پانامہ کیس کے فیصلے میں نااہلی کے بعد سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا اسلام آباد سے لاہور تک کا مارچ چار دن کے بعد ہفتہ کو اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ یہ مارچ کامیاب رہا یا ناکام؟ نواز شریف نے کیا کھویا اور کیا پایا اور وہ اس مارچ کے ذریعے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے، آج کل یہی موضوع زیر بحث ہے۔ ن لیگ میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر رد عمل کے حوالے سے دو آراء تھیں ۔پہلی یہ کہ فیصلے پر احتجاج تو کیا جائے مگر کسی قسم کے ایجی ٹیشن سے گریز کیا جائے تاکہ عدلیہ کے مشتعل ہونے کا کوئی امکان پیدا نہ ہو۔چوہدری نثار اس رائے کے پرزور حامی تھے اور پارٹی کے بیشتر سینئر رہنما اسی خیال کے حامی تھے۔چوہدری نثار نے اپنی پریس کانفرنس میں میاں صاحب کو کھل کر مشورہ بھی دیا تھا کہ فیصلہ آپ کے خلاف آئے تو صبر اور حق میں آئے تو شکرادا کریں۔
اداروں سے ٹکراؤ کی طرف نہ جائیں۔دوسری رائے تھی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔نااہلی کے خلاف رائے عامہ کو متحرک کیا جائے اور میاں صاحب کو اسلام آباد سے لاہور موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ سے لیجایا جائے تاکہ انھیں زیادہ سے زیادہ عوام سے خطاب کا موقع مل سکے اور وہ’’ یا اللہ یا رسول۔نواز شریف بے قصور ‘‘کا پر اثر ماحول بنا سکیں۔ میاں صاحب نے دوسری قسم کی رائے کو اپنانے کا فیصلہ کیا اور مارچ کے دوران خود کو مظلوم ثابت کرنے کی بھرپورکوشش کرتے ہوئے عوام کو یہ باور کراتے رہے کہ میں معصوم ہوں، میں نے کوئی کرپشن نہیں کی، میرا جرم ایسا نہیں تھا کہ اتنی زیادہ سزا دی جاتی، عوام نے ان کی بات قبول کی یا نہیں، یہ تو 2018 کے عام انتخابات میں ہی معلوم ہوسکے گا کہ برطرفی کے بعد نواز شریف عوامی طاقت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے یا نہیں۔
تاہم اس مارچ سے نواز لیگ کو فوری طور پر فائدہ یہ ہوا ہے کہ میاں صاحب کی نااہلی کے بعد ان کی پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا شروع ہونے والا عمل رک گیا ہے، ان کے مخالفین کا خیال تھا کہ نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیگی، لیکن فوری طور پر ایسا نہیں ہوا، ن لیگ کے کئی حصوں میں تقسیم ہونے کے خدشے درست ثابت نہیں ہوئے۔ پاناما فیصلے کے بعد ن لیگ کے اراکین پارلیمنٹ اور رہنماؤں نے اتحاد کا مظاہرہ کرکے یہ عندیہ دیا کہ وہ اب بھی نواز شریف کی قیادت پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور ان کا فیصلہ حسب روایت تسلیم کرتے ہیں۔
ن لیگ کے مخالفین کی جانب سے مارچ میں سینئر قیادت کی غیر موجودگی کا حوالہ دیکر پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ کی کہانی تو سنائی جارہی ہے تاہم مارچ میں سینئر قیادت کی غیر موجودگی کوئی اتنی خاص اہمیت کی حامل نہیں کیونکہ مسلم لیگ (ن) عوام میں نواز شریف کی بدولت ہی جانی پہچانی جاتی ہے۔ جہاں تک رہی بات مارچ میں شرکاء کی تعداد کی تو حقیقت یہی ہے کہ مارچ میں انھیں جگہ جگہ پذیرائی ملی، عوام کی تعداد اس قدر کم نہیں تھی کہ اسے فلاپ شو کہا جاسکے تاہم تعداد اس قدر زیادہ بھی نہیں تھی، ایک ایسی جماعت جس کی حکومت ہو، پارلیمان میں جس کی اکثریت ہو اور مارچ کا گزر بھی ان ہی علاقوں سے ہو جہاں سے ن لیگ کے رہنماؤں نے الیکشن میں کامیابی حاصل کر رکھی ہو، وہاں تو لاکھوں کا اژدھام ہونا چاہیے تھا مگر وہ دیکھنے میں نہیں آیا، یہ کہنا کہ عوام کی غیر معمولی تعداد تھی غلط ہے اور یہ کہنا کہ یہ ایک فلاپ شو تھا یہ بھی درست نہیں۔
مارچ کا مقصد اگر اداروں بالخصوص نیب پر دباؤ ڈال کر ریفرنسز میں ریلیف حاصل کرنا تھا تو اس میں مسلم لیگ (ن) کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکے گی، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت تو اب بھی مسلم لیگ (ن) کی ہے، جب اپوزیشن احتجاج کرتی ہے تو اس کا ہدف حکومت ہوتی ہے اور ایک واضح دشمن سامنے ہوتا ہے جو پارٹی کارکنان کو بھی حوصلہ اور ولولہ دیتا ہے، جب کہ یہاں دشمن کے متعلق محض اشاروں میں بات کی جاتی رہی، کھل کر کوئی بھی کچھ کہنے کو تیار نہیں ہوا۔
اب جب ن لیگ کا سیاسی پاور شو اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے تو مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کو چاہیے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے دوسرے مرحلے جس میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کرپشن کے کیسز چلنے ہیں ان کی تیاریاں شروع کردیں، میاں صاحب اور ان کی پارٹی کو سوچنا چاہیے کہ ان کیسز سے کیسے نمٹا جائے، یہ بالکل ایک قانونی مسئلہ ہے، اگر ن لیگ سمجھتی ہے کہ عوام کی طاقت دکھاکر عدلیہ یا اداروں کو دباؤ میں لانے میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کورٹ بیرونی ماحول سے متاثر ہوئی ہو ، بیشتر قانونی ماہرین اور وکلاء حضرات سمجھتے ہیں کہ عدالت پر بیرونی ماحول اثر انداز نہیں ہوتا اور عدالت ثبوت و شواہد کی روشنی میں قانونی فیصلہ کرتی ہے۔
نواز شریف مارچ کے دوران بڑی معصومیت سے سوال پوچھتے رہے کہ کیا میں نے کوئی کرپشن کی ہے؟ حالانکہ یہ سارے معاملات سپریم کورٹ کے حکم پر نیب ریفرنسز میں سامنے آئینگے، انھیں وہاں ثابت کرنا ہوگا کہ کوئی کرپشن نہیں کی، جس کے لیے انھیں کافی تیاری بھی کرنا ہوگی مگر ن لیگ نیب میں دائر ہونیوالے ریفرنسز کی تیاری کرنے کے بجائے محض سازش، سازش کا راگ الاپ رہی ہے، نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ نیب میں بھی مرضی کا فیصلہ لیا جائیگا، فیصلے سے قبل اس طرح کی باتیں مناسب نہیں کیونکہ عدالت اس کا نوٹس لے سکتی ہے اور جو تھوڑا بہت ریلیف ملنے کا امکان ہے وہ بھی ختم ہو کر رہ جائیگا۔
زمینی حقائق کے برعکس ن لیگ کی نظر میں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ ایک سازش ہے، ن لیگی رہنما یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ جے آئی ٹی میں پیروی کے دوران ان کی پالیسی درست نہیں تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی رخصتی و نااہلی کا فیصلہ کسی اور وجہ سے ہوا ہے، عدالتی فیصلہ کو صرف ذریعہ بنایا گیا ہے، پانامہ تو صرف ایک بہانہ تھا جس میں نواز شریف کو نشانہ بنایا گیا۔ ن لیگ کی جانب سے ڈھکے چھپے الفاظ میں سازش کی بات کی جارہی ہے، لیکن کیا سازش کی گئی؟ کس نے سازش کی؟
اس پر ن لیگی رہنما اور خود نواز شریف ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں، حالانکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید احمد شاہ نے میاں صاحب کو کہا تھا کہ اگر آپ کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے تو ہمیں بتائیں کہ یہ سازش کون کررہا ہے، ہم آپ کا ساتھ دینگے لیکن نواز شریف اس بارے میں کھل کر کچھ بتانے سے گریز کررہے ہیں۔ اداروں پر اس طرح کی الزام تراشی کرنا درست نہیں کیونکہ پانامہ لیکس ملکی نہیں بین الاقوامی سکینڈل ہے، انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلزم (آئی سی آئی جے) نے اس معاملے کی چھان بین کی اور پھر اسے منظر عام پر لایا گیا، جس میں دنیا کے کئی ملکوں کے وزرائے اعظم نے استعفیٰ دیدیا مگر پاکستان کے وزیر اعظم نے اپنا کیس لڑا اور عدالت کے ذریعے فیصلہ ہوا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے بعد خود پر قابو رکھتے ہوئے اپنی جگہ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بناکر ملکی نظام کو تلپٹ نہیں ہونے دیا اس لیے اپنی آیندہ کی حکمت عملی بناتے ہوئے انھیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ان کے ہر سیاسی اقدام کا ان کی پارٹی کی حکومت پر مثبت یا منفی اثر پڑے گا۔ ان کے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جو انھیں اپنی مقبولیت کے ذریعے نظام پر دباؤ ڈالنے کا مشورہ دینگے، یہ لوگ انھیں تصادم کے راستے پر لے جانا چاہیں گے، ایک عدالتی معاملے کو سول ملٹری معاملات سے جوڑنا بظاہر بے محل معلوم ہوتا ہے لیکن حکمران جماعت کی طرف سے یہ بات بار بار دہرانے کا بظاہر کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ پاکستان اس وقت کئی طرح کے اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے، ایسے میں سب سے زیادہ ذمے داری حکمران جماعت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاست میں تلخی لانے کے بجائے ملکی استحکام کے لیے کام کرے اور قانونی معاملات کو عدالتوں میں قانونی ذرایع سے حل کرے۔