تحریر : میاں کریم اللہ قریشی کرناہی
” قائد اعظم محمد علی جناح نے کراچی میں پرتباک انداز میں قائد ملت چوہدری غلام عباس کا استقبال کیا اور گفتگو کے دوران تین بار فرمایا” غلام عباس تمہیں معلوم ہے ککہ میں جذباتی نہیں ہوں لیکن آج تمہیں دیکھ کر مجھ سے زیادہ خوش اور کوئی نہیں”۔ (ماخوذ ”از کشمکش” ص٣٥٢۔٤٥٢)۔
اگر کشمیر کی تاریخ سے شغف رکھنے والے فاضل حضرات اور مورخین اور محققین کے نزدیک قائد ملت چوہدری غلام عباس کی خود نوشت سوانح حیات”کشمکش”سے ماخوذ مذکورہ بالا الفاظ پر مبنی اقتباس ایک تاریخی حقیقت کا عکاس ہے جو یقینا ہے تو پھر کیا فرمائیں گے اصحاب فکر و دانش اور مسئلہ کشمیر پر گہری نظر رکھنے والے کہ اُنسٹھ برس قبل حضرت قائد اعظم کو چوہدری غلام عباس کو ملکر اگر سب سے زیادہ خوشی ہوئی تھی اور وہ مشکل سے اپنے جذبات پر قابو پاسکے تھے تو اب سی ڈی اے اور پنجاب پولیس نے نہائت ڈھٹھائی سے یلغار کر کے یکے بعد دیگر ے اُن کے مزار کی بے حرمتی کی ہے تو حضرت قائد اعظم کی روح سے زیادہ اور کسے اذیت اور تکلیف پہنچی ہوگی۔ دو قومی نظریہ اور نظریہ الحاق پاکستان کے حامیوں کا ایمان ہے یہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم کی روح کو تو سی ڈی اے اور پنجاب پولیس کے اس بے ادبی اور بد تمیزی کے مظاہرے سے شدید ترین تکلیف پہنچی ہی ہے اور اس کے ساتھ پاکستان اور ریاست جموں وکشمیر کے دونوں حصوں آزاد و مقبوضہ میں بھی اس نفرت آمیز خبر کے جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً پھیل جانے کے باعث شہروں ، قصبوں ، دیہاتوں اور گلی محلوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
جس نے مختلف نوعیت اور مختلف سطح کے متعدد سوالات کو جنم دے کر وزیر اعظم نواز شریف کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل کی طویل فہرست میں اُن کے دوستوں نے ایک سنجیدہ اور خطر ناک مسئلے کا اضافہ کر کے دوستی کا خوب حق ادا کیا ہے۔ وطن عزیز پاکستان کے قیام اور مسئلہ کشمیر کے وجود میں آنے کے دو ملی نظریات ”دو قومی نظریہ”اور ”نظریہ الحاق پاکستان” کے حامی اس بات سے کافی حیران ہیں کہ ایسے ہیں جب پاکستان قیادت بالخصوص وزیر اعظم محمد نواز شریف ایک سنجیدہ مفاہمانہ حکمت عملی کے تحت افواج پاکستان کے سربراہ و سالار جنرل راحیل شریف صاحب سے ملکر ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات خاص طور پر دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما ہیں اور ہمہ وقت ان خطرات و مسائل سے نجات کی صورت کی تلاش میں ہیں ، پاکستان کے بلا تنخواہ سپاہیوں ( کشمیریوں)کی اس قدر دل شکنی کی منصوبہ بندی کے پیچھے جو ظاہری یا خفیہ ہاتھ ہیں اُن کو توڑنا وزیر اعظم ہی کے اختیار میں ہے۔ اور اصحاب فکر و دانش کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ اختیار اُنھیں کسی بڑی خرابی سے پہلے کر گزرنا چاہئے کیوں کہ اگر مرض کی وقت پر تشخیص نہ ہوتی تو وہ کینسر بن جاتی ہے اور کینسر کا علاج اس حیرت انگییز سائنسی ترقی میں گو ممکن ہو گیا ہے لیکن ……. خاصا مشکل تکلیف دہ اور صبر آزما ہے۔
