سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی کو جب ختم ہوتے دیکھا تو ایک نعرہ لگایا “میں اب نظریاتی ہو گیا ہوں۔” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1981ء میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دوران بطور پنجاب کے وزیر خزانہ عملی سیاست میں قدم رکھنے والے میاں محمد نواز شریف 38 سال تک نظریاتی نہیں تھے تو کیا تھے؟ ویسے نواز شریف نے کہا تو سچ ہی ہے کہ وہ پہلے نظریاتی نہیں تھے۔ وہ تو پہلے مالیاتی تھے۔ نظریہ ایک سوچ و فکر کا نام ہے۔ پاکستان کی نسبت اگر نظریہ کو دیکھیں تو دو قومی نظریہ سے سوچ و فکر کو سمجھا جاسکتا ہے۔
علامہ اقبال کے تصور اور قائداعظم کی قیادت نے مسلمانوں میں اس نظریہ کو تقویت دی۔ یہ ایک نظریہ ہی تھا جس نے تمام مسالک اور سیاسی جماعتوں کو قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے پاکستان کے قیام کی صورت میں اس نظریہ کی تکمیل کو ممکن بنایا۔ ایک نظریہ پر متفق ہوئے بغیر الگ ملک کا حصول ممکن نہیں تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں نظام شروع دن سے ہی سیاست کا شکار رہا۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، ملک کی ترقی کےلیے کوئی قدم اٹھانے پر غور و فکر نہیں کیا جاتا رہا بلکہ اپوزیشن حکومت کو گرانے میں اور حکومت اگلے الیکشن میں دوبارہ کیسے حکومت میں آنا ہے، اسی فکر میں رہی۔ لیکن سیاست کو بزنس کی شکل دینے کا کریڈیٹ میاں نواز شریف کو جاتا ہے۔ جس کا باقاعدہ آغاز چھانگا مانگا سے ہوا۔ اور یہ ہی وہ وقت تھا جب اپنے والد مرحوم میاں محمد شریف کے مذہبی رہنما ڈاکٹر طاہرالقادری سے شریف فیملی کے تعلقات میں دوریاں پیدا ہوئیں۔
اس تعلق کے ختم ہونے کی وجہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ مالیاتی پہلو ہی تھا، کیوں کہ ڈاکٹر قادری اپنے علمی اور خطابت کے فن سے شریف برادران کے اس سیاسی کاروبار میں کردار ادا کرنے سے انکار ی تھے۔ سیاست کے اس بزنس میں ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے بھی ساتھ دینے کا فیصلہ کیا. یوں سیاسیت کا یہ کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ جیسے جیسے اس کاروبار میں منافع بڑھتا گیا، سیاست کی منزل پر بھی قدم بہ قدم اڑان اونچی ہوتی چلی گئی۔ پنجاب شہباز شریف کے حوالے کر کے نواز شریف نے وفاق میں قدم جما لیے۔ سیاست کی بلندی کے ساتھ کاروبار بھی آسمان کی اونچائی پر پہنچنے لگا۔ اور اس کاروبار نے اپنی ترقی سے پاکستان کی سرحدیں کراس کرتے ہوئے دنیا بھر میں قدم جمانے شروع کر دیے۔ پھرپاکستان ہو یا انڈیا، عرب ممالک ہو یا لندن، نیوزی لینڈ ہو یا آسٹریلیا یا پھر پانامہ کا جزیرہ، ان کے کاروبار کے مرکز بنتے چلے گئے۔
نظریہ کسی بھی جماعت کےلیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جب کسی جماعت کی قیادت اپنے کارکنوں کی نظریاتی و علمی تربیت کرتی ہے تو ہی وہ جماعت تنظیم اور تحریک کی شکل اختیار کرتی ہے۔ نظریاتی قیادت اپنے کارکنوں کی تربیت کو اول ترجیح دیتی ہے۔ کارکن ہی اس تحریک کی طاقت ہوتے ہیں اور کارکن ہی اس کا سرمایہ۔ لیکن جب کسی جماعت کی قیادت کا مقصد سیاست اپنے بزنس کا عروج بن جائے، ملک کی سالمیت پر بزنس کا مفاد حاوی ہو جائے، سرحدوں کے دشمن سے کاروباری مراسم قائم ہوجائیں، سیاست کے کاروبار کے تحفظ کےلیے اپنی عوام کا قتل عام معمول بن جائے، اپنی کرسی کے تحفظ کےلیے ملکی قوانین میں تبدیلی معمولی بات سمجھی جانے لگے، مک مکا کی سیاست کو میثاق جمہوریت کا نام دیا جانے لگے، اپنی جماعت کی مضبوطی کا انحصار کارکن کی بجائے دولت پر رکھ لیا جائے، جب آپ کی سوچ اور ہر قدم اپنے مال اور کرسی پر ہو تو پھر نظریات کی بات ایسی قیادت کی زبان سے اپنے کارکنوں اور پاکستانی عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہی ہوگا۔