اسلام آباد (ویب ڈیسک) معروف صحافی رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز شریف خاندان کی سزا کا فیصلہ پہلے ہی دے چکے تھے۔اور اس بنچ میں پاکستان کے اگلے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب بھی شامل تھے۔وہ تو کرپشن کی بنیاد پر پہلے ہی نواز شریف کو نا اہل قرار دے چکے تھے ،
جب کہ ان کے ساتھ جسٹس گلزار بھی شامل تھے اور باقی تین ججز نے کہا کہ اس متعلق مزید تحقیقات ہونی چاہئیے۔لیکن ہم نے بھی اس کیس کی تمام سماعتوں کو فالو کیا ہم نے اس کیس کے 9کے قریب والیم پڑھے جس کے بعد یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ بنیادی طور پر کیس ہے کیا۔ رؤف کلاسرا کا مزید کہنا تھا کہ اگر میں مان لوں کہ یہ اثاثے میرے ہیں تو نیب قوانین کے مطابق اثاثوں کے ذرائع بتانا بھی میرا فرض ہے۔اور یہی تمام چیزیں نواز شریف کے وکیل نہیں بتا سکتے،گذشتہ روز کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے سب سے پہلے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے پوچھا تھا کہ یہ اثاثے آپ کے کلائنٹ کے ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جی میرے کلائنٹ کے ہیں۔تو بات یہاں ختم ہو جاتی ہے کہ جب اثاثے آپ کے کلائنٹ کے ہیں تو اثاثوں کے زرائع بھی آپ ہی فراہم کریں۔یہ ایک سوال تھا جو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی پوچھا جانا چاہئیے تھا لیکن انہوں نے نہیں پوچھا جس وجہ سے نواز شریف،مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر رہا ہو گئے۔ رؤف کلاسرا نے مزید کہا کہ جو سوال چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل سے پوچھا وہی سوال ہمت کرکے اسلام آباد ہائیکورٹ کو نواز شریف کے وکیل سے پوچھنا چاہئے تھا۔یہ ایک سوال اسلام آباد ہائیکورٹ دو ہفتوں کے دوران نواز شریف کے وکیل سے نہیں پوچھ سکا۔جب آپ کسی ایک نقطے پر یہ بات مان چکے ہوں کہ جائیداد آپ کی ہے تو پھر اس متعلق ذرائع بتانا بھی آپ کا فرض ہوتا ہے۔