بات چھڑ چکی ہے لیکن ” بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی” کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے ہم اس بات کو دور تلک بڑھا کر پاکستان کشمیر اور وزیر اعظم نواز شریف کے مخالفین کو تنقیدی مواد فراہم نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی آزاد کشمیر کے بعض ناراض قائدین جن کا دل ہم سے جدا نہیں ہوا اور نہ ہو گا”نون لیگ” کے کسی لینڈ مافیہ کی ہمنوائی پر اُن کی شان میں گستاخی کریں گے۔ ان سب حضرات نے مسلم کانفرنس کے قائدین بالخصوص بانی تحریک آزادی کشمیر جناب مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم سے ہی سیاسی فیض حاصل کیا اور راقم الستور کے مشاہدے اور یقین کے مطابق مجاہد اول کے ساتھ بیتے لمحات ان قائدین کی زندگی کا سرمایہ حیات ہیں۔
بوجوہ اس حقیقت کے اظہار سے مغر اُن کے اذہان و قلوب پر یقینا کسی بڑے اور ناقابل برداشت بوجھ سے کسی صورت کم نہیں، راقم الستور سمیت ان کے تمام خیر خواہیوں کو اُن کے اس کرب پر بڑا افسوس ہے۔ تاہم یہ علیحدہ موضوع ہے اس پر آئندہ ضرور بات کریں گے یہاں اختصار کے ساتھ صرف اصحاب فکر و دانش کے ان خدشات کا ذکر کرتے چلیں کہ ”نون لیگ” کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد جنوری 2015 ء سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر کشمیر اور پاکستان کے الحاق کی علامت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کے مزار کی بے حرمتی ”چہ مفی دارد”۔ اس ملک اور قوم دشمن اقدام سے جنم لینے والے سوالات کی تفصیل کے اندراج سے قبل اس وقوع کی مختصر تفصیل اصحاب فکر و دانش اور معزز قارئین کی فوری معلومات Ready reference اور توجہ کے لیے درج کرنا مناسب خیال کی گئی ہے جو یوں ہے:۔
سال 1967 ء دسمبر کی 18 تاریخ کو رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس رحلت فرما گئے تو پاکستان کو کشمیریوں کی منزل قرار دے کر کشمیریوں کو پاکستان پر نثار ہو جانے کا درس دے جانے والے اُس مرد قلندر کی تدفین کے لیے زمین فراہم کرنے کے فرائض حکومت پاکستان کی بجائے صدر فیض الاسلام میاں حیات بخش صاحب نے انجام دیئے اور چوہدری صاحب کے مزار کے شایان شان ایک قطعہ اراضی فراہم کیا۔ فیض الاسلام کو اپنی تعلیمی و رفاعی سرگرمیاں سرانجام دینے کے لیے اس اراضی کے حصول میں چوہدری غلام عباس صاحب کا ایک اہم کردار تھا لیکن اُنھوں نے اور نہ ہی اُن کے جانشین مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان صاحب نے ہی اس بات کا کسی محفل میں ذکر کیا۔
تاہم معقول ذرائع سے پہنچنے والی یہ راوائت آئندہ کے مورخ کو حقیقت تک رسائی میں ضرور مدد کرے گی۔ 1967 ء سے 18 دسمبر 2015 ء تک ہر سال چوہدری صاحب کی برسی پر ابتداً تو میاں حیات بخش صاحب اور اُن کے بعد فیض الاسلام کا سربراہ یا اُن کا نمائندہ شریک ہوتا ہے جب کہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کے وزراء ، ملک بھر کی سیاسی شخصیات ، حامی و مخالف نظریات کے حضرات اور اعلی حکام تقریب میں شرکت فرماتے رہے ہیں اور چوہدری صاحب کے مزار اور اس کے بیرونی احاطہ اور جی ٹی روڈ تک لنک روڈ یا کسی بھی Sign Board اور پارکنگ پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیالیکن نون لیگ کے اکثر لینڈ مافیا گروپ نے اس قوم و ملک دشمن اقدام کے انجام و اثرات کے خدشات کو دولت و اقتدار کے نشے میں قطعاً فراموش کرتے ہوئے جنوری 2015 ء میں نہ صرف چوہدری صاحب کے مزار میں داخلے کے راستے کو محدود کر دیا بلکہ بیرونی گیٹ بھی اُکھاڑ پھینکا جس پر آزاد کشمیر اسمبلی میں زبردست احتجاج ہوا اور بشمول ممبران نون لیگ اس اقدام کی تمام ممبران اسمبلی نے شدید مذمت کی۔
اس پر معاملہ کو بعض اصحاب نظر نے مزید بڑھنے سے روکتے ہوئے مفاہمت کروا دی اور مزار سے باہر ملحقہ حدود کے سامنے ایک Sign board آویزاں کر دیا گیا کہ یہ احاطہ آزا دکشمیر حکومت کی ملکیت ہے۔ اسی طرح گیٹ بھی درست کروادیا گیا لیکن حالیہ ایام میں وزیر اعظم نواز شریف اور سالار افواج پاکستان جنرل راحیل شریف کے ملک کے اندر اور ملک کے باہر دوروں ،سنجیدہ مصروفیات اور دوسرے ملکی معاملات میں اُن کی ہمہ وقتی توجہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ”نون لیگ” کے ایک لینڈ مافیا گروپ نے 23 جنوری 2016 ء بروز ہفتہ سی ڈی اے اور پنجاب پولیس کے مسلح دستے سے چوہدری غلام عباس کے مقبرے کی بے حرمتی کا ارتکاب کروایا۔ مزار پر مامور پولیس گارڈ کو زدو کوب کیا گیا اور دو گھنٹے کے قریب گاڑی میں بند رکھا اور اس دوران مزار کا بیرونی گیڈ بلڈوز ز لگا کر توڑ دیا۔
نون لیگ کے لینڈ مافیہ، سی ڈی اے اور پنجاب پولیس کی طرف سے یہ حکومت آزاد کشمیر پر براہ راست حملہ تھا جس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے دوسرے روز 24 جنوری بروز اتوار وزیر اعظم آزاد کشمیر اپنے افسران اور پولیس برو ز اتوار وزیر اعظم آزاد کشمیر اپنے افسران اور پولیس گارڈ سمیت موقع پر پہنچے جہاں شنید کے مطابق پنجاب پولیس کے افسران نے معذرت کر لی اور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے پورا دن وہیں رہ کر گیڈ کو دوبارہ اپنی جگہ لگوایا اور دوسرے Sign board بھی آویزاں کرائے لیکن وزیر اعظم آزاد کشمیر اور اُن کے عملہ کے رخصت ہونے کے بعد رات تقریبا آٹھ بجے دوبارہ پنجاب پولیس اور سی ڈے اے کے لوگوں نے دھاوا بول کر گیڈ توڑ دیا اور” الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ” کے مصداق مزار پر تعینات پولیس عملے اور مسجد کے امام و موذن کے خلاف ایف آئی آر بھی کٹا دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ” کیا فرماتے ہیں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف بیچ اس مسئلے کے”جس نے متعدد سوالات کو جنم دے دیا ہے جن میں چند اہم حسب ذیل ہیں۔
١۔ کیا یہ وزیر اعظم مودی کو پیغام ہے کہ ہم کشمیر کے معاملے میں ہاتھ ہلکا رکھنے پر رضا مند ہیں؟
٢۔ کیا وزیر اعظم نواز شریف کی کشمیریوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو کم کرنا ہے یا متنازعہ بنانا ہے؟
٣۔ کیا ان کشمیریوں کی پاکستان سے وابستگی کے جذبے کو ختم کرنے کی سازش ہے جن کی چوتھی نسل تکمیل پاکستان کے لیے سروں کی فصلیں کٹوا رہی ہے؟
٤۔ کیا یہ سازش”کشمیر بنے گا پاکستان”سے منحرف کرنے کی سازش ہے؟
٥۔ کیا یہ سازش ریاست جموں وکشمیر کے آزاد و مقبوضہ دونوں میں”کشمیر بنے گا خود مختار ” کے نعرے کو تقویت دینے کے لیے کئی گئی ہے؟
٦۔ کیا یہ سید علی شاہ گیلانی اور حریت کے دوسرے راہنمائوں کو یہ پیغام ہے کہ ہم تمہارے قائد کے مزار کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟
ان تمام اور دوسرے بہت سارے سوالات کے جوابات اور ناراض قائدین کے بیانات اگلی اقساط کی زینت ہوں گے انشاءاللہ
تحریر :میاں کریم اللہ قریشی کرناہی