وطنِ عزیز کا منظرنامہ یہ ہے کہ ہمارے ایک وزیراعظم عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں اور ہمارے وفاقی وزیر خزانہ پر (نیب ریفرنسز میں) فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے۔برسرِ اقتدار پارٹی نے اپنے (سابق) وزیراعظم کی نااہلی پر اور خود جناب نواز شریف نے جس سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے، وہ بھی سب کے سامنے آ چکا ہے۔
اکتوبر کا رواں ہفتہ جناب نواز شریف کے لیے نئی آزمائشیں لے کر آیا ہے۔ نااہلی کے فیصلے کے بعد بھی اُن کی مصیبتیں کم نہیں ہُوئی ہیں ۔ جناب نواز شریف مگر گھبرائے ہیں نہ اُن کے اعصاب ٹوٹتے نظر آرہے ہیں۔ وہ اپنی بیمار اہلیہ محترمہ کی عیادت کے لیے لندن گئے تو یار لوگوں نے بے پَر کی اُڑا دی کہ اب وہ واپس آئیں گے نہ ’’نیب‘‘ عدالت میں حاضر ہوں گے۔
انھوں نے مگر اچانک پاکستان واپس آکر اپنے حریفوں کی خواہشات اور قیافوں پر نہ صرف پانی پھیر دیا بلکہ وہ نیب عدالت میں بھی پیش ہوگئے۔ پھر یہ ہوائی اُڑائی گئی کہ نواز شریف فردِ جرم عائد ہونے سے قبل ہی دوبارہ لندن سدھار جائیں گے کہ انھوں نے فوری طور پر دس سال کا برطانوی ویزہ بھی لے لیا ہے۔ نواز شریف نے اِسے بھی غلط ثابت کر دیا کہ وہ ابھی تک پاکستان ہی میں ہیں اور محتسبوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ یوں وہ کمزور ہونے کے بجائے مزید طاقتور نظر آتے ہیں۔
رواں ہفتے میں (دو اور تین اکتوبر کو)اسلام آباد میں مسلم لیگ نون کی جنرل کونسل اور سینٹرل ورکنگ کمیٹی( جس کے مضبوط ارکان کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے)کا اجلاس ہورہا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ جناب نواز شریف کو نئے سرے سے ، اور بھاری اعتمادی مینڈیٹ کے ساتھ، مسلم لیگ نون کا صدر منتخب کیا جائے۔ 22ستمبر2017ء کو سینیٹ نے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 منظور کرکے جناب نواز شریف کے لیے پھر سے اپنی پارٹی کے صدر بننے کی راہیں ہموار کر دی ہیں۔
اکتوبر 2017ء کے اِسی رواں پہلے ہفتے ہمارے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف امریکا پہنچ رہے ہیں۔ خواجہ صاحب ایسے حالات میں امریکا روانہ ہو رہے ہیں جب ’’اقامہ‘‘ کے الزام کی بنیاد پر اِسی ہفتے وہ عدالتی پُرسش سے گزرنے والے ہیں۔یوں ہمارے وزیر داخلہ خاصے دباؤ میں ہیں۔
ایسے دگرگوں حالات میں وہ امریکیوں کے سامنے پاکستان کا مقدمہ لڑ نے جارہے ہیں، جب کہ امریکا میں (5اکتوبر کو) اُن کا سامنا ریکس ٹلرسن ایسے گھاگ وزیر خارجہ سے ہوگا ۔امریکی صدر نے پاکستان کے بارے جس نئی (اورامتیازی)پالیسی کا اعلان کر رکھا ہے، خواجہ آصف کو اس حوالے سے پاکستان کے سخت تحفظات امریکی وزیر خارجہ کے سامنے رکھنے ہیں ۔ چنانچہ ہمارے وزیر خارجہ کو خاصے تناؤ میں امریکیوں سے مکالمہ کرنا ہے۔
دودن پہلے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور ناٹو کے سربراہ جینس اسٹولنبرگ نے بیان دیا ہے کہ صدرِ امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کے حوالے سے ترتیب دی جانے والی پالیسی کے بارے پاکستان میں جس ناراضی کا اظہار کیا جارہا ہے ، بے بنیاد ہے کہ ’’اِس میں بھارت اور پاکستان کو ایک ہی نظر سے دیکھا گیا ہے۔‘‘
اس تازہ ترین پالیسی بیان کی موجودگی میں خواجہ آصف کو رواں ہفتے کے دوران امریکا میں خاصی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نئی حساس صورتحال کا اندازہ امریکی جریدے پولیٹیکو کی ایک تازہ رپورٹ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے پاکستان کا معاشی ناطقہ بند کرنے پر بھی تیار ہے۔
اکتوبر کا یہ پہلا ہفتہ جناب عمران خان کے لیے بھی ’’خطرناک‘‘ ہے۔رواں ہفتے عدالت میں کپتان صاحب کی نااہلی کا مقدمہ شائد اپنے آخری مرحلے میں ثابت ہو۔ اِس مقدمے کے حوالے سے وہ جس ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار ہیں، اس کا اندازہ اُن کے بیانات سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ غالباً یہی ذہنی تناؤ اور ڈپریشن انھیں بار بار نتھیاگلی کے ٹھنڈے جنگلات اور خنک ریسٹ ہاؤسز کی طرف دھکیل رہا ہے ، حالانکہ ’’ کے پی کے‘‘ میں اُن کی ہمہ وقت موجودگی اشد ضروری تھی کہ وہاں ڈنگی نے قیامتِ صغریٰ بپا کر رکھی ہے۔ وہاں مگر انھوں نے ایک بار بھی قدم نہیں رکھا۔
اِس غفلت کو شدت سے محسوس کیا گیا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری سے بیک وقت بیزاری نے جناب عمران خان کو قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کو ہٹا کر اپنا ’’بندہ‘‘ لانے کی راہ پر بھی مائل کیا ہے۔ یہ ایک مشکل اقدام ہے جس کا نتیجہ رواں ہفتے ہی نکلنے والا ہے ۔
کپتان صاحب خود اور اُن کی پارٹی اپنے عزائم کی تکمیل میں جس طرح اپنے پرانے سیاسی حریفوں( مثلاً ایم کیو ایم) کے ترلے منت کرتی نظر آرہی ہے، اِ س منظر نے حیرت کی نئی داستان رقم کی ہے۔ اِسی لیے تو اُن کا ٹھٹھہ بھی اڑایا جا رہا ہے۔ عمران سخت دباؤ کا شکار ہیں کہ یہ نئی مہم کامیابی سے ہمکنارہوتی نظر نہیں آرہی۔ ایوانِ زیریں میں اعداد کا کھیل کھیلنے والے، عمران کی خواہشات پر غالب اور حاوی نظر آرہے ہیں کہ آصف زرداری صاحب بھی نئے عزم کے ساتھ اپنے ’’خورشید‘‘ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے میدان میں کُود پڑے ہیں۔ پانسہ مگر اس کے برعکس بھی پلٹ سکتا ہے کہ پسِ پردہ جاری ڈراموں کی اصلیت اور حقیقت سے کوئی بھی آگاہ نہیں۔
غالباً ’’نیب‘‘ کے نئے سربراہ کا فیصلہ بھی اکتوبر کا یہی پہلا ہفتہ دیکھے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ’’آئی بی‘‘ کے نئے سربراہ کا تقرر بھی اِسی ہفتے عمل میں آجائے کہ بعض سیاستدانوںکے بارے میں ’’آئی بی‘‘ کی ایک مبینہ فہرست نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ اللہ خیر کرے ۔ جو بھی تبدیلیاں عمل میںآئیں ، وطنِ عزیز کے حق میں ثابت ہوں۔