counter easy hit

نواز اور نریندر کی ملاقات

Modi and Nawaz

Modi and Nawaz

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
گزشتہ دونوں 25دسمبر 2015کی شام کابل سے دہلی جاتے ہوئے اچانک موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی جی نے اپنی زندگی میں پہلی بارسرزمینِ پاکستان پر جس گرم جوشی اور تُزک و احتشام سے اپنے قدم( اپنے وفد میں شامل 120افراد کے ساتھ) رنجا فرما ئے(ذراٹھیریئے یہاں میں اپنے قارئین کے لئے یہ عرض کرناچاہوں گا کہ بھارتی میڈیا نے نریندرمودی کو منحوس قرار دیاہے اِن کے نزدیک مودی جب جب کسی بھی مُلک کے دورے پر گئے یا اِنہوں نے کبھی کبھی دنیاکے کسی مُلک جانے کا پروگرام بنایا اِن ممالک میں یکدم سے ایسی سیاسی اور اقتصادی تبدیلی رونما ہوئیں کہ دنیا حیران رہ گئی اَب اللہ ہی خیرکرے کہ مودی پاکستان آئے اور واپس چلے گئے ہیں ہمارے یہاں زمینِ حقائق ، سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے سب کچھ ٹھیک رہے تو اللہ کا شکرہوگا ورنہ ہمارے یہاں بھی آنے والے دِنوں میں کچھ بھی ایسا ویسا ہوگیاتو پھرہمیں بھی اِس میں نریندرمودی کی پاکستان آمدپر مودی نحوست کو خارج ازامکان قرارنہیںدیناچاہئے)۔ اگرچہ یہ ساری باتیں اور وسوسے اپنی جگہہ مگر ہمیںمودی کے یوں آناََ فاناََاور غیررسمی دورے پر بے ڈھرک پاکستان آنے پر اتنا ضرور محسوس کرناچاہئے کہ اَب جیسے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خطے سمیت دونوں ممالک کے درمیان پائیدار قیام امن اورمستحکم اقتصادی و معاشی ترقی کو ترجیح دینے کے لئے حقیقی معنوں میں سنجیدہ ہوگئے ہیں اور اِس حوالے سے مودی جی کو اِس بات کابھی بخوبی اندازہ ہوگیاہے کہ خطے میں امن و سلامتی اور دونوں ممالک کے درمیان سماجی روایات کی بہتری اور پاک بھارت معاشی ترقی اور عوام کی دائمی خوشحالی کے لئے بھارت سے کہیں زیادہ پاکستان اپنا اہم اور کلیدی کردار اداکرسکتاہے۔

آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کی پیش کی جانے والی جانی اور مالی قربانیاں اور خدمات دنیا تسلیم کرچکی ہے بس صرف ایک بھارت ہے جو اَب تک اِس سے تسلیم کرنے سے قاصر رہامگر اَب چوں کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی بھی پاکستان آگئے ہیں تو اِس سے انکار نہیں کہ پاکستان کی اہمیت کو مودی جی نے بھی تسلیم کرلیا ہے اور اَب یہ بھی حقیقت ہے کہ نریندرمودی سمیت بھارتیوں کے دل و دماغ جو کئی من جمی برف کی چٹان کے نیچے دبے ہوئے تھے اَب برف کی چٹان کے پگھلتے ہی بھارتیوں کوپاکستان کا وہ کردار جو ہمارامُلک خطے میں امن و سلامتی اور معاشی و اقتصادی حوالوں سمیت دنیا بھرسے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فرنٹ لائن کی حیثیت سے ادا کررہا ہے وہ بھی نظر آنے لگاہے اَب اِسی لئے بھارت ہماراپڑوسی ہونے کے ناطے ہم سے دوستی کا ہاتھ بڑھاناچاہ رہاہے آج اگر ہم اِس منظر اور پس منظر میں بھارتیوں کی خصلت اور فطرت کا طائرانہ جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگاکہ یہ تو ازل ہی سے بھارتیوں کی خصلت رہی ہے کہ یہ پہلے سامنے والے کو زبانی کلامی پھر طاقت کے زورپر دبانے کی کو شش کرتاہے کہ وہ دب جائے تویہ اِس پر چڑھ دوڑے اور اگر وہ نہ دبے تو پھر اِس سے دوستی کا ہاتھ بڑھا کراِس کے دوست بن جاو¿ اور اِس کے ساتھ ماضی میں روارکھے گئے اپنے جارحانہ رویوں کو بھلانے کی کوشش کرو،اور اِس کے اتنے پکے اور سچے دوست بن جاو¿ کہ وہ تم پر اعتبار کرنے لگے مگر جب کبھی پھر موقعہ ملے تو اپنی پرانی خصلت کو دوبارہ اپنانے میںبھی دیر نہ کرو۔

بہر حال ..!! اَب ہمیںدیکھنا یہ ہے کہ کب تک بھارت ہمارے ساتھ اپنا رویہ بہتر رکھتاہے…؟؟ اور کب تک مودی جی خطے کے امن و سلامتی اور دیگر معاملات کی بہتر ی کے لئے پاکستان کو اہمیت دیتے ہیں..؟؟اور اِسی طرح ہمیں اِس پر بھی ضرور نظررکھنی ہوگی کہ کب تک بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اور بھارتی سیاستدان ، بھارتی عسکری قیادت،میڈیااور عوام پاکستان مخالف منفی پروپیگنڈوں سے باز رہتے ہیں…؟؟ بہرکیف ..!!اَب یہ اور بات ہے کہ نریندرمودی جی کو اچانک پاکستان آنے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے خاتمے اور خطے میں مثالی قیامِ امن کے خاطر اس پیش قدمی کے لئے کس نے مشورہ دیا..؟؟ اور کس کے دباو¿ میں آکر مودی پاکستان چلے آئے…؟؟ اور پاکستانی لذیذ کھانے تناول فرماکربھارت واپس چلے گئے مگر اِس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ واپس بھارت جا کر پاکستانی نمک کھانے کے بعدنمک کا کتنا خیال کرتے ہیں..؟؟یہ توآنے والے دِنوں، ہفتوں، ماہ و سال میں لگ پتا جائے گاکہ بھارتی وزیراعظم اور اِن کے ہمراہ پاکستان آئے 120افراد پاکستانی نمک کھانے کے بعد یہ اِس نمک کا دوبھارتی فلموں کے ناموں” نمک حلال “ اور نمک حرام “ ہونے کے انداز سے استعمال کرتے ہیں..؟؟

