تحریر : رشید احمد نعیم
کسی ملک کے وزیراعظم پر یہ وقت آگیا کہ ساری حکومت اور عوام اس کے خلاف ہو گئی اور اس کو یہ احساس ہو گیا کہ اب اس کا مزید اقتدار میںرہنا ناممکن ہے کیونکہ اس کو حالات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کی بادشاہت کا سورج غروب ہو جائے گااور مخالف پارٹی کا سربراہ اگلے الیکشن میں وزیراعظم ہو گا۔اس نے دو لفافے تیار کئے اور مخالف پارٹی کے سربراہ کو یہ کہہ کر دے دیے کہ ”مجھے معلوم ہے کہ اب تم ہی وزیراعظم بنو گے لہذا یہ لفافے اپنے پاس رکھ لو اور کبھی بُرا وقت آئے توپہلا اور دوبارہ آ ئے تو دوسرا لفافہ کھول لینا”۔وقت گزرتا گیا ۔مخالف پارٹی کاسربراہ وزیراعظم بن گیا اور حکومت چلانے لگا ۔آخر کار اس پر بھی بُرا وقت آگیا سب اس کے مخالف ہو گئے تو اس کو سابق وزیراعظم کی بات یاد آئی کہ جب بُرا وقت آئے تو پہلا لفافہ کھول لینا۔
اس نے پہلا لفافہ کھولا لکھا تھا ” سب کچھ مُجھ پر یعنی سابق وزیراعظم پر ڈال دو” اس نے ایسا ہی کیا۔اور کامیاب رہا تین چار سال مزید گزر گئے۔ایک مر تبہ پھر بُرا وقت آگیا اور وزیراعظم سیاسی بحران میں گھر گیا تو اس نے سابق وزیراعظم کی بات کو سامنے رکھتے ہوئے دوسرا لفافہ کھولا اس میں لکھا ہوا تھا ” اب تم بھی دو لفافے تیار کر لو” میا ں نوازشریف صاحب ! اب آپ بھی جلدی سے دو لفافے تیار کر لیں کیونکہ اب آپ کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہونے والا ہے کیونکہ آپ اپنا پہلا لفافہ عمران خان ا ور طاہرالقادری کے دھرنوں کے موقع پر کھول چکے ہیںجب سارے بدعنوان سیاستدان اپنے اپنے مفادات کی خاطرجمہوریت بچائو کے نام نہاد نعرے لگاتے ہوے ایک چھتری تلے جمع ہو کر تھرڈ ایمپائر کا رونارونے لگے تھے کہ ان دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ ہیں مگر اب” پانامالیکس”کے پیچھے کن خفیہ ہاتھوں کی طرف اشارہ کریں گے؟؟؟ کیونکہ پاناما لیکس کی یہ سٹوری کسی زرد صحافت کے چیمئپن یا لفافہ بردار صحافی کی ترتیب دی ہوئی نہیں ہے۔
بلکہ یہ ایک جرمن اخبار کی ایک سالہ محنت و تحقیق کا نتیجہ ہے ایک سال پہلے ایک جرمن اخبار سے ایک نامعلوم شخص رابطہ کرتا ہے اور اسے “موزیک فونیسکا” نامی مشہور لا فرم کے انتہائی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس دینے کی پیشکش کرتا ہے۔ اگر تو کوئی پاکستانی اخبار ہوتا تو یہ انفارمیشن لے کر بریکنگ نیوز دے دیتا، لیکن جرمن اخبار نے یہ تمام ڈاکومنٹس ” انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس” کے حوالے کردیں اور پوری دنیا کی 80 صحافتی تنظیموں کے 107 نمائندگان نے پورا ایک سال ان ڈاکومنٹس پر ریسرچ کی اور بالآخر پتہ چلا لیا کہ وہ تمام ڈاکومنٹس بالکل اوریجنل اور درست ہیںجرمن اخبار نے اس تمام ڈیٹا کی سمری رپورٹ جاری کی ہے اور اسے “پانامہ پیپرز لیک” کا نام دیا گیا ہے۔
آج تک ہونے والے تمام لیکس میں یہ سب سے بڑا لیک ہے جس میں تقریباً سوا کروڑ ڈاکومنٹس ہیں جو کہ 2 اعشاریہ 6 ٹیرا بائیٹس پر مشتمل ہے۔پانامہ لیکس میںجس لا فرم کا ڈیٹا چرایا گیا ہے وہ فرم دراصل پانامہ میں قائم ہوئی اور اس کے پوری دنیا میں 40 کے قریب دفاتر ہیں۔ یہ فرم دنیا کی چوتھی بڑی لا فرم ہے اور اس کی وجہ شہرت بڑی بڑی شخصیات کے اثاثے چھپانے اور ٹیکس چوری میں مدد دینا ہے۔ان ڈاکومنٹس میں ویسے تو کئی لوگوں کے نام آچکے ہیں جن میں 12 ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے اپنے ممالک کے نیشنل لیڈرز ہیں یا ماضی میں رہے ہیں۔
ان میں آئس لینڈ، روس، عراق، یوکرائن، مصر وغیرہ شامل ہیں۔ان بارہ ممالک میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے اور پانامہ پیپرز میں واشگاف الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح شریف فیملی بشمول نوازشریف، شہبازشریف، حسن نواز اور مریم نواز کے اربوں ڈالر سوئیٹزرلینڈ، برطانہ اور دوسرے ممالک میں ” آف شؤر ٹیکس ہیون ” کے طور پر محفوظ ہیں۔ ان اثاثہ جات کو شریف فیملی نے کبھی بھی ڈیکلئیر نہیں کیا، کیونکہ اگر وہ ایسے کرتے تو پہلے تو یہ بتانا پڑتا کہ یہ دولت کہاں سے آئی؟؟؟ اور پھر یہ پوچھا جاتا کہ اس پر ٹیکس کیوں نہیں دیا؟؟؟۔
