counter easy hit

نوید یا مرثیہ واضح تو ہو

Naveed clear

Naveed clear

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے آخرکاروزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف صاحب نے ایوان کو اپنا دیدار کروا دیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ بھی کہ میاں صاحب کے نو رتن ان کی پارلیمنٹ یاترا کو بجائے اس کے کہ ایوان کی ضرورت سمجھیں بلکہ انہوں نے پرویزانہ منطق یہ ملائی کہ وزیر اعظم نے جیسے ایوان کو کچھ وقت دے کر اس پر احسان عظیم فرمایا ہے۔ یہ شاید وہی ایوان ہے جس میں آنے کے لیے انتخابات سے پہلے عوام کے سامنے ترلے کیے جاتے ہیں اور جب منتخب ہو جائیں تو اس ایوان کو یوں بھول جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
ایوان کا موجودہ اجلاس اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ اس میں پانامہ لیکس پہ وزیر اعظم نے اپنے اور اپنی فیملی پر لگے الزامات کا جواب دینا تھا لیکن شومئی قسمت یا جان بوجھ کر پہلے دو خطابات کی طرح یہ خطاب بھی ناکام ہی نظر آیا اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ دبئی کی مل بیج کر جدہ میں مل بنانے سے لے کر لندن میں جدہ والی مل بیچنے اور لندن میں اسی پیسے سے فلیٹ خریدنے تک کسی بھی جگہ محترم میاں صاحب قابل ذکر جواز نہ پیش کر سکے۔ اتفاقیہ صنعت کے قومیائے جانے سے لے کر دوبارہ اس کے آغاز اور دبئی کے حکمرانوں کے ہاتھوں گلف سٹیل ملز کے افتتاح تک وزیر اعظم صاحب کسی بھی جگہ اپنے موقف کو بہتر انداز میں پیش کرنے پر ناکام نظر آئے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وزیر اعظم جس طرح پہلے دو خطابات میں تیاری سے عاری نظر آئی وہی صورت حال ایوان میں بھی قائم و دائم رہی یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کے مشراء صاحبان نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جو ان کو بہتر طور پر تیاری نہیں کروا سکے کہ کس طرح ایوان کا سامنا کرنا ہے۔ دوسری طرف اگر اپوزیشن کے کردار کا جائزہ لیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہر کوئی اس فکر میں غلطاں نظر آتا ہے کہ اگلے پانامہ لیکس کے پارٹ میں ان کا نام نہ آ جائے شاید یہی وجہ ہے کہ خورشید شاہ صاحب نے ہتھ ذرا ہولا ہی رکھا ہوا ہے۔ وہ صرف وقتی شور کا سہارا لے رہے ہیں ورنہ نظر ایسا آتا ہے کہ ان کو صرف ایک ہی ٹاسک ملا ہوا ہے کہ کس طرح عمران خان کو گھمن گھیریوں میں گھمائے رکھنا ہے۔
موجودہ حالات میں اپوزیشن کی طرف سے خورشید شاہ صاحب سے زیادہ اعتراز احسن کے الفاظ کی گونج نسبتاً زیادہ ہے۔ اور کچھ بے وقوف قسم کے خبری تو یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ اعتزاز کی للکار کا ماخذ حقیقت میں شاہ جی ہیں ہی نہیں بلکہ ان کے لفظوں کا ماخذ ہی کچھ اور ہے اس لیے ان کی للکار میں کڑک بھی زیادہ ہے اور گرج بھی۔ ورنہ اپنے شاہ جی تو دوستانہ سا میچ کھیلنے کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔
اندریں حالات اپوزیشن اس وقت صرف کچھ وقت گزارنے کے موڈ میں نظر آتی ہے تو حکومت وقت شاید اپوزیشن کو یہ باور کروانے کے چکر میں ہے کہ حضور ہمارے پاس بھی آپ کے کچھ سربستہ راز موجود ہو سکتے ہیں جو ضرورت پڑنے پہ ہم مارکیٹ میں لا سکتے ہیں۔ ان تمام حالات میں جس پارٹی کا سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے وہ پاکستان تحریک انصاف ہے۔ عمران خان سنا ہے پارلیمنٹ میں پوری تیاری کے ساتھ گئے تھے۔ لیکن عین وقت پہ ایوان کی کاروائی کا بائیکاٹ کرنے سے ان کے سارے پلان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ کچھ مار تو عمران خان کو دوسری پارٹی کے کرتا دھرتا بھی پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن عمران خان کو اپنی پارٹی کے اندر موجود کچھ تگڑے عناصر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ بادی النظر میں لگتا ایسا ہی ہے کہ کچھ لوگ اور کچھ عناصر یہ نہیں چاہ رہے کہ عمران خان پوری طاقت سے بھرپور اپوزیشن کا کردار نبھائیں۔ اور میاں صاحب نے جس طرح بناء نام لیے عمران خان ہی کو ایوان میں للکارا اس سے اندازہ کرنا ہرگز مشکل نہیں ہے کہ میاں صاحب کو خطرہ شاہ صاحب سے نہیں ہے بلکہ وہ بھی حقیقی اپوزیشن عمران خان کو ہی سمجھتے ہیں۔ اور اس وقت تک وہ اس طرح بھی کامیاب نظر آتے ہیں کہ عمران خان شاہ جی کے پلو سے بندھے ہوئے کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں۔
آنے والے دنوں میں پانامہ لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہی ہے کہ یہ وقتی ابال سا ثابت ہو رہا ہے۔ اپوزیشن اس معاملے پہ کسی سنجیدہ احتجاج کے حق میں نظر نہیں آتی اسی لیے پی پی پی پی پہلے ہی رائے ونڈ کے گھیراؤ سے انکار کر چکی ہے باقی پارٹیاں بھی اس کا ساتھ نہیں دیں گی۔ لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے موجودہ حالات نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو دھندلا سا دیا ہے اور کچھ واضح نہیں کہ آنے والے دن کوئی نوید سنا رہے ہیں یا کوئی مرثیہ۔