تحریر : سید انور محمود
ایاز صادق کی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ اسکول کے دنوں سے دوستی ہے۔ اسی دوستی کی بنیاد پر جب عمران خان نے اپنی جماعت کی بنیاد رکھی تو وہ اس میں شامل ہوگئے۔ فروری انیس سو ستانوے میں ہونے والے عام انتخابات میں عمران خان لاہور سے جس قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار تھے اسی حلقے کی صوبائی نشست پر سردار ایاز صادق نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے لیے انتخاب لڑا۔ تاہم دونوں ہی اپنی اپنی نشست پر کامیاب نہ ہوسکے۔ انیس سو ستانوے کے انتخابات کے بعد سردار ایاز صادق تحریک انصاف سے دور ہوگئے اور انہوں نے مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف سے اُن کی جلاوطنی کے دوران سعودی عرب میں ملاقات کی اور مسلم لیگ نواز میں شامل ہوگئے۔ سیاست نے بچپن کے ان دو دوستوں کو بارہا ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کیا مگر اب رکن قومی اسمبلی عمران خان کو ایوان کے اندر کسی موضوع پر بولنے کے لیے قوائد ضوابط کے مطابق اسپیکر یعنی ایاز صادق کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔
چار مئی کولاہور کے انتخابی ٹریبونل نے مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کی انتخابات میں کامیابی کو کالعدم قراردیتے ہوئے حلقہ این اے 125میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ سیاسی مبصرین نے خواجہ سعد رفیق کے انتخاب کو کالعدم قراردینے کے فیصلے کو تحریک انصاف کا پہلا چھکا قرار دیا تھا۔ سات مئی کوسعدرفیق نے این اے ایک سو پچیس سے متعلق الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ سپریم کورٹ نے خواجہ سعد رفیق کیخلاف الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ معطل کر دیا۔ خواجہ سعد رفیق ممبر قومی اسمبلی اور میاں نصیر احمد صوبائی اسمبلی کی نشست پر بحال ہو گئے۔ اب سعد رفیق کا کیس سپریم کورٹ میں ہے اور سعدرفیق ایم این اے بھی ہیں اور ریلوے کے وزیر بھی۔
بائیس اگست کوالیکشن ٹریبونل نے این اے 122 سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور پی پی 147 سے ن لیگ کے ہی رکن پنجاب اسمبلی محسن لطیف کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان حلقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے،اسپیکر قومی اسمبلی نے فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے۔ میں نہ مانو کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ این اے 122 کا فیصلہ قانونی عمل کا حصہ ہے۔ این اے 122 کے فیصلے پر قانون کے مطابق اپنا حق استعمال کریں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ این اے 122 کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ فیصلہ کرنے والے نے ن لیگ سے تعصب برتا ہے۔
این اے 122 کے فیصلہ آنے کے بعد عمران خان نے زمان پارک لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھرنے میں شرکت کرنےوالوں کو مبارکباد دیتا ہوں، پاکستان میں جمہوریت کا نظام لائیں گے، ہمارا مقصد جمہوری نظام لانا ہے، ہم نے ڈھائی سال جدوجہد کی۔ ہمارے لوگ شہید ہوئے، دھرنے میں قربانیاں دیں۔ دو وکٹیں گر گئی ہیں، باقی دو بھی جلد گرنے والی ہیں۔ میں نے صرف چار حلقے کھولنے کے لیے کہا تھا۔ میں صرف انتخابی نظام کی بہتری چاہتا ہوں۔ چیئرمین نادرا کو شرم آنی چاہیئے، انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کےلیے نادرا کو 26 لاکھ روپے دیئے۔ مجھے انصاف لینے میں اڑھائی سال لگے تو عام آدمی تو پانچ سال تک دھکے کھاتا رہتا اسے جواب نہ ملتا۔ نواز شریف چار حلقے کھول دیتے تو ہم دھرنا نہ دیتے آج پتہ چلا نواز شریف کیوں چار حلقے نہیں کھول رہے تھے۔ عمران خان نے ایک اور دھرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی عملے کے خلاف کارروائی کیلئے دو ہفتے کا وقت دیتا ہوں۔ دو ہفتے بعد الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دیں گے۔ ایسا دھرنا دوں گا آپ 126 دن کا دھرنا بھول جائیں گے۔
