لاہور ;آج جو کچھ سابقہ حکمران خاندان کے سارتھ ہو رہا ہے یہ مکافات عمل سے بڑ ھ کر کچھ نہیں لاہور سے اسلام آباد شفٹ کرنا ناممکن ہوگا لیکن سوائے نگران حکومت کی چند بونگیون کے علاوہ ن لیگ کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکا اگر نگران حکومت کنٹینر لگا
ناموور تجزیہ کار محسن گوریہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔کر راستے بند نہ کرتی اور موبائل فون سروس بند نا ہوتی تو شاید اتنا بھی شو نہ ہوتا جو ہوا ن لیگ کے کئی رہنما پیدل چلنے کی ایکٹنگ بھی کر رہے تھے اور کچھ نظر ہی نہ آئے عوام نے تو میاں صاحب کا ساتھ نہیں دیا مگر ان کے اپنے ہی ان سے دور رہنے میسیج دے رہےہیں میان شہباز شریف جو ان کے سیاسی جانشین بن چکے ہیں وہ دانستہ ائیرپورٹ نہیں گئے اور جب کوئی اپنا ائیر پورٹ نہ جائے تو دوسرے کیا خاک جائیں گے شہباز شریف اور حمزہ شہباز لاہور میں ہی ریلیوں کی قیادت کرتے رہے مجھے تو ایسے لگا کہ وہ نواز شریف کا استقبال کرنے کیلئے نہیں نکلے بلکہ اپنی الیکشن کمپین کیلئے نکلے تھے ن لیگ کا گڑھ لاہور اورمیان نواز شریف کو نیب والےائیر پورٹ سے گرفتار کر کے لے جائیں انگلی کے اشارے پر گزشتہ دس سال تک نچانے والے شہبازشریف لوہاری سے ائیرپورٹ اپنے بھائی کو ملنے نہ پہنچ سکے ان کیلئے اتحاد ائیرلائن کی فلائٹ بھی لیٹ ہوئیکہ شائد شیباز شریف پہنچ ہی جائیں مگر بقول شاعر سجن بے ایمان نکلا 13 جولائی کی جس زدہ رات
اور خاموش ماحول میں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ طیارے سے باہر نکلے تو وہ جان چکے تھے کہ یہاں معاملات ان کی امیدوں کے مطابق نہیں بلکہ الٹ ہیں ان کو باور کرایا گیا تھا کہ وہ لاہور اپنے قلعے میں واپس پہنچیں گے تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جہاز کو گیر لے گا متوالے انہیں کندھوں اٹھا لیں گے اور پھر ہر طرف شیر ہی شیر ہو گا زیر اعظم پھر نواز شریف ہو گا باقی ہر شے خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گی افسوس ہوا باقی پنجاب کو تو چھوڑیں لاہور نے بھی میاں صاحب کی واپسی پر وی استقبال نہ کیا جو ان کا حق تھا شہباز شریف ائیرپورٹ ہی نہ پہنچے کیوں ؟ اب وہ جتنی چاہے وزاحتیں دیں سب ناقافی ہیں سیاست میں شائد یہی ہوتا ہیں محبت اور جنگ کے بعد سیاست میں بھی سب جائز ہے اقتدار کا کھیل تو بہت ہی باریک کھیل ہے کیا یہ مکافات عمل نہیں جو آج شریف خاندان کے ساتھ ہو رہا ہے ۔