تحریر : ایم سرور صدیقی
آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان (مفہوم) ہے چاند، ستارے اور سورج ایک ترتیب سے چل رہے ہیں رات سے پہلے دن نہیں آسکتا اور دن سے پہلے رات نہیں ہرکوئی اینی حد میں ہے اور اپنے مدارکے گرد گھوم رہاہے۔۔۔ آپ نے ٹریفک جام کے مناظر تو اکثر دیکھے ہوں گے، کبھی ایسی صورت ِحال سے سابقہ پڑ جائے تو براحال ہو جاتا ہے جلدی نکلنے کی کوشش میں قطاریں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں نتیجةً گاڑیاں ایک دوسرے میں پھنس کر ٹریفک کو مزید الجھا دیتی ہیں۔
موٹر سائیکل سواروں کو تھوڑی سی بھی جگہ مل جائے وہ اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرورکرتے ہیں در اصل ترتیب کا اپنا ایک حسن ہوتاہے دلکش انداز،ترتیب ہر لحاظ سے بھلی لگتی ہے، ترتیب میں ہی خوبصورتی ہے کہتے ہیں اس کی وجہ سے کام آسان ہو جاتے ہیں ترتیب سلیقہ ہے۔۔۔ قرینہ ہے اور فطرت کا سبق بھی۔۔۔اس کے برعکس بے ترتیبی کووحشت سے تعبیرکیا جا سکتاہے بے ترتیبی جس عمل میں بھی شامل ہو جائے وہ الجھ جاتی ہے جیسے دھاگے کے پیچ وخم گنجھل ہونے سے ایک دوسرے میں ایسے گھل مل جاتے ہیں کہ ان کو جدا کرنا مشکل۔۔۔۔ہم پاکستانی بھی اسی بے ترتیبی کا شکارہیں بچپن سے بڑھاپے بلکہ لحدتک کسی قائدے،طریقے، سلیقے اور ترتیب سے بے نیاز۔۔۔بیشترکی کوشش اورخواہش یہی ہے کہ یہ وقت جیسے تیسے گذر جائے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر حکومت انہی ”ڈنگ ٹپائو” پالیسیوں کے سہارے اپنی مدت گذاردیتی ہے یقینا اسی وجہ سے ملک مستقبل کی منصوبہ بندی سے سے محروم رہتاہے ہر حکمران کو فقط اپنا اقتدار عزیزہے وہ زیادہ تر اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے بارے میں سوچتا رہتاہے شایدکوئی سردرد لیناہی نہیں چاہتا۔
دنیا بھرکے زیادہ ترممالک میں قانون نافذکرنے والے اہلکاروںکے پاس جدید ترین وسائل موجودہیں وطن ِ عزیز میں وہی ڈانگ سوٹے۔۔۔پھر یہ کہا جائے دہشت گردی ختم نہیں ہوتی یاجرائم پھل پھول رہے ہیں تو یہ بات کتنی مضحکہ خیز لگتی ہے ۔سرکاری ملازمین کی روایتی بے حسی،ہڈ حرامی اور فرائض سے غفلت بھی بے ترتیبی کی بگڑی ہوئی شکل ہے یہاں تو ہر شخص اپنے اختیارات سے تجاوز بڑے دھڑلے سے کرتا پھررہاہے اور اس پر اِترانا گویا کمال ِ حسن ہے اسی لئے کارکردگی زیرو اور ایک شخص ہاتھ میں2کلاشنکوفیں پکڑکر پورے اسلام آبادکو کئی گھنٹے تماشا بنا سکتاہے یہ سب ہمارے ان اداروں کیلئے لمحہ ٔ فکریہ ہے جو شہریوںکی جان و مال کے محافظ ہیں لیکن کسی کو فکرنہیں در اصل ترتیب سے عاری لوگ ڈسپلن کے پابند نہیں ہوتے یہی خرابی کا آغازہے غورکیا جائے تو محسوس ہوگا کہ بے ترتیبی نااہلی کو جنم دیتی ہے۔