میاں نوازشریف صا حب !اتنی مستند رپورٹ اور نا قابل ِتردید شوائد و ثبوت منظرعام پر آنے کے بعد اخلاقی لحاظ سے آپ حقِ حکمرانی سے محروم ہو چکے ہیں اب آپ کے پاس اقتدار سے چمٹے رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کیونکہ پاناما لیکس کی رپورٹ کو دنیا بھر میں مصدقہ و مستند رپورٹ تصور کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آئس لینڈ اور یو کرائن کے وزیراعظم کو اپنے منصب سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ پرویزرشید، دانیال عزیز ،سعد رفیق ، رانا ثناء اللہ ،خواجہ آصف اور زعیم قادری جیسے مسلم لیگی راہنما جن کو سچ بولنے ،سچ سننے اور سچ کا سامنا کرنے سے نفرت ہے وہ بغیر کسی دلیل کے صرف اپنے ذاتی مفادات کی خاطرجذباتی ہو کر حقائق سے انحراف کر رہے ہیںجبکہ ان کے لب و لہجہ سے صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ان کا ضمیر ان کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔کیونکہ وہ اندر سے سب سمجھتے اور جانتے ہیں۔
وطن عزیز پاکستان کی دولت نا جائز طریقے سے بیرون ملک منتقل ہوئی ہے۔اب تو آپ کی فرئینڈلی اپوزیشن جماعت پیپلزپارٹی بھی آپ کے خلاف میدان میں آ گئی ہے پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے بھی کہہ دیا ہے کہ” پاناما لیکس ایک غیر معمولی معاملہ ہے اور اس کی گرفت میں دنیا بھر کی اہم اور سیاسی شخصیات آئی ہیں، ان تمام شخصیات کا احتساب لازمی ہے۔ ہمارے وزیراعظم کا تو پورا خاندان ہی آف شور کمپنیوں میں ملوث پایا گیا ہے جب کہ نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے تو اس کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ وزیراعظم نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سابق ججوں پر مشتمل انکوائری کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے، ان ججز پر وزیر اعظم نواز شریف کی چمک کا گہرا اثر ہوگا۔
اس کی ماضی کی مثال اصغر خان کیس سمیت دیگر عدالتی فیصلے ریکارڈ پر موجود ہیں اس لئے پاناما لیکس کی تحقیقات حاضر یا ریٹائر جج سے نہیں بلکہ بین الاقوامی آڈٹ فرم سے فرانزک آڈٹ کرایا جائے اور پاکستان کا پیسہ جہاں بھی گیا وہاں سے واپس لایا جائے”۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ” نیب سندھ میں تو کارروائیاں کررہی ہے لیکن تعجب کی بات ہے کہ پاناما لیکس پرخاموش ہے، ایف آئی اے اور نیب کو چاہئے کہ اس معاملے کا خود نوٹس لے ا گر وزیراعظم نے کسی جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کی ٹھان لی ہے تو اس کے لئے بہترین شخصیت چیف جسٹس آف پاکستان ہی ہیں”۔
جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بنی گالہ میں خطاب کرتے ہوے میاں نوازشریف سے مطالبہ کیا ہے کہ” میاں صاحب فوری طوری پر وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیں”۔اس وقت تمام سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف ہو چکی ہیں ۔جس طرح قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہو ے عمران خان نے ا پنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے اسی طرح آپ بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیں ورنہ احتساب تو آپ کا ہونا ہی ہے آج نہیں تو کل کیونکہ زمینی حقا ئق چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اب آ پ کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کو ہے کیونکہ باطل جتنا بھی طاقتوار ہو جاے آخر زوال آتا ہی ہے اور آپ کے زوال کی گنتی شروع ہو گئی بہتر ہے کہ آپ بھی دو لفافے تیار کر لیں۔
تحریر : رشید احمد نعیم