‘اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا’ ایک زبان زد عام محاورہ ہے۔ اس کو استعمال کرنے کیلئے آپ کو اردو زبان کی ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت نہیں اور اسی طرح اس محاورے کو سچ کر دکھانے کیلئے آپ کا پاگل یا نیم پاگل ہونا بھی ضروری نہیں۔ اس محاورے کو سچ کر دکھانے کیلئے آپ کو کلہاڑی کی ضرورت پڑتی ہے نہ ہی پائوں کی۔ بعض اوقات تو آپ صرف اپنی زبان ہلانے سے ہی اس محاورے کو سچ ثابت کر دیتے ہیں جیسا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نےکیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف نے متنازع بیان سے اپنے ہی پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔
نواز شریف نے یہ بیان دے کر نہ صرف خود کو مشکل میں ڈال لیا ہے بلکہ ایک جیتی ہوئی جنگ بھی ہار گئے ہیں۔ نواز شریف سیاسی میچ میں بہترین کھیل رہے تھے کہ اچانک انہوں نے نو بال پر چھکا مارنے کی کوشش میں ایک بڑا فائول پلے کیا اور یہ فائول پلے آنے والے دنوں میں ان کے گلے پڑ جائے گا کیوں کہ پاکستان میں کرپشن کےالزامات سے ووٹ بنک ختم نہیں ہوتا۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو یو ٹیوب پر جائیں اور دیکھیں شہری کھلے دل سے کہتے ہوئے ملیں گے کہ نواز شریف کچھ کھاتا ہے تو کچھ نہ کچھ لگاتا بھی ہے۔ یہ بھی کہ بجلی آتی ہے، نہ پانی، نواز شریف سارا پاکستان کھا گیا لیکن ووٹ صرف نواز شریف کا ہے۔
اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز اٹھانے پر یا اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے پر بھی ووٹ بینک تقسیم نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا تو نواز شریف کا ووٹ کو عزت دو اور خلائی مخلوق والا بیانیہ ہٹ نہ ہوتا۔ اگر نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے تنائو کو دیکھیں تو اب تک نواز شریف نے اپنی حد پار نہیں کی تھی لیکن اس بار انہوں نے اپنی حدر پار کر کے نہ صرف اپنے لئے مشکلات پیدا کرلی ہیں بلکہ اپنی پارٹی اور دوستوں کیلئے بھی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ کبھی شہبازشریف وضاحتیں پیش کر رہے ہیں تو کبھی شاہد خاقان عباسی پریس کانفرنس کرکے بتا رہے ہیں کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ میں قومی سلامتی میٹنگ کو اہمیت دوں یا اپنے لیڈر کو۔ اگر ہم سیاسی منظر نامے کو دیکھیں تو نواز شریف کی کہانی بالکل ختم ہوچکی ہے۔ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے لیکن بڑے بھائی کے بیانیے سے شہباز شریف تو اپنی سیاست بھی نہیں بچا پا رہے۔
ایک وقت تھا جب لگتا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی پنجاب پر گرفت بڑی مضبوط ہے لیکن اگر ہم اب نظردوڑائیں تو شہباز شریف کی گرفت کمزور ہی نہیں بلکہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ اثرانداز ہوا ہو یا کسی خلائی مخلوق کی چھڑی گھومانے سے لوگ ادھر سے ادھر ہوئے ہوں پاکستان مسلم لیگ ن کو بحرحال خاصا نقصان پہنچا ہے۔ آج بھی ن لیگ کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان نے استعفے پیش کئےا ور پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ ایسے میں بطور پارٹی صدر شہباز شریف کو یقیناً شکست ہو رہی ہے کیوں کہ انکی پارٹی تنکوں کی طرح بکھر رہی ہے اور جیتنے والے گھوڑے اب کسی اور کے اصطبل میں ہن ہنا رہے ہیں۔
نواز شریف کا وہ بیانیہ جو عوام میں مقبول ہو رہا تھا، نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق متنازعہ بیان کے بعد وہ بھی اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ نواز شریف کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان اور قومی سلامتی کے مخالف زبان درازی میں بڑا فرق ہوتاہے۔ اگر اس فرق کے اثرات دیکھنے کی خواہش ہے تو ایم کیو ایم اور الطاف حسین ہمارے پاس ایک جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ھنح
نواز شریف کے بیان سے اداروں میں تنائو مزید بڑھ جائے گا اور الیکشن کے اتنے قریب اداروں اور سیاسی طاقتوں میں تنائو ملک اور قوم کیلئے سود مند ثابت نہیں ہوگا۔ سیاسی طاقتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی سے ممکن ہے کسی فریق کو کوئی وقتی فائدہ حاصل ہوسکے لیکن اس صورتحال کا جاری رہنا ملک کیلئے سخت نقصان دہ ہوگا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں اور ادارے صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور قومی سلامتی اور بقاء کو یقینی بنائیں۔