تحریر : نعمان قادر مصطفائی
ارض وطن اس اعتبار سے خوش نصیب ہے کہ قدرت نے اس کے ایک ایک ذرے کو نعمتوں سے مالا مال کیا ہوا ہے ، چاروں موسموں سے نوازا ہے ، دریا ئوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے ،، معدنی ذخائر کا صحیح اندازہ ابھی تک نہیں ہو پایا کہ کیا کچھ اس سر زمین کے سینے میں پو شیدہ ہے ، پہا ڑوں کا ایک طویل سلسلہ ہے ، آبشاریں قطار اندر قطار مو جو د ہیں ، پھلوں پھو لوں اور سبزیوں کی کوئی حد نہیں ، ہر موسم میں فصلوں اور اجناس کا انبار لگا ہو تا ہے ، علم ، فن اور ہنر کا معیار کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں ،اس خاک پاک کے ہر فرد کی پیشانی پر بے پناہ امکا نات کی روشنی پھوٹ پرتی ہے مگر پھر بھی ہمارے ہاتھوں میں کاسہ ء گدائی ہی آپ کو نظر آئے گا نا اہل ۔ بد دیانت ، حرام خور ، رشوت خور ، سود خور ، مالِ یتیم خور ”سیاسی یتیم ” قیادتوں نے قوم کو اس نہج تک پہنچا د یا ہما رے ملک کے وڈیرے ، جاگیر دار ، لُٹیرے ، سر مایہ دار ملک کو اس طرح چوس رہے ہیں جس طرح جونکیں خو ن چوستی ہیں ، حالانکہ میرا وطن چاند کی مانند ہے اور میرے وطن کی زمین پھولوں جیسی ہے ، میرے وطن کی زمینیں سو نا اُگل رہی ہیں ، لہلہاتے کھیت ، سر سبز و شاداب وادیاں میرے وطن کی عظمت اور ترقی کی علامت ہیں ،مگر کیا کیا جائے اِن لُٹیرے سیاستدانوں کا جنہوں نے میرے ملک کے ساتھ سو تیلی ماں سے بھی ابتر سلوک کیا ہے 14اگست کے موقع پر ہمارے سُوٹِڈ بُوٹِڈ حکمران نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ”مجھے معلوم ہے کہ ہماری قوم کی محرومیاں بہت زیادہ ہیں انشاء اللہ بہت جلد یہ محرومیاں ختم کر دیں گے ” سبحان اللہ ، کیا کہنے !”غریب پرور”حکمرانوں کے ، جنہوں نے قوم کو مژدہ جان فزا سنا دیا کہ محرومیوں کا جلد خاتمہ کر دیا جائے گا ، غربت کا نام و نشان نہیں رہے گا ، بے روز گاری کا خاتمہ ہو گا ، تمام لوگوں کو انصاف اُن کی دہلیز پر میسر ہو گا ، غریب اور امیر کے بچے ایک ہی سکول میں تعلیم حاصل کریں گے ، تھا نہ ، کچہری میں غریب کی عزت پا مال نہیں ہو گی ،
معاشرہ کے محروم طبقات کو تحفظ فراہم کیا جائے گا ، قارئین کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہوں یہ سب کچھ خواب میں دیکھ رہا تھا ، کاش ایسا ہو جائے مگر جب تک اس ملک کی تقدیر کے مالک چیمے ، چٹھے ، نون ،ٹوانے ، مگسی ، اِچلانے ، تھند ، قریشی ، جکھڑ ، سواگ ، اولکھ ، پیر چمچیر ،دولتانے ، چوہدری ،سیہڑ ، کھوسے ، لغاری ، مزاری ،لا شاری بنے رہیں گے اُس وقت تک ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے دعوے دھرے کے دھرے ہیں ، کچھ بھی نہیں سُدھر سکتا سارے کا سارا نظام ایسا ہی رہے گا بلکہ اس سے بھی ابتر ہو گا ! لہذا ضرورت اس امر کی ہے اِن لُٹیروں سے جان چھُڑانے کے لیے پوری قوم اُٹھ کھڑی ہو اور اِن لُٹیروں کا دھڑن تختہ کر دے اور آئندہ الیکشن میں صاف سُتھرے کردار کے حامل لوگ سامنے لائے جائیں تاکہ قیامِ پاکستان کا مفہوم پورا ہو سکے ، جنوبی پنجاب کے عظیم شاعر شاکر شجاع آبادی نے درست کہا ہے کہ