بہرسو..!! مگر یہاں ہمیں اِس بحث میں جائے بغیر مودی کے اچانک پاکستان آنے کے اِس مثبت عمل کو شک وشبہات کی نظرسے دیکھے بغیر اَب دونوں ممالک کے درمیان خیر اور افہام وتفہیم کے کھلنے والے مذاکراتی عمل کے شروع ہونے کا کھلے دل و دماغ سے خیرمقدم کرناچاہئے اور ہر طرح سے شک و شہبات سے پاک ہو کر دونوں ممالک کے سربراہان ، سیاستدانوں ، عسکری قیادت ، میڈیا اور عوام کو اِس بات کی قوی اُمید ضروررکھنی چاہئے کہ مودی کا پاکستان اچانک آنے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مودی اور اِن کی سرکار نے خطے میں قیامِ امن کے لئے پاکستان کے پیش کردہ کردار اور اِس کی خدمات کو نہ صرف تسلیم کرلیا ہے بلکہ پاکستان کی اہمیت کو بھی مان لیا ہے کہ پاکستان خطے میں کئی حوالوں سے اپنا بڑااہم رول اداکررہاہے یقیناََ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا دوبھارتی طیاروں میں سوار ہوکر اپنے وفد میں شامل 120افراد کے ہمراہ پاکستانی سرزمین پراپنا قدم رکھنا اِس کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان سے اپنے تعلقات بہتر بنانے کا کھلے دل سے خواہاں ہے اور چاہتاہے کہ دونوں ممالک کے درمیان برسوں سے بند دوستی کے دروازے کھل جائیں اور پاک بھارت ماضی کی تلخیوں کو نظراندازکردیں اوراپنی اپنی غلطیاں بھلادیں اور اَب سے خطے اور دونوں ممالک کے درمیان نئے سرے سے خوشحالی کی نوید لیئے مثبت و تعمیری کھلنے والے خوبصوت دریچوں سے اپنی دائمی دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور اپنی دوستی اِسی طرح مضبوط کریں آج جس طرح دونوں جرمنیوں کے درمیان دوستی قائم ہوگئی ہے۔

اگرچہ ..!!اچانک 25دسمبر 2015 کی شام افغانستان سے دہلی جاتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اپنے وفد کے 120افراد کے ہمراہ اپنے چندگھنٹوں کے مختصر مگر تاریخی اور پُراثرغیررسمی دورے پر پاکستان آئے اِس دوران رائے ونڈ میں ڈبل نون” نواز اور نریندر کی تاریخی ملاقات ہوئی،دوران ہونے والی گفتگو میں دونوں ممالک پاک بھارت وزرائے اعظموں نے دونوں ممالک کی بہتری سمیت عوام کی ترقی و خوشحالی اور دونوں مملکوں کو آگے بڑھانے سمیت دونوں ممالک کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں درپیش دہشت گردی سمیت دیگر حائل مشکلات کے خاتمے کے لئے بھی ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کی خواہشات کا بھی اظہارکیا گیااور اِس بات پر بھی زور دیاگیاکہ دونوں ممالک نہ صرف اپنی اپنی سرحدوں کے اِدھر اُدھر بلکہ خطے میں بھی قیام امن اور اقتصادی و معاشی بہتری کے لئے غلط فہمیوں کا شکار ہوئے بغیر دہشت گردی کے خلاف اپنی اپنی کوششیں اور ایک دوسرے سے اپناتعاون جاری رکھیں گے

جبکہ اِسی شام لاہور کے علامہ اقبال ائیرپورٹ سے دہلی روانگی سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندرمودی جی نے نوازشریف کو سالگرہ اور اِن کی نواسی کی شادی کی مبارکباد دینے کے لئے اپنے پاکستان آنے کو پاک بھارت تعلقات کی بہتر کے لئے سودمند قرار دیااوراُمید ظاہر کی کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ 15جنوری 2016کو پاکستان آئیں گے، اِن کے پاکستان آنے سے دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور خیرسگالی کا مضبوط رشتہ قائم ہوگا اور برسوں سے دونوں ممالک کے تعلقات پر بڑی دھول چھٹ گئی ہے یہ ٹھیک ہے کہ آج جس طرح پاک بھارت وزرائے اعظم نوازشریف اور نریندرمودی دونوں ممالک کے حالات کی بہتری اور خطے میں قیامِ امن کے لئے سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں اَب ایسے میں یہ بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کی سیاسی وعسکری قیادت اورہر اقسام کے میڈیااور عوام بھی اپنے اپنے ممالک اور خطے میں قیامِ امن و سلامتی کے لئے لچک کا مظاہر ہ کریں اور اپنا اپنا مثالی کردار اداکریں ورنہ ..!! ایسی پاک بھارت سربراہاں کی لاکھ ملاقاتیں ہوجائیں اِن ملاقاتوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگاجب تک کہ …؟؟

Azam Azeem Azam

Azam Azeem Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com