حسن ِ اتفاق سے پاکستان کے ہر ادارے میں نااہل قطار اندر قطار موجود ہیں اور جب کوئی واقعہ یا سانحہ رونماہوتاہے تو سب کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں پاکستان کے قومی ادارے بھی اسی لئے تباہ ہورہے ہیں۔۔ چاند، ستارے اور سورج ایک ترتیب سے چل رہے ہیں اور سو چنے کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانیوںکی کوئی ترتیب ہی نہیں۔۔۔یہ ایسا المیہ ہے جس نے ہمیں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اس کے برعکس جن اداروں میں ترتیب کو اہمیت دی جاتی ہے۔
ڈسپلن ہے ،نظم و ضبط ۔قائدہ اورقانون ہے ان کی کارکردگی مسلمہ ہے اس کی بڑی مثال” پاک فوج”کی دی جاسکتی ہے جس کا شمار دنیا کی بہترین جنگجوافواج میں کیا جا تاہے۔۔کئی سال پہلے جب ریسکیو1122کا آغازکیا گیا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ایسا ادارہ پاکستان میں بھی قائم کیا جا سکتاہے درحقیقت اس کے اجزائے ترکیبی میں ترتیب کا بڑا عمل دخل ہے۔۔کسی حادثہ کی اطلاع سے ایمبولینس کی آمد اور متاثرین کوفوری طبی امدادکی فراہمی سے ہسپتال تک رسائی۔۔ کوئیک سروس کی بہترین مثال ہے یہ سب کچھ ایک ترتیب سے ہی ممکن تھا۔۔۔جس کائنات میں ہم رہ رہے ہیں اس کا وجود،اس کاسسٹم ترتیب ہی کے مرہون ٍ منت ہے، دنیا کے تمام فارمولے،ادویات کی تیاری،لذیذ لذیذ کھانوںکی ریسیپی ترتیب کی ہی محتاج ہے کھانوں کوہی لے لیجئے کسی مصالحہ ، نمک یامرچ کی کمی یا زیادتی ذائقے کو متاثرکرتی ہے شاید آپ کو یاد ہو گذشتہ سال پنجاب کارڈیالوجی میں سینکڑوں اموات محض اس غفلت کی وجہ سے ہوگئیں کہ ایک دوا میں کوئی کیمیکل کی ڈبل مقدار شامل ہوگئی تھی۔
یعنی ترتیب متاثرہوئی تو جان بچانے والی دوا جان کی دشمن بن گئی۔ماہرین ِ فلکیات کا کہنا ہے کہ سورج جس ترتیب سے محوِسفرہے اگر اس کی ترتیب تھوڑی بہت بھی الٹی سیدھی ہوتی تو دنیا کا نظام ہی عجیب و غریب ہوجاتا کہیں اتنی گرمی ہوتی کہ زندہ رہنا مشکل ہوتا یا اتنی سردی کہ ہر چیز منجمندہو جاتی یا کہیں سارا سال شدید یارش اور آندھیاں آتیں مطلب یہ ہے کہ اس کی ترتیب انتہائی پرفیکٹ ہے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بہترین مظہرہے۔میں اکثراوقات سوچتاہوں ہم پاکستانی بھی عجب بے ترتیبی کا شکار ہیں۔
