اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن دراصل اسٹیٹ کے ساتھ فراڈ کرتا ہے، بحریہ ٹاؤن پلاٹ ٹرانسفر لیٹر سے کس طرح ٹرانسفر کرتا ہے؟ پلاٹ ٹارنسفر کی بجائے رجسٹری ہونی چاہیئے، بحریہ ٹاؤن میں ٹرانسفر ڈیڈ کی مد میں 14 ارب روپے اکٹھے کیے ہیں جو اب عدالت وصول کرے گی۔پبلک نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن پلاٹ ٹرانسفر اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے معاملے میں آج ایک اہم پوائینٹ سامنے آیا ہے، جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن میں جتنے بھی پلاٹ ٹرانسفر کیے گئے وہ ایک لیری کے اوپر کیے گئے جبکہ ان پلاٹوں کی رجسٹری نہیں کی گئی۔ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو 14 ارب روپے پلاٹوں کی ٹرانسفر کی مد میں دبایا گیا تھا وہ عدالت بحریہ ٹاؤن سے وصول کرے گی۔ بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے عدالت کو جواب میں بتایا کہ ڈی ایچ اے میں بھی پلاٹوں کی الاٹمنت کا یہی طریقہ کا ر ہے جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پلاٹوں کی الاٹممنٹ میں باقاعدہ قانونی طریقہ کار استعمال کیا جانا چاہیئے تھا جو کہ رجسٹری ہے، قانون سبب کے لیے برابر ہوتا ہے۔ عدالت کی جانب سے آج واضح طور پر ڈائریکشن دی گئی ہے کہ جو ایک قانونی پراسس ہے وہی اختیار کیا جائے گا، مستقبل میں تمام تر قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی جائے گی، آئندہ جو بھی پلاٹ الاٹ کیے جائیں گے وہ ٹرانسفر لیٹر کی بجائے باقاعدہ رجسٹری کی ذریعے الاٹ کر دیا جائے گا، اس سارے عمل کعو کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جو لوگ پیسہ انوسٹ کرتے ہیں اسکا انکے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، صرف ایک لیٹر کے ذریعے ہی اربوں، کروڑوں روپے وصول کر لیے جاتے ہیں، سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس لینے کا مقصد ہی یہی ہے کہ جو طریقہ کار رائج ہے اسی کے مطابق ہی کام ہو اور ملکی خزانے کو فائدہ پہنچ سکے۔