کہ عوام نے اسے کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ سیاستدانوں سے پیسہ ریکور کرنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے ووٹ دیے تھے۔ لیکن سب کچھ اس وقت اُلٹ چل رہا ہے ، نہ لوٹ مار کا پیسہ ریکور ہو رہا ہے، نہ کہیں حکومت Existکر رہی ہے اور نہ ہی حکومت کے وزراء…. کسی کو علم ہی نہیں کہ کب کیا بولنا ہے؟ قومی پالیسی کیا ہے؟ اور آئندہ کیا ہونے والا ہے…. لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر یہی ڈراپ سین ہونا تھا تو قوم کا اربوں روپے برباد کیوں کیے گئے، کیوں مہینوں کرپٹ سیاستدانوں کی سکیورٹی پر اربوں روپے خرچ کیے گئے۔عمران خان ہو یا نواز شریف دونوں کے لیے ہالی وڈ کی ایک فلم کا مکالمہ ہے یاد آرہا ہے جس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہو گا”کسی بزدل کی بیوی ہونے سے کسی بہادر کی بیوہ ہونا بدرجہا بہتر ہے“۔لہٰذامیں آج پھر کہوں گا کہ عمران خان پاکستان کے عوام کی آخری اُمید ہیں اگرچہ ان سیاستدانوں کے ملک سے چلے جانے کے بعد اگلے ایک دو ماہ میں سیاسی افراتفری ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور اگر جون 2020 ءتک ملکی معاشی لحاظ سے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو گیا اور کاروبار و صنعت کے معاملات جیسے بہتر ہوتے نظر آ رہے ہیں تو پھر عمران خان سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ ایک ایسا بجٹ لے کر آئیں جسکے بعد ان کے عوامی مینڈیٹ میں اضافہ ہو ورنہ موجودہ ”ڈراپ سین“ اُن کے گلے کی ہڈی بھی بن سکتا ہے!!!
لاہور(ویب ڈیسک) اطلاعات تو بہت سی ہیں مگر جو ”ٹاپ ٹرینڈ“ پر ہیں اُن کے مطابق مولانا فضل الرحمن اسی ہفتے جا رہے ہیں ، نواز شریف بھی جا رہے ہیں یا تادم تحریر جا چکے ہوں گے، اور شاید دسمبر تک آصف علی زرداری بھی چلے جائیں۔ اس پرمجھے ایک حضرت سلیمان ؑ کی
نامور کالم نگار علی احمد ڈھلوں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ نسبت سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے….حضرت سلیمانؑ کے پاس ان کا کوئی مہمان بیٹھا راز و نیاز میں مصروف تھا کہ اک وزیر حاضر ہوا۔ حضرت سلیمانؑ نے اشارے سے قریب بیٹھنے کا حکم دیا تو مہمان، وزیر کی طرف دیکھ کر حیرت زدہ سا ہو گیا۔ بظاہر وہ(مہمان)حضرت سلیمانؑ سے محو کلام رہا لیکن کن اکھیوں سے مسلسل وزیر کو تکتا بلکہ گھورتا رہا۔ ملاقات ختم ہوئی، مہمان رخصت ہوا تو وزیر نے حضرت سلیمانؑ سے پوچھا ”آقا! یہ کون صاحب تھے؟“ فرمایا ”انسانی شکل میں ملک الموت تھے“ وزیر نے کانپتے ہوئے کہا ”حضور! آپ نے غور فرمایا مجھے مسلسل کیسی نظروں سے تکے جا رہے تھے اس لئے کرم فرمایئے اور ہزاروں میل دور مجھے فلاں جزیرے پر بھجوا دیجئے“ حضرت سلیمانؑ نے مان رکھتے ہوئے چشم زدن میں اس وزیر کو دور افتادہ جزیرہ پر بھجوا دیا۔ اس جزیرے پر پہنچے ہی تھے کہ کچھ دیر بعد ملک الموت سے سامنا ہوا تو انہوں نے کہا ”میں تو کل تجھے دربار سلیمانی میں دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ میں نے تو آج اس جزیرہ سے تجھے اپنے ساتھ لے جانا تھا اور اتنا فاصلہ تو تم سالوں میں بھی طے نہیں کر سکتے لیکن دیکھ لو تمہیں کس طرح یہاں پہنچا دیا گیا۔“لہٰذاموت تو برحق ہے، جہاں آنا ہو آجاتی ہے۔ اس لیے اس سے ڈرنا حماقت ہے اور لڑ کر جینا دلیری ہے۔ اس بات کی میں نہیں بلکہ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ کب کب کون کون سا لیڈر دنیامیں اپنی پہچان بنا گیا،
