میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ہوتی ہے، اور دین فطرت کی ضیا پھیلتی ہے، انسانیت کی زلف برہم سنورتی ہے، سچائی راہ پاتی ہے، ہدایت و صداقت کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ منفی انداز فکر: جریدة عالم پر اسلام کے اثرات جیسے جیسے بڑھتے گئے ادیان باطلہ میں اضطراب بڑھتا گیا اور دین فطرت سے متعلق پروپے گنڈا کیا گیا کہ اسلام ایک عسکری دین ہے اور علم و فن سے اس کا کوئی رشتہ و تعلق نہیں، اس کی اشاعت بہ زور شمشیر و سناں کی گئی ہے۔ اس فکر غلط کے پرچار میں مغرب میں وجود پانے والے طبقہ مستشرقین کا زیادہ حصہ رہا، گرچہ جنھوں نے سنجیدگی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ بھی کیا اور سیرت کا تجزیہ کیا ان میں اکثر نے اعتراف کیا کہ اسلام ایک الہامی دین ہے اور یہ فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔
انسان کی بے بسی:عالمی مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی لکھتے ہیں: ”حصول علم کی اس تمام جدوجہد کے باوجود انسان صرف جزوی طور پر ہی کسی ایسی حقیقت کو پا سکتا ہے جس کا انکشاف حال میں ہو رہا ہے یا ماضی میں ہو چکا ہے۔ مستقبل کے بارے میں وہ بالکل بے خبر ہے۔ وہ استقرائی طریقے سے نتیجہ نکالنا چاہتا ہے مگر اس نتیجے پر خود اسے مکمل یقین نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں علم ہیئت سے بھی مدد لینے کی کوشش کرتا ہے مگر بے سود۔ ماضی، حال اور مستقبل کا جامع اور یقینی علم اس کے بس سے باہر ہے۔” مادیت کی ناکامی:مادی دنیا کے مشاہدے سے بہ آسانی روح کی قدر کا اندازاہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان مستقبل کا حتمی علم نہیں رکھتا۔ اس لیے انسانی فکر ٹھوس رہ نمائی نہیں کر سکتی۔ اس لیے کہ ان سب کی بنیاد مادیت پر ہے روحانیت پر نہیں، مبلغ اسلام فرماتے ہیں: ”انسان (ذہنی) سکون اور (قلبی) چین کے حصول کی خاطر لگا تار جدوجہد کرتا تو ہے مگر صرف مادیات میں، اسی لیے ناکام رہتا ہے کسی مادی سمت سے (اپنی جستجو کا) آغاز کر کے تھوڑی بہت کام یابی حاصل کر بھی لیتا ہے مگر جب اسے اپنے انتہائی مقصود کے آئینے میں دیکھتا ہے تو وہ اسے دور ہی نظر آتا ہے۔ محمدصدیق مدنی کا کہنا ہے کہ مال و دولت ، صحت و تن درستی اور شان دار عائلی زندگی بھی اسے وہ ذہنی و روحانی سکون مہیا نہیں کر سکتی جس کے ہم سب تہ دل سے متمنی ہیں، یہ چیزیں تو ضمنی عناصر کا کام ہی دے سکتی ہیں اور وہ بھی کب؟ جب مقصود کا صحیح احساس ہو۔” مشاہدے سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے: ”یہ چیز مذہبیت میں دست یاب ہو سکتی ہے جس سے روحانی اور اخلاقی دنیا کے نئے نئے افق سامنے آتے ہیں۔ مذہب ہی میں اس کی جستجو ممکن ہے کیوں کہ وہی اس کا مدعی بھی ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ (حقیقی مسرت فراہم کرنا) مذہب کا اہم مسئلہ ہے۔”
مذہب اور ازم: یہاں ایک سوال یہ بھی سر ابھارتا ہے کہ مذہب کیا ہے؟ انسانوں نے جن افکار کی تشکیل کی وہ در اصل ازم ہیں جن کی ناکامی ظاہر ہو گئی بہ زعم وہ اسے مذہب کہیں لیکن وہ مذہب نہیں، وہ رہ نمائی سے محروم ہیں۔ مولانا عبدالعلیم میرٹھی فرماتے ہیں: ” آج دنیا میں بیسیوں مذاہب، فرقے اور ازم ہیں۔ اگر اس کی تعریف یوں کی جائے کہ مذہب اس نظریے کا نام ہے جو بنیادی زندگی سے متعلق ہے اور جو مجموعی طور پر گویا فلسفہ حیات ہے تو مختلف نظریات کی کثیر تعداد کا یہی دعویٰ ہے۔ موجودہ دور میں کئی اسکالرز اور مفکر، معلم کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں،اور انھوں نے کوئی نہ کوئی ازم پیش کر کے اسی کو مذہب کا درجہ دے دیاہے۔