جیویں عُمر نِبھی اے شاکر دی
ہک منٹ نبھا پتہ لگ ویندے
ہمارے حکمرانوں کو کیا معلوم کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کتنے گھروں میں چولہا جلا ہے ؟اور کتنے ایسے لوگ ہیں جو ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایڑیاںرگڑ رگڑ کے مر گئے ؟ملک میں نہ گیس ہے نہ پانی ، نہ بجلی اور نہ ہی پٹرول مل رہا ہے پورے 7دن جس طرح پٹرول کے حصول کے لیے عوام کو خجل خوار ہونا پڑا وہ سب کے سامنے ہے ۔۔۔عزم و ہمت کی دنیا کے شہنشاہ حضرت عمر فاروق کااپنے دور ِ حکومت میں فرمایا ہوا وہ جملہ آج بھی تاریخ کے ماتھے پر جھومر بن کر چمک رہاہے کہ ”اگر دریائے فرات کے کنارے کتے کا بچہ بھی بھوکا ،پیاسا مر گیا تو اس کا ذمہ دار عمر ہو گا ” آج کتنے انسان بھوکے پیاسے مر رہے ہیں کسی کو کوئی غرض نہیں ہے ،سینکڑوں لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں ،غریب عوام کا کوئی پر سانِ حال نہیں ہے !غریب بوڑھے پنشنرز قطاروں میں لگ کر ذلت و خواری کی تصویر بنے نظر آتے ہیں اور بعض تو اپنی زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں مہنگائی اور غریبوں کے غم ِ حالات زندگی ، پریشان حال غریب عوام کے بارے میں حبیب جالب مرحوم نے کیا خوب کہا
ہم ہیں اور کاسہء گدائی ہے میرے مولا تیری دھائی ہے
تیرے شہکار نے فلک والے کیا قیامت زمین پہ ڈھائی ہے
شہر سر مستیوں میں ڈوبے ہیں اور قصبوں پہ آفت آئی ہے
اے خدا ظلم سے بچا اس کو بڑے دکھ میں تیری خدائی ہے
مرحلہ یہ بھی کر ہی لیں گے طے دن گزرا ہے تو رات آئی ہے
اس حسین دیس کی انا جالب بدخصالوں نے بیچ کھائی ہے
ہم بظاہر آزاد مگر ذہنی طور پر غلام حکمرانوں کی رعایا ہیں قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد قوم کو ایسا لیڈر تادم تحریر میسر نہیں آسکا جو قوم کی حقیقی معنوں میں تر جمانی کر سکے ،بد دیانت اور کرپٹ حکمرانوں نے ہمیشہ عوامی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دی ہے اور آج بھی سوئس بینکس کے اکائونٹس منیجراور ڈائریکٹرز اس بات کے گواہ ہیں کہ” پاکستانی عوام نہایت غریب اور حکمران امیر ہیں ہمارے ”غریب پرور ”حکمرانوں اور سیاستدانوں کے 140لاکھ کروڑسوئس بینکوں میں جمع ہیں اگر وہ ساری دولت پاکستان آجائے تو بغیر ٹیکس لگائے30 سال تک بجٹ دیا جا سکتا ہے اور حکومت کو ایک بھی چیز پر ٹیکس نہیں لگا نا پڑے گا ،سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہماری عوام کے ”خیر خواہ ”حکمرانوں کے پیسوں سے 6کروڑ لوگوں کو ملازمتیں دی جا سکتی ہیں اور پاکستان کے کسی بھی گائوں سے 4لین کی سڑک بنا کر اسلام آباد تک پہنچا ئی جا سکتی ہے جبکہ موٹر وے لاہور تا اسلام آباد تک 3لین ہے ،زندگی بھر کے لیے 500سوشل پروجیکٹس قائم کر کے ان کو مفت بجلی فراہم کی جا سکتی ہے ،سوئس بینکس میں پڑی ہوئی رقم سے اگر 2ہزار روپیہ ماہانہ ہر پاکستانی کو دیا جائے تو 60سال تک یہ خزانہ ختم ہی نہ ہو ،
