لاہور(ویب ڈیسک) مسلم لیگ ن کے اندر ایک کشمکش چل رہی ہے ۔ن لیگ کے صدر شہباز شریف یہ چاہتے ہیں کہ آزادی مارچ میں ن لیگ نے جتنا بھی حصہ لینا تھاوہ لے لیا ۔دھرنے میں شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور اب ن لیگ کو لانگ مارچ میں مزید حصہ نہیں ڈالنا چاہئے،
مسلم لیگ ن کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ۔ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے اجلاس میں واضح کیا کہ ن لیگ آزادی مارچ کا مزید حصہ نہیں بنے گی ۔کوئی رہنما بھی آزادی مارچ میں شریک نہیں ہو گا۔ذرائع کے مطابق ن لیگ کے رہنما چاہتے ہیں کہ پارٹی مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کا حصہ بنے کیونکہ فضل الرحمن اور ن لیگ کا بیانیہ ایک ہی ہے ۔پارٹی رہنما سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن وہی بات کر رہے ہیں جو نواز شریف کرتے ہیں مگر شہباز شریف چاہتے ہیں کہ ن لیگ دھرنے میں شامل نہ ہو اورانھوں نے یہ فیصلہ بھی کر لیا ہے ، شہباز شریف چاہتے ہیں کہ پارٹی نواز شریف اور مریم نواز کو بیرون ملک جانے پر مجبور کرے ۔اس حوالے سے گزشتہ پارٹی میٹنگ میں یہ فوکس تھا کہ کسی طرح نواز شریف اور مریم نواز کو باہر بھیجا جائے ۔نواز شریف کے علاج کے لئے انھیں بہت زیادہ ضرورت ہے کہ وہ بیرون ملک جائیں۔ شہباز شریف نے زور دیا کہ نواز شریف کو پارٹی کا متفقہ پیغام دینا چاہئے کہ نواز شریف اور مریم نواز ملک سے باہر چلے جائیں اس لئے کہ نواز شریف کی صحت سے کچھ بھی زیادہ اہم نہیں ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ایک رہنما نے اعتراض اٹھایا کہ پارٹی قیادت کھل کر بتائے کہ آزادی مارچ میں شرکت نہ کر یں ۔آخر ن لیگ کو کیا ملے گا ؟کیونکہ ن لیگ کی لیڈر شپ جیلوں میں ہے ن لیگ کے رہنما کھل کر بول نہیں سکتے ،سزائیں انھیں مل رہی ہیں ۔خاموش بیٹھیں گے ہمیں آخر کیا ملے گا۔
ہماری اور مولانا فضل الرحمن کی سوچ ایک ہے پھر ہم آزادی مارچ میں شامل کیوں نہیں ہورہے ؟اس پر شہباز شریف برہم ہو گئے ۔انھوں نے غصے میں کہا کہ کیا آپ کو نواز شریف کی صحت کی پروا نہیں، میرے لئے نواز شریف کی صحت سب سے زیادہ اہم ہے اس پر کچھ پارٹی رہنمائوں نے کہا کہ نواز شریف کے لئے ہم اسمبلی کی سیٹیں بھی قربان کرسکتے ہیں مگر آزادی مارچ میں شرکت سے نواز شریف کی صحت پر کیا اثر پڑے گا،ابھی تک خاموش بیٹھنے کا ن لیگ کو کیا فائدہ ہوا ، پھر پارٹی کے ایک رہنما نے شہباز شریف سے کہا کہ نواز شریف نے خط میں واضح ہدایت کی تھی کہ آزادی مارچ میں شرکت کی جائے ۔ اس پر شہباز شریف نے کہا کہ میاں صاحب نے جو خط میرے نام لکھا اس میں انھوں نے صرف جلسے میں شرکت کی ہدایت کی تھی جو ہم نے کر لی۔
اب کوئی آزادی مارچ کا حصہ نہیں بنے گا جس پر پارٹی رہنما نے شہباز شریف کو کہا کہ آپ نواز شریف کے خط کی غلط تشریح کر رہے ہیں آپ نے خط کی اپنی مرضی کی تشریح کر لی، علاوہ ازیں شہباز شریف نے ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف پر اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ میڈیا انٹرویو میں انھوں نے اسمبلیوں سے استعفے کی بات کیوں کی ۔پارٹی رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نواز شریف سے ملنا چاہتے ہیں ۔ان سے براہ راست ہدایت لینا چاہتے ہیں ،لیکن انھیں ملنے نہیں دیاجا رہا۔ان کا براہ راست پیغام نواز شریف تک نہیں پہنچ رہا۔جو کچھ پہنچ رہا ہے وہ شہباز شریف کے ذریعے پہنچ رہا ہے ۔ پارٹی رہنمائوں کا گلہ ہے کہ انھیں نواز شریف سے ملنے نہیں دیا جا رہااور بتایا جا رہا ہے کہ ان کی صحت ملاقات کی اجازت نہیں دیتی ۔اجلاس میں ان رہنمائوں کو نہیں بلایا گیا جو نواز شریف اور مریم نواز کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور ان کے بیانیہ کے حامی ہیں اب ان رہنمائوں کو سائیڈ لائن کردیا گیا اور وہ مشاورتی عمل کا حصہ نہیں ہیں ۔جب سے نواز شریف کی ضمانت پر رہائی ہوئی ہے ان کا بیانیہ سامنے نہیں آیان لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے اس حوالے سے کہا کہ پارٹی اجلاس میں نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے حوالے سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی ، جیسا ڈاکٹرز کہیں گے ان کی صحت کا فیصلہ اس کے مطابق کیا جائے گا۔ایک سوال پر ان کا کہنا تھا جو رہبر کمیٹی فیصلہ کرے گی وہی پارٹی کا فیصلہ ہو گا۔