مارکس ازم، ہٹلر ازم اور گاندھی ازم اسی کی چند مثالیں ہیں…… جب ہم سنجیدگی سے ان ازموں پر غور کرتے ہیں توپہلی چیز جو ہمیں کھٹکتی ہے یہ ہے کہ وہ سب انسانی دماغوں کی پیداوار ہیں، کتنے ہی ذہنی ارتقا سے آراستہ کیوں نہ ہوں مگر ہیں تو انسانی فکر کا نتیجہ…… انسان ہونے کی حیثیت سے ان کی اہلیت، علم اور زاوی? نگا ہ محدود تھا لہٰذا نہ تو ان کا علم یقینی ہو سکتا ہے اور نہ وہ فیصلے ہی جو انھوں نے صادر کیے۔ چناں چہ اس صورت حال میں ان ازموں اور ان کے معلموں پر ابدی نجات و فلاح اور حقیقی مسرت کے حصول کے لیے کیوں کر اعتماد کیا جا سکتاہے۔” (اس کے بعد ان کی فطری خامی کی طرف اس طرح اشارہ کرتے ہیں۔)
”معلوم ہوا کہ اولین ضرورت ہی جو ان ازموں کو معتبر بنا سکتی تھی، مفقود ہے۔ رہیں وہ غلط سلط چیزیں جو ان کی تعلیم میں بنیادی طور پر شامل ہیں سو انھیں تفصیل سے زیر بحث لانے کا یہ موقع نہیں، یہی کہنا کافی ہے کہ وہ انسانی ذہنوں کی پیداوار ہیں جو فطری طور پر نہ تو اب بے عیب ہیں اور نہ کبھی تھے۔” ٠٥٩١ء میں دعوتی سفر کے دوران مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی (شاگرد اعلیٰ حضرت محدث بریلوی)جاپان گئے جہاں دانش وروں کے ایک اجتماع میں ایک مقالہ مسلمانوں کی سائنسی کارناموں سے متعلق بہ عنوان The Cultivation of Science by the Muslims پیش کیا اس میں بھی نظریاتی یلغار کے مابین مذہب (اسلام) کی قدر و صداقت سے متعلق فرمایا تھا: ”رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف سنگھائی( Royal Asiatic Society of Shanghai ) کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میں نے واضح کیا تھا کہ سائنس اور مذہب کے باہمی تضادکا مفروضہ صرف غلط فہمیوں کی بنیاد پر ہے اور مجھے انتہائی مسرت ہوئی کہ میری اس بات کو غیر معمولی طور پر سراہا گیا۔ بلا شبہہ جن لوگوں کے نزدیک مذہب اور سائنس کے مابین تضاد موجود ہے وہ حقیقتاً مذہبی نظریہ کو غلط معانی دیتے ہیں، وہ در اصل مذہب نہیں ہے وہ دیومالائی قصے ہیں اور توہمات کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب بہ ذات خود ایک سائنس ہے۔”جیسا کہ اسلام کے سائنٹی فک مطالعہ سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ میری اس تحریر سے بھی یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے۔ مطالعہ کائنات اور خالق کائنات: مخلوق کا مشاہدہ خالق کی سمت رہ نمائی کرتا ہے۔ مبلغ اسلام فرماتے ہیں: ”جب ہم اپنے ارد گرد (ایک وسیع) کائنات، ستاروں سے بھر پور آسمان اوپر، گونا گوں مخلوق نیچے دیکھتے ہیں اور جا بجا ایک (حسین) ترتیب اور (متوازن) نمونے کا مشاہدہ کرتے ہیں توہم مجبوراً اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یقینا کسی نہ کسی مصور و صانع اور خالق کا ہونا ضروری ہے۔ جسے بجا طور پر کائنات کا موجد عظیم باعث اول کہا جا سکے۔ عقل اسے کیوں کر تسلیم کر سکتی ہے کہ یہ وسیع کائناتی نظام کسی بنانے والے کے بغیر ہی ظہور پذیر ہو گیا ہو۔ (بہ الفاظ دیگر) مخلوق خود ہی اپنے خالق کی نشان دہی کر رہی ہے۔” مبلغ اسلام کے اس نکتے پر قرآن مقدس سے ایک دلیل دینا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں، جس میں نظام کائنات میں غور و خوض کی تعلیم دے کر خالق حقیقی کی سمت رہ نمائی کی گئی ہے اور دعوت فکر بھی ہے:”بے شک آسمانوں اورزمین کی پیدائش اوررات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اوروہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کاباندھا ہے ان سب میں عقل مندوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں۔”(سورةالبقرة:٤٦١/کنزالایمان)