بچپن سے بڑھاپے بلکہ لحدتک کسی قائدے،طریقے، سلیقے اور ترتیب سے بے نیاز۔۔۔ اسی طرح ہمارے قبرستانوں میں بھی بے ترتیبی کا برملا اظہارہوتاہے ٹیڑھے میڑھے پگڈنڈی نما راستے،کچے اونچے نیچے دھول سے اٹے یاپھر خودروپودوں سے بھرے راستے ۔۔کہ جنازوں کا گذرنا بھی محال۔۔۔قبروں کے ساتھ جڑی قبریں ، اونچی ،نیچی دائیں بائیں چھوٹی بڑی قبروںکا عجیب حال، بے ترتیبی کی داستان در داستان۔۔قبروں پر بے ہنگم جھاڑیاں، خودروپودے اور درخت۔۔۔ وحشت ہی وحشت” کئی قبرستانوں میں لینڈ مافیا کے قبضہ ۔ کہیں گورکنوں کی سلطنت ، کہیں بااثر افراد کے احاطے ،مزار ،پختہ چبوترے کوئی قبر بے نام ونشاں ،ٹوٹی پھوٹی۔۔۔ ”مرکے بھی سکوں نہ پایا تو کدھر جائیں گے” کی عبرت ناک مثالیں۔۔۔برصغیرمیں مسلمانوں کے زیادہ تر قبرستان کسی بھی ترتیب سے محروم اور لوگ احساس سے عاری۔۔۔عملی زندگی میں ہم سب جس ڈسپلن اورنظم کے عادی نہیں اس کا برملا اظہار آخری آرام گاہوں سے نظر آتا ہے۔
اس کے برعکس وسیع و عریض عیسائی قبرستانوں کے پختہ راستے، ایک ترتیب سے قبریں اور ہر قبرپر کتبہ۔۔۔سبزہ ، ہریالی ۔ لگتاہے جیسے ہم کسی باغ میں آگئے ہوں یا پھرکوئی پکنک پوائنٹ ایسے قبرستان میں روایتی خوف بھی کم آتاہے ہمارے قبرستانوں میں رات کو ہوکا عالم،روشنی نہ ہونے کے برابر، ٹوٹی،پھوٹی اور و شکستہ چاردیواری ۔۔ جیتے جی اپنے پیاروں پر ہم جان قربان کرنے کے دعوے کررہے ہوتے ہیں مرنے کے بعد ان کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا کتنی بڑی ستم ظریفی ہے ۔۔۔ سوچتاہوں آخرکب تلک بے ترتیبی ہمارا مقدر بنی رہے گی ہم غورکیوںنہیں کرتے ترتیب فطرت کا حسن ہے اورہم فطرت کے خلاف اپنی عادتوںکو کیونکرراسخ کرتے چلے جائیں گے حالانکہ ترتیب سلیقہ ہے۔۔۔ قرینہ ہے اورقدرت کا درس بھی ۔۔ادراک بھی۔اس کے برعکس بے ترتیبی کووحشت سے تعبیرکیا جا سکتاہے شاید اسی لئے ہم وحشیوںکو کہیں سکون نہیں۔۔ویسے ایک بات ہے جولوگ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں انہوںنے یقینا اچھی منصوبہ سازی کی ہوگی کوئی اچھی پلاننگ ترتیب کے بغیر کامیاب ہو ہی نہیں سکتی۔
ترجیحات کا تعین،بڑے سے بڑا منصوبہ یا زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی ترتیب کی محتاج ہے یہ کتنی بدقتمتی ہے عام آدمی سے حکمرانوں تک بیشتر ترتیب کو اہمیت نہیں دیتے کوئی شخص بائیک پر کہیں جانا چاہتاہو ٹائروں میں ہوا کم ہویا گاڑی میں پٹرول ہی نہ ہو وہ سفر کرہی نہیں سکتا یعنی جو کام پہلے کرنے والاہو اسے پہلے ترجیحی بنیادوںپرکرنا ترتیب کہلاتی ہے کام ترتیب سے ہوں تو کام کرنے کا بھی مزا آتاہے اور ہم کب تک بے مزا زندگی گذارتے رہیں گے۔کبھی سوچا آپ نے ؟۔۔۔نہیں سوچا تو آج۔۔۔ بلکہ ابھی سے سوچنا شروع کردیجئے ترتیب کو ملحوظ ِ خاطررکھئے منزل آسان ہوتی چلی جائے گی۔
تحریر : ایم سرور صدیقی