ایسی صورتحال میں ہمیں کسی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو،مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ رقم لائے کون؟ کس حکمران اور سیاستدان کا دل گردہ ہے کہ لوٹی گئی رقم کو واپس اپنے ملک میں لائے اگر واپس ہی لانا ہے تو پھر لوٹا کیوں ہے ؟ہمارے حکمرانوں کا تو فقط اپنی مٹی سے اتنا ہی رشتہ ہے کہ بس وہ صرف ”حق ِ حکمرانی ”ہی رکھتے ہیں ورنہ ان کی تو اس وقت اولادیں بھی باہر اور جائیدادیں بھی باہر کے ملکوں میں محفوظ ہیں ، حکمرانوں کی ہوس اور نیچر کا تو یہ حال ہے کہ مشکل وقت میں اپنی دھرتی سے ناطہ توڑ کر جاتے جاتے بھی ”ہاتھ” صاف کر جاتے ہیںورلڈ گولڈ کونسل نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ”2010ء میں بینک کے پاس تیونس کے صدر زین العابدین کا 8.6ٹن سونا موجود تھا جبکہ اب تقریباََ3.5ٹن سونا موجود ہے ”اسی طرح مصر کے اقتدار کے سنگھاسٹن پر 30سال تک بلا شرکت غیرے حقِ حکمرانی جتلانے والے شہنشاہ حسنی مبارک کی بھی تمام تر دولت یورپ اور امریکہ کے بینکوں میں جمع ہے اورمصر کے کسی ایک بینک میں بھی حسنی مبارک کا اکائونٹ تک نہیں ہے ہر طرف کرپشن کی نئی نئی کہا نیاں جنم لے رہی ہیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 3سال سے پاکستان میں کرپشن میں زبر دست اضافہ ہوا ہے پاکستان اس وقت دو طبقاتی نظام میں گھرا ہوا ہے ایک طرف حکمرانوں کا شاہانہ طرزِ زندگی اور دوسری طرف غریب اور بے بس عوام کا مظلومانہ اور بے رحمانہ طرزِ زندگی !گزشتہ سال عالمی بینک نے3کروڑ50لاکھ ڈالر کی منظوری دی مگر اس پیسے کا آج تک کسی کو بھی پتہ نہیں ہے کہ وہ کہا ں اور کس مد میں خرچ ہوا ہے؟
ہمارے ٹیکس خور حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت نے ٹیکس ہی جمع نہیں کرایا اور گزشتہ سال رتی برابر ٹیکس نہیں دیا ،ایسے ٹیکس خور اور بد دیانت ”راہنمایانِ ”قوم سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ قوم کی کسی بیٹی ”شمائلہ”یا ”بشریٰ ”کو انصاف مہیا کریں گے ؟بابا گرو نانک نے کہا تھا کہ ”سُچی تے ہمیشہ سُتی ”سچ کے سانچے میں ڈھلے لوگ کسی سے بھی نہیں ڈرتے اور ہمیشہ پر سکون زندگی بسر کرتے ہیں اور جو لوگ کسی کے ”کانڑیں ”ہوں وہ ہمیشہ اپنے سروں کو جھکائے ہی رکھتے ہیں ہمارے حکمران امریکہ ”بہادر ”کے زر خرید غلام ہیں اور انہوں نے ہمیشہ حکمرانی کا ”حق ” ادا کیاہے انہیں اس چیز سے غرض نہیں ہے کہ عوام کیسے زندگی کے شب و روز بسر کر رہی ہے ؟اب ہماری عوام کو بھی اپنے گھروں سے نکلنا ہوگا اور منبر و محراب کے وارثین اور خانقاہوں کے سجادہ نشینوں کو بھی ایسے حالات میں قوم کی صحیح راہنمائی کا فریضہ سر انجام دینا ہوگا اگر اب بھی ہماری خانقاہوں کے سجادگان اور منبر و محراب کے وارثان اپنے اپنے حجروں اور خانقاہوں میں بیٹھے لٹی پٹی عوام کا تماشہ دیکھتے رہے تو پھر رہے نام اللہ کا ! وقتی طور پر ہم رو بھی لیں گے ، آہ و زاری بھی کر لیں گے ، قوم کی قسمت تو ویسی کی ویسی ہے اور رہے گی !
تحریر : نعمان قادر مصطفائی
03314403420