نامور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہیرو یوٹرن مارتا ہے تو وہ ولن بن جاتا ہے اور پبلک اسے بُرا بھلا کہنے لگتی ہے۔ اس فلم کے اکثر واقعات ناقابلِ یقین ہیں۔ ایک ولن کو لٹیروں کا سردار قرار دیکر گرفتار کیا جاتا ہے، عدالت اسے سزا بھی سنا دیتی ہے اور یہ ولن جیل میں قید ہو جاتا ہے۔ اچانک پتا چلتا ہے کہ ولن کسی پُراسرار بیماری کا شکار ہو گیا ہے۔ اسے اسپتال لایا جاتا ہے، ڈاکٹر کہتے ہیں وہ ولن کا علاج نہیں کر سکتے، اسے علاج کیلئے سات سمندر پار لے جائو۔ پھر عدالت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس سزا یافتہ مجرم کو علاج کیلئے سات سمندر پار بھیجنے کی اجازت دے دیتی ہے اور چند ہی لمحوں میں ماحول بدل جاتا ہے۔ سزا یافتہ ولن اپنے بھائی کے ساتھ بیرونِ ملک روانہ ہوکر ہیرو بن جاتا ہے اور جو تھوڑی دیر پہلے تک ہیرو تھا، وہ مخالفین کی نقلیں اتار اتار کر اپنی خفت مٹانے لگتا ہے۔ یہ فلم اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں ان کے سیاسی مغالطے صرف ان کے لئے نہیں بلکہ پوری قوم کیلئے سیاسی سانحے پیدا کر دیتے ہیں اور اسی لئے جو سیاسی فلم ہمارے سامنے چل رہی ہے اسے دیکھنے والے اکثر ناظرین نے اپنے دل تھام رکھے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ’’دی اینڈ‘‘ میں کسی ’’گریٹ ٹریجڈی‘‘ کا سامنا نہ ہو جائے۔ جو مجھ سے بار بار پوچھتے ہیں کہ آگے کیا ہو گا ان کو ٹال ٹال کر تنگ آ گیا ہوں۔ پوچھتے ہیں یہ جو دوسری دفعہ جیل سے جہاز میں بیٹھ کر سات سمندر پار چلا گیا، یہ واپس آئے گا یا نہیں؟ جواب میں عبدالحمید عدمؔ کا شعر عرض ہے؎شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ۔۔محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں۔۔یہ جانے والا تین دفعہ وزیراعظم بنا اور تیسری دفعہ واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سزا یافتہ مجرم کا جہاز پر چڑھنا بھی حیران کن ہے اور اس کی واپسی بھی حیران کن ہو گی۔ واپسی سے پہلے اینٹی کلائمکس شروع ہو چکا ہوگا اور آپ کو ہر طرف بدنامیوں کا گرد و غبار نظر آئے گا۔ فلم کے آخری مراحل میں اتنے زیادہ سیاسی جھٹکے آئیں گے کہ آپ کی چیخیں بھی نکل سکتی ہیں لیکن آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہیرو ولن اور ولن ہیرو بن جائے گا۔ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کو یقین ہے کہ یہ فلم بہت سے سیاسی مغالطے ختم کر دے گی اور اس فلم کا اسکرپٹ رائٹر اصل ہیرو بن کر سامنے آئےگا لہٰذا ’’آگے کیا ہوگا، آگے کیا ہوگا‘‘ پوچھنا بند کیجئے۔ خاموشی سے فلم دیکھئے کیونکہ ’’دی اینڈ‘‘ بہت دردناک ہے اور انہیں رلائے گا، جو کہتے تھے ’’میں تمہیں بہت رُلائوں گا‘‘۔ـ