مبلغ اسلام کے بیان کردہ اس پہلو کی مزید توضیح انھیں کے ایک اصول سے کرتے ہیں، فرماتے ہیں:”اب ہر عقل مند کا فرض ہے کہ وہ اپنی عقل کو بہ روئے کار لائے اور سوچے کہ کیا اسے انسان کے گھڑے ہوئے نا مکمل نظریات کو اختیار کرنا ہے یا ہر چیز کے جاننے والے خدا کی طرف سے آئی ہوئی مکمل راہِ ہدایت کو……” دعوت فکر: وجود باری سے متعلق عقلاے زمانہ کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے مبلغ اسلام علامہ شاہ عبدالعلیم میرٹھی فرماتے ہیں: ”اسے معمولی عقل سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، ہر سچا اور غیر متعصبانہ فلسفہ اور سائنسی نظریہ بھی اس کا مؤید ہے۔ (یہ طے ہو چکا تو) منطقی جرح وقدح کے مطابق یہ بھی ضروری ہے کہ وہ (باعث ہستی) خلاق اکبر، ہمہ داں اور (اپنے علم و قدرت سے) ہر جگہ موجود ہے۔”……منکرین عقل سے بے بہرہ تھے اسی لیے یہ بات جو آسان بھی ہے اور مشاہداتی بھی ان کی سمجھ میں نہ آئی اور اسلام کی صداقت کا دلائل دیکھتے ہوئے بھی انکار کر بیٹھے، مبلغ اسلام فرماتے ہیں: ”حیات انسانی میں اس اعتقاد کو (وجود باری تعالیٰ کے عقیدے کو) عالم گیر حیثیت حاصل رہی ہے اس سے فقط انہی افرادنے انکار کیا ہے جن کے جذباتی تعصب نے انھیں عقل و خرد سے بے نیاز ہو کر سوچنے پر آمادہ کیا۔”
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
نظام کائنات پر تفکر یہ بتاتا ہے کہ پورا نظام کسی کے تابع ہے اور ہر ایک فطرت کے مطابق حرکت پذیر۔ دوسرے الفاظ میں کائنات کا ہر جزخدا کے احکام کی متابعت کی بنیاد پر ”مسلم” ہے:”اور اسی کے حضور گردن رکھے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے اور اسی کی طرف پھریں گے” (سورة آل عمران:٣٨)گویاان کی زندگی اسلام کی زندگی ہے۔ انبیا کا آفاقی پیغام: انسانوں کی رہ نمائی کے لیے انبیا تشریف لائے اور خدا کی اطاعت کی تعلیم دی۔ فطرت سے انحراف کرنے والوں کو مبلغ اسلام، انبیاے کرام کے مشن سے متعلق عقلی بات سمجھاتے ہیں: ”خدا سے پیغامات حاصل کرنے اور خلق تک پہنچانے کی بنا پرانھیں مذہبی اصطلاح میں رسول یا نبی کہا جاتا ہے۔ مکتبی بلکہ ہر قسم کی ظاہری تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود ، وہ بلند ترین عقل و علم کی باتیں سکھاتے ہیں۔ ” رب کریم نے انھیں چھپی باتوں کا علم دیا جسے ”علم غیب” کہا جاتا ہے اسی لیے قرآن پاک میں غیب پر ایمان لانے کی ترغیب بھی موجود ہے۔ انبیا کے پیغام کو جب فراموش کر دیا جاتا تب دوسرے نبی جلوہ گر ہوتے اور پیغام کی تکمیل فرما دیتے اور حقانیت کی راہ دکھاتے۔ بعثت انبیا کا سلسلہ جاری رہا اور آخر وہ وقت بھی آیا جب پوری انسانیت تاریکی کی نذر ہو گئی اور عالم گیر رہ نمائی کی محتاج ، …… عالم گیر اصلاح کے لیے ایک عالم گیر پیغام کی ضرورت تھی اور جس خداے واحد و یکتا نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب رسولوں کو وحی بھیجی تھی، حضرت محمد مصطفی علیہ الصلاة والسلام والتحہ والثنا کو بھی وحی بھیجی۔ وہی جنھوں نے تاریخ انسانیت میں بالکل پہلی بار خدائی حکم کے مطابق یہ دعویٰ کیا:
”اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں”(پ٩،ع٠١)
اس میں ختم نبوت کی یہ دلیل بھی مل گئی کہ دوسرے انبیا کسی خاص علاقہ یا قوم میں کام کرتے تھے لیکن سرکار اقدس صلی ا? علیہ وسلم نے جو دعوت پیش کی وہ عالم گیر تھی اور اس آفاقی دعوت سے تمام انسانیت کورہ نمائی و ہدایت ملی جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔دعوت بے مثال اور دعوت دینے والی ذات بھی بے مثل و بے مثال۔ جو نوری و خاکی ہر ایک کے لیے مشعل راہ و ذریعہ ہدایت ہے۔ اس لیے آپ کی نورانیت و بشریت کے دونوں پہلو عظمت والے ہیں آخری پیغام کی عقلی دلیل: مبلغ اسلام اپنے دعوتی اسلوب میں عقلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے جب پریس (Press) اور پیغام کو ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنے کے دوسرے ذرائع ان سائنسی کوششوں کے نتیجے میں رونما ہونے ہی والے تھے جن کا آغاز خود آپ کے غلاموں نے کیا۔ آپ کا پیغام مستقل اور ابدی ہے کیوں کہ رب تعالیٰ نے خود درج ذیل الفاظ میں اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:
”بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم خود اس کے نگہبان ہیں” (سورةالحجر:٩)
اور اس کے کامل ہونے کا اعلان یوں فرمایا ہے: ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا”( المائدة:٤) یہاں قرآن کے الفاظ میں یہی پیغام کھل کر سامنے آتا ہے: جس میں اسلام کے اصولوں پر عمل بالخصوص سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کی ترغیب،حقیقی مسرت کے حصول کا راز اور قوانین الٰہی کی اطاعت و پیروی کی تلقین بھی ہے……سچی مسرت اور حقیقی کامرانی خداے تعالیٰ کے مقرر کردہ اور برگزیدہ رسولان کرام کے لائے ہوئے قوانین کے مطابق زندگی کے جسمانی اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کی متوازن نشو و نما ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے…… قوانین اسلام پر عمل کرنے کے نتیجے میں سکون قلب، تسکین روح اور مسرت کا حصول ہو گا۔ کیا رب قدیر نے جو ہم پر والدین سے زیادہ مہربان ہے اور جس نے اسی بنا پر اپنے رسولان کرام علیہم السلام کے ذریعے ہماری رہ نمائی کا بندوبست فرمایا، اپنے ذکر کا کوئی بہترین طریقہ بھی سکھایا ہے، کیا عبادت کی معینہ صورتیں یا ایک ہی وقت کی عبادت سود مندیا کافی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمارے دماغ میں ابھرتے ہیں، اور جن کا جواب خود قرآن حکیم نے دیا ہے، ہمیں حکم ہے کہ پانچ دفعہ تو فرض نمازیں ادا کریں اور ان کے علاوہ زندگی کا لمحہ لمحہ اپنے رب کی یاد سے معمور رکھیں، الہامی کلام کے الفاظ میں:”جواللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے” (آل عمران:١٩١) اذانِ سحر: مبلغ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی اسلام پر ثابت قدمی کا پیغام عقیدے کی بنیاد پر ان الفاظ میں دیتے ہیں جن میں ادیان باطلہ کی تردید کے ساتھ ہی تنبیہ بھی ہے اور قلبی واردات کی کیفیت بھی:”خبردار! خدا ہی آپ کا مالک حقیقی اور شہنشاہ ازلی ہے، اس کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر کے اس کے رسولوں کی اتباع کیجیے، جن میں آخری حضرت محمد مصطفی علیہ التحیہ والثنا ہیں۔ اسی راستے پر خود چلیے اور اسی کی دوسروں کو تلقین کیجیے اور اسی پر چل کر فوز و فلاح، ابدی سکون اور دوامی مسرت حاصل کیجیے۔”اس پیغام کو ہم ”اذانِ سحر” بھی کہہ سکتے ہیں جس میں حق کی اشاعت کا جذبہ صادق موجود ہے، جس سے گلستان حیات میں تازگی کا احساس ہوتا ہے، اقبال رح نے کہا تھا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
اسلام فطرت کا دین ہے۔اس فطرت سے انحراف کی بنیاد پر ہی دنیا طرح طرح کے مسائل سے گزر رہی ہے۔ انسانی مسائل کا حل صرف اسلام میں ہے اور حق کی راہ روشن ہے، خوب واضح ہے اور اسی میں حقیقی مسرت و کامیابی ہے اور انسانی فلاح و فوز کا ساماں بھی:
ترے دین پاک کی وہ ضیا کہ چمک اٹھی رہِ اصطفا
جو نہ مانے آپ سقر گیا کہیں نور ہے کہیں نار ہے
تحریر : محمد صدیق مدنی