لگتا ہے عمران خان کو تاریخ پڑھنے کا قطعی شوق نہیں ، اگر انہیں ذرا بھی شوق ہوتا تو وہ لازمی جان لیتے کہ جسٹس محمد منیر، جسٹس مولوی مشتاق، جسٹس انوارالحق، جسٹس نسیم حسن شاہ، سابق پاکستانی صدرجسٹس رفیق تارڑ اور جسٹس افتخارمحمدچوہدری پاکستان کے وہ جج ہیں جو ہمیشہ آمروں کا ساتھ دیتے رہے یا پھر انہوں نےاُس کا ساتھ دیا جس نے بقول بینظیر بھٹو چمک کا زیادہ استعمال کیا۔ جسٹس محمد منیر سے لے کرجسٹس افتخار محمدچودھری تک سب کا ایک جیسا ہی کردار رہا ہے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے 1993ء میں نواز شریف کی پہلی حکومت کی بحالی کا فیصلہ بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان سنایا تھا۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی جانب سے کیس کی سماعت سے پہلے اپنے ریمارکس میں یہ کہنا کہ وہ جسٹس منیر نہیں بننا چاہتے، صاف ظاہر کررہا تھا کہ کیا فیصلہ آئے گا۔
رفیق تارڑجنوری 1991ء سےاکتوبر1994ء تک سپریم کورٹ کے جج رہے، وہ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے اُس گیارہ رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے 1993ء میں نواز شریف حکومت کو بحال کیا تھا۔1997ء میں رفیق تارڑ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور پھر نواز شریف نے اُنہیں اپنا صدارتی امیدوار بنایا جس میں وہ کامیاب ہوئے۔ محمد رفیق تارڑ یکم جنوری 1998ءسے 20 جون 2001ء تک پاکستان کے صدر رہے۔محمد رفیق تارڑ کی ایک بہوُ سائرہ افضل تارڑ آج بھی نواز شریف کابینہ میں بطور وزیر مملکت موجود ہیں۔
سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے نو مارچ 2007ء کو مشرف کے احکامات ماننے سے انکارکردیا، اُنہیں مشرف نے عدلیہ سے علیحدہ کیا تو وکیلوں کو ساتھ ملاکر مزدور رہنماوں کے سے انداز میں اپنی بحالی کی تحریک چلائی۔ اس دوران مشرف سے غلطیاں ہوتی چلی گئیں، لیکن اس سارے کھیل میں سابق چیف جسٹس کا مرحوم بینظیربھٹوکی زبان میں چمک کا معاملہ نواز شریف کے ساتھ طے تھا جو اب بھی چل رہا ہے۔ افتخارمحمد چوہدری نے جب وہ چیف جسٹس تھے اور اب ریٹائر ہونے کے بعدبھی حکومت سے وہ مراعات لےرہے ہیں جس کے وہ حقدار نہیں ہیں۔عمران خان حد سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہیں، لہذا وہ دھرنے میں شرکت کرنے والوں کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ عمران خان کو ایک بات سمجھ لینی چاہیئے کہ ہر مرتبہ دھرنوں کی سیاست کامیاب نہیں ہوگی۔
19 سال بعد بھی عمران خان کو سیاست کی سمجھ نہیں آرہی کہ اس ملک میں انصاف صرف اُسے ملتا ہے جو زیادہ چمک کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پاکستان میں انصاف برائے فروخت ہے اور گزشتہ 23سال سے منصفوں کو نواز شریف سے اچھا خریدار نہیں ملا یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف جب بھی منصفوں کے پاس گئے کامیاب لوٹے ہیں۔ خان صاحب انصاف کی امید نہ رکھیں کیوں کہ ان کے پاس ابھی نہ تو کسی کو سینیٹر بنانے کی طاقت ہے اورنہ ہی صدر۔ خان صاحب آپ ڈھائی سال میں ابھی تک صرف دو وکٹیں گرا پائے ہیں، اب باقی ڈھائی سال سپریم کورٹ کے فیصلے کے انتظار میں گزاریں۔
عمران خان جن دو وکٹوں کے گرنے کی بات کررہے ہیں اُن میں سے پہلی وکٹ سعد رفیق اپنی جگہ موجود ہیں، سعدرفیق ایم این اے بھی ہیں اور ریلوے کے وزیر بھی۔ کیا فرق پڑا ہے ابھی تک سعدرفیق کو؟ دو چار دن بعد ایاز صادق بھی سپریم کورٹ چلے جائیں گے اور اپنے لیے ایسا ہی حکم امتناعی لے آیئں گے اور پھر وہ ایم این اے بھی ہوں گے اوراسپیکر بھی۔ پاکستان میں سب کچھ ملتا ہے لیکن انصاف صرف اُسے ہی ملتا ہے جو انصاف کو خرید سکے۔ جیسے اس سے پہلے سعد رفیق کو کچھ نہیں ہوا ٹھیک اسی طرح نواز کے ایاز کو کچھ نہیں ہوگا، بس عمران خان دو چار دن خوشیاں منالیں۔
تحریر : سید انور محمود