اور کون کون سالیڈر تاریخ میں گم ہوگیا! کئی نام نہاد لیڈروں کے لیے تو ایلن ووڈی نے اپنے مسخرے پن میں موت کے بارے ایک ناقابل فراموش جملہ بولا تھا جس کا ترجمہ کچھ یوں ہو گا”میں نہ موت کی پروا کرتا ہوں نہ اس سے ڈرتا ہوں بس اتنی سی بات ہے کہ جب جہاں یہ منحوس موجود ہو تب اس وقت مجھے وہاں ہرگز نہیں ہونا چاہئے“۔خیر آج کل قوم ایک عجیب مخمصے کا شکار ہے، ہر شخص پریشان ہے کہ مولانا کے دھرنے اور نواز شریف کی بیماری کا ڈراپ سین کیا ہوگا؟ کچھ کو تو سمجھ لگ گئی مگر کچھ ابھی بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ”بیک سٹیج“ کیا چل رہا ہے…. لیکن ایک بات تو طے ہے کہ حکومت کے لیے دونوں ہی پریشان کن ثابت ہو رہے ہیں کیوں کہ مولانا فیس سیونگ چاہتے ہیں اور ن لیگ نواز شریف کو باہر بھیجنا….ایسے میں حکومت پر الزام لگ رہا ہے کہ وہ بار بار NROسے انکار کر کے بھی ”ڈیل“ کر رہی ہے…. سوال یہ ہے کہ حکومت ان کے نرغے میں آ کیسے گئی؟ کیوں کہ بظاہر نہ تو مولانا” مزاحمت “کے موڈ میں نظر آتے ہیں اور نہ ہی کبھی ن لیگ نے اس قدر مزاحمت کی ہے کہ وہ تاریخ میں یاد رکھی جائے …. اور ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب کی جانب سے ہمیشہ کم ہی مزاحمت دیکھنے کو ملی ہے …. پنجاب پریہ بھی الزام ہے کہ اس نے ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کا استقبال کیا، اور لڑے بغیر انہیں دلی تک راستہ دیا۔
پنجاب کی ایک اور بد قسمتی یہ ہے کہ اس خطے کے غیر مسلم ہیروز کو، کوئی ہیرو یا مزاحمتی کردار ماننے کو تیار نہیں جبکہ پنجاب پر افغانستان کے راستے آنے والے مسلم حملہ آوروں کو اپنا ہیرو قرار دینے کے چکر میں پنجاب کی تاریخ مسخ کر دی گئی ہے۔خیر یہ تو ایک لمبی بحث ہے جس پر میں کوشش کروں گا کہ ایک مفصل کتاب تحریر کردوں ۔ لیکن فی الوقت اگر پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کی بات کی جائے تو آج ایک بار پھر پنجاب کو کبھی مزاحمتی کردار نہ رہنے کے طعنے دیئے جا رہے ہیں۔ لڑائی مقتدرہ اور سیاسی قوتوں کے درمیان ہے لیکن یہ کوئی اصولوں کی جنگ نہیں، اقتدار کی کھینچا تانی ہے۔ جس میں ایک دو نہیں بلکہ کئی ایک سٹیک ہولڈرز ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کا مسئلہ بھی ضرور ہو گا لیکن اس سارے جگاڑ میں عوام کے پلیٹ لیٹس خوامخواہ تہس نہس، اوپر نیچے ہوتے رہے لیکن خیر ہے کیونکہ سوہنی دھرتی پر اقتصادیات سے اخلاقیات تک، جمالیات سے لے کر ماحولیات تک کون سی شے کے پلیٹ لیٹس مستحکم ہیں۔اور نواز شریف نے بھی سوچا ہوگا کہ ”جان ہے تو جہان ہے“ دکان ہے تو سامان ہے یا سامان ہے تو دکان ہے۔پاکستان ہے تو پھر ”امکان“ ہے۔کہ جان بچی تو چوتھی دفعہ بھی وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نے اپنے سیاسی کیریئر کے دوران متعدد بار ڈیل کی۔ حدیبیہ انجنیئرنگ، جاتی امرا محل، ایون فیلڈ پراپرٹیز، شریف ٹرسٹ، ایل ڈی اے کے پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ،
ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں، رائے ونڈ روڈ کرپشن سمیت متعدد انکوائریز شروع کی گئیں۔ ہیلی کاپٹر کیس میں احتساب عدالت نے 22 جولائی سال 2000کو نواز شریف کو 14 سال قید اور 2 کروڑ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔ عدالت نے نواز شریف کو 21 سال کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے نااہل بھی قرار دیا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کراچی کے جج رحمت حسین جعفری نے 6 اپریل سال2000کو نوازشریف کو طیارہ سازش کیس میں پرویز مشرف اور 198 مسافروں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی۔ اے ٹی سی نے نواز شریف کی جائیداد ضبطی اور، 55 ہزار 500 امریکی ڈالرز جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔10 اکتوبر 2000 کے سندھ ہائی کورٹ نے اے ٹی سی کا فیصلہ برقرار رکھا، نواز شریف کو طیارہ سازش کیس میں 2009 میں سپریم کورٹ کو ریلیف ملا۔ستمبر 2007 کو سعودی انٹیلی جنس کے چیف شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز اور لبنانی سیاستدان سعد الحریری نے نواز شریف کے 10 سالہ معاہدے کا اعلان کیا اور نواز شریف کو معاہدے کی پاسداری کی درخواست کی۔سعودی انٹیلی جینس چیف اور سعد الحریری نے پرویز مشرف سے ملاقات بھی کی اور میڈیا کو معاہدے کی کاپی بھی دکھائی، سعودی سفیر عواض العسیری بھی اس موقع پر موجود تھے۔17 اکتوبر 2007 کو سپریم نے نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ نواز شریف کے قید سے سعودی عرب کے سفر کو جبری جلاوطنی نہیں کہا جا سکتا۔ شریف برادران نے اپنی مرضی سے سعودی عرب جانے کا
فیصلہ کیا۔نواز شریف نے فروری 2006 میں کسی بھی ڈیل یا معاہدے کی نفی کی۔ معاہدے پیش کیا تھا مگر میں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ستمبر 2007 میں ہی نوازشریف نے برطانیہ میں پریس کے سامنے معاہدہ کا اعتراف کر لیا۔غیر مشروط معاہدہ پر نواز شریف، شہباز شریف، عباس شریف اور حسین نواز نے دستخط کیے جس کے بعد صدر مملکت رفیق تارڑ نے 9دسمبر سال دوہزار کو سزا معافی کی درخواست منظور کی۔ نواز شریف 14 ماہ قید میں گزارنے کے بعد بیرون ملک روانہ ہوئے۔نیب اور ایف آئی اے نے بھی نواز شریف کو جانے انجانے میں فائدہ پہنچایا۔ لاہور ہائی کورٹ نے 26 جون 2009 کو نواز شریف کو ہیلی کاپٹر کیس، 11 مارچ 2014 کو حدیبیہ پیپر ملز کیس اور رائے ونڈ اسٹیٹ کیس، 6 فروری 2015 کو قرض ڈیفالٹ کیس سے بری کیا۔اس کے ساتھ ساتھ لاہور ہائی کورٹ سے ہی 12 جون 1997 کو نواز شریف کے خلاف حدیبیہ انجنیئرنگ اور حدیبیہ پیپر ملز کے کیسز خارج ہوئے مگر نیب اور ایف آئی اے نے عدالت عالیہ کے فیصلے وقت پر چیلنج ہی نہ کیے۔اور اب ایک بار پھر ایسی خبریں زبان زد عام ہیں ، خیر ہمیں کیا ، بقول محمد رفیع کے گیت ….چل اُڑ جا رے پنچھی۔۔۔ کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ۔۔۔بھول جا اب وہ مست ہَوا وہ اُڑنا ڈالی ڈالی جَگ کی آنکھ کا کانٹا بن گئی چال تری متوالی۔۔۔ لہٰذا اب اگر پنچھی اُڑان بھرنے کو تیارہے تو یہ ن لیگ اور حکومت (پی ٹی آئی) دونوں کے لیے نقصان دہ ہے…. خاص طور پر حکومت کے لیے کیوں