تحریر : میر افسر امان
ایم کیو ایم کے قائد برسوں سے پاکستان کی اساس،دو قومی نظریہ اورپاکستان کے اسلامی تشخص پر اعلانیہ حملے کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں۔پاکستان کے آئین کی کھلی خلاف وردی کے باوجود سیاسی ضرورتوںکے تحت حکمران سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم پر پابندی لگانے سے صرف نظر کرتی رہیں ہیں اور کر رہی ہیں۔پاکستان کے عوام جو اسلام اور نظریہ پاکستان کے شیدائی ہیں ایم کیو ایم کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ ایم کیو ایم کو ڈکٹیٹر ضیا الحق نے بنایا تھا۔ڈکٹیٹر پرویزمشرف نے اس کی آبیاری کی اور ملک کی دو سیاسی جماعتوں نے سیاسی ضرورتوں کے تحت ایم کیو ایم سے بازپرس تک نہیں کی۔ فوج نے تو اس کی ملک دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے ١٩٩٢ء اس کے خلاف ملٹری آپریشن کیا تھا۔ جناح پور کے نقشے بھی برآمند کیے تھے۔ ٹارچر سیل بھی عوام کے سامنے آئے تھے۔ مگر اس کے بعد نواز شریف نے کروڑوں روپوں سے ایم کیو ایم کی مدد کی تھی۔بے نظیر مرحوم نے تو ایک دفعہ جہاں تک کہہ دیا تھا کہ ایم کیو ایم نے ملک کے خلاف منی بغاوت شروع کی ہوئی ہے۔
پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے ایم کیو ایم کے خلاف سخت ایکشن بھی لیا تھا۔نواز شریف نے بھی ملک کے مایا ناز اور محب وطن حکیم سعید صاحب کے قتل کے وقت ایم کیو ایم کے خلاف کچھ کارروائی کی تھی۔ مگر یہ سب اقدام نامکمل اور ادھورے تھے۔ الطاف حسین نے ملک سے محبت کرنے والے اردو بولنے پاکستان کی آبادی کو ملک کے خلاف اُکساتے رہے اور بلا آخر نفرت اور لسانیت کاز ہر گھولنے میں کامیاب بھی ہو گئے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں کے اردو بولنے والے تو صوبوں کی آبادی میں ضم ہو گئے تھے اور الطاف حسین کی لسانیت کے زہر کو اپنے قریب نہیں آنے دیا مگر صوبہ سندھ جس میں اردوربولنے والوں کی زیادہ آبادی ہے۔
الطاف حسین کی لسانیت بھری زہر کے سحر میں مبتلا ہوگئے ہیں۔الطاف حسین نے سب پہلے کراچی قائد اعظم کے مزار کے سامنے پاکستان کا جھنڈا جلایا تھا۔اردو بولنے والے جن کے ہاتھ میں ہمیشہ قلم اور دلیل ہوتی تھی جو پاکستان کے محب وطن شہری تھے اور اب ہیں، اُن کو اُکسایا اورحقوق یا موت کا نعرہ دیا۔ ٹی وی اوروی سی آر فروخت کرو اور اسلحہ خریدو کا کہا تھا۔ را سے کئی دفعہ مدد کی اپیل کی۔ کارکنوں سے کہا کہ شام کو کلفٹن کے میدان میں جا کر اسلحہ چلانے کی کی ٹرنینگ کرو ۔دبائو اور خوف کی کیفیت میں کارکن جی بھئی ہاں بھئی کہتے رہتے ہیں۔پاکستان کے دشمن (مرحوم) جی ایم سید(غلام مصطفٰے سید) جو جئے سندھ نعرے کا بانی تھا، جس نے بھارت جا کر اندرہ گاندھی کو پاکستان پر حملے کی دعوت دی تھی ،سے دوستی کی اور کہا سندھی مہاجر بھائی بھائی نسوار اور دھوتی کہا ںسے آئی۔ یعنی سندھ میں رہنے والے مہاجر اور سندھی تو بھائی بھائی ہیں یہ پٹھان اور پنجابی سندھ میں کہاں سے آ گئے۔
کراچی میں فسادات کروائے پاکستانیوں کو آپس میں لڑوایا۔پھر اسی جئے سندھ کے کارکنوں حیدر آباد میں بے گناہ اردو بونے والے ٣٠٠ شہریوں کو ایک دن میں دس جگہ حملہ کر کے شہید کر دیا۔ دوسرے دن الطاف حسین کے دہشت گردوں نے کراچی میں ٥٠ سے زائد سندھی مچھروں کو بسوں سے اُتار کر بے گناہ شہید کر دیا۔ پھر پیپلز پارٹی سے لڑائی شروع کی۔ اس وقت کے فوجی جرنل آصف جنجوعہ صاحب نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے یرغمالی کارکنوں کو ایک دوسرے کے کیمپوں سے رہا کروایا۔اس کے بعد فسادی الطاف حسین نے جماعت اسلامی سے لڑائی مول لی اور اس کے ١٢ کارکنوں کو شہید کروا دیا۔ اس کے بعد عامر خان اور آفاق احمدالطاف حسین سے ٢٤سال پہلے بھارت کا را کا ایجنٹ ہونے کا انکشاف کر کے علیحدہ ہو گئے۔ پھر الطاف حسین نے نیا نعرہ دیا جو قائد اکا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے۔دونوں طرف سے سیکڑوں کارکن مارے گئے۔
پھر الطاف حسین کے عسکری ونگ کے مسلح ٣٥٠٠٠ دہشت گردوں کا انکشاف ہوا۔جس کی خبر پہلے کراچی کے انگریزی اخبار نے نشر کی اور اس کے بعد ایک اردو اخبار نے سرخی لگائی۔ کیا یہی مسلح کارکن کراچی کا امن تباہ وبرباد نہیں کرتے رہے؟۔ دہلی میں دو قومی نظریہ کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ہند کی تقسیم ایک سنگین غلطی تھی اور کہا کہ دلی والوں مہاجر واپس آ جائیں توتم قبول کرو گے؟کراچی جو منی پاکستان ہے اسے تیس سال تک یرغمال بنائے رکھا۔ ایک فون کال پر شہر بند کروا دیا جاتا تھا۔ اُدھر کشمیر میں بھارتی قابض فوج کے خلاف جب ہڑتال ہوتی تو کراچی میں کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اسلحہ کے زور پرشہر کو بند کروا دیا جاتارہا۔
ایم کیو ایم کے ایک صوبائی ممبر کے قتل پر کراچی کے ٢٠٠ مظلوموں کو قتل کروا دیا۔پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف نازیبا گفتگو کر کے اور فوج کے لوگوں کے نام لے لے انہیں پھانسیوں پر چڑھانے کی باتیں کرتا رہا۔ بلا آخر ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر کراچی میں ٹارگیٹڈ آپریش شروع ہوا۔ پاکستان کے رینجرز نے دن رات محنت کر کے کراچی کا امن بحال کیا ۔پاکستان کا صنعتی شہر جو پاکستان کو ٧٠ فی صد ریونیو کما کر دیتا ہے اس کی رونقیں بحال ہوئی ہیں۔ پاکستان میں جن دہشت گرد مسلح تنظیموں پر پابندی لگائی گئی تھی ان کے دہشت گردوں کو پاکستان رینجرز گرفتار کر رہی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے دہشت گرد جن کا تعلق عسکری ونگ سے ہے کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے۔ہر پکڑا جانے والا قتل و غارت اور را سے ٹرنینگ کا اقرار کر رہا ہے۔
کراچی کا امن الطاف حسین کو ایک نظر بھی پسند نہیں۔الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے ہڑتالی کارکنوں کے سامنے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے۔پاکستان و ناسور کہا اور ایسی باتیں کی جو ایک محب وطن پاکستانی بیان نہیں کر سکتا۔ کار کنوں کو رینجرز ہیڈ کواٹر اور نجی ٹیلیوژن کے دفتروں پر حملے کا حکم دیا۔ مسلح کارکنوں نے اس پر عمل کرتے ہوئے نجی ٹی وی کے دفتر پر حملہ کیا اور اس کے کارکنوں کوزخمی کیا ۔اس دوران دو شہری شہید بھی ہو گئے۔ اس پر قانون حرکت میں آیا اور شہر میں ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔عدالت میں پیش کیا ۔ وہی حملہ کرنے والے کارکن جو الطاف حسین کے حکم پر ایک دن پہلے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے پھرربوٹ کی طرح کسی کے حکم پر ایک دم عدالتی پیشی پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔شہر میں ایم کیو ایم کے دفاتر سیل کر دیے گئے ہیں۔ عوامی جگہوں ناجائز طور پر تعمیر کیے گئے دفاتر کو مسمار کیا جا رہا ہے۔٩٠ زیرو کے ارد گرد الطاف حسین کی تصویریںاُتار دی گئیں۔ مکہ چوک کو شہید ملت لیاقت علی خان کا نام دے دیا گیا ہے۔
فاروق ستار نے خطرے کی بُو سونگھتے ہوئے کہ شاید ایم کیو ایم پر مقتدر حلقوں نے پابندی کا ارادہ کرلیا پریس کانفرنس کر کے الطاف حسین سے لا تعلقی کا اعلان کیا جو ایک ڈرامہ ہے۔ الطاف حسین نے بھی فاروق ستار کے اس بیان کی تاہید کر دی۔ دوسری دن امریکامیں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے، پاکستان کے خلاف پہلے سے زیادہ گندی زبان استعمال کی اور کہا ہندوئوں ہمیں معاف کر دو۔پھر سائوتھ افرقہ خطاب کرتے ہوئے بھارت اور اسرائیل سے مدد کی اپیل کر کے پاکستان دشمن ہونے کا آخری ثبوت بھی خود ہی پیش کر دیا۔
نواز شریف صاحب آپ نے قوم کے سامنے بیان دیا کہ پاکستان کے خلاف کہے گئے ایک ایک لفظ کا حساب لیا جائے گا ۔ اب پاکستان کے عوام آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم پر پاکستان کے قانون کے مطابق پابندی کا فوراً اعلان کریں جیسے مرحوم بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے پاکستان خلاف بیان پر کارروائی کرتے ہوئے پابندی لگائی تھی۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین۔
تحریر